مری آباد، کوئٹہ، بلوچستان کا ایک منظر

بلوچ قبائلی جو قبل از اسلام والے مکہ، مدینہ والوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمیرا علیم

آج تک قبائلیوں کے بارے میں پڑھا ہی تھا مگر کوئٹہ میں رہتے ہوئے کچھ قبائلی بلوچ اور بروہی لوگوں کو قریب سے جاننے کا موقع ملا تو اسلام کے ابتدائی دور کی یاد تازہ ہو گئی۔

یہ لوگ نہ صرف ایک ہی جگہ پر رہنا پسند کرتے ہیں بلکہ مل جل کر ہر کام کرتے ہیں۔ یہاں موجود کلیوں میں ہر خاندان کے 50 سے 200 گھر ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ایک ہی خاندان یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ قبل از اسلام مکہ و مدینہ کے رہائشی تھے۔

یہ لوگ کچے گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور بہت کم کنکریٹ کے گھر بناتے ہیں۔ امراء سرداران کے ڈیرے بھی کچے ہی ہوتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اب کنکریٹ کے ہی ہوتے ہیں۔

گھروں میں فرنیچر بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تو قالین پر لمبے گدے اور گاؤ تکیے رکھ کر بیٹھنے یا سونے کا انتظام ہوتا ہے۔ کھانا بھی بے حد سادہ ہوتا ہے، کم مرچ مصالحے اور گھی سے پکے کھانے خصوصا روش، سجی اور کھڈا کباب اور دنبے کے گوشت کی بنی ڈشز ان کی پسندیدہ غذائیں ہیں جن کےساتھ مخصوص روٹی کاک اور خشک لسی کرت کا استعمال مقبول عام ہے۔ بے حد مہمان نواز لوگ ہیں۔ اگر کوئی اجنبی بھی ہو تو کھانے کے وقت اسے شامل کر لیتے ہیں اور ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔

مجھے ان کا یہ رواج بہت پسند ہے اور بمطابق سنت لگتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا اپنی استطاعت کے مطابق ایک گھر یا کمرہ سیٹ کرتا ہے۔ ضرورت کی ہر چیز، قالین، گاؤ تکیے، گدے یا فرنیچر، کچن کا سارا سامان کراکری وغیرہ، دلہن کے کپڑے زیور جوتے وغیرہ اس کمرے یا گھر میں سیٹ کرتا ہے۔

دلہن کے والدین اسے چیک کرتے ہیں۔ اگر کوئی چیز کم لگے یا تبدیل کروانا چاہیں تو لڑکے کو ان کی پسند کے مطابق کرنا پڑتا ہے۔ پھر شادی پہ آنے والے تمام مہمان خواہ دلہا کی طرف سے ہوں یا دلہن کی طرف سے، ان کے ٹھیرنے، کھانے پینے کا انتظام و اخراجات دلہا کے ذمے ہوتے ہیں۔ چاہے تو اپنی آسانی کے لیے دلہن کے والدین کو پیسے دیدے یا اشیاء مہیا کر دے۔

منگنی پر بھی چائے کی پتی، چینی، دودھ اور اسنیکس کا سارا خرچہ دلہا ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ دلہن کے ماں باپ کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا نہ شادی پر نہ شادی کے بعد۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش پر جو خوشی منائی جاتی ہے وہ بیٹے کی پیدائش پہ نہیں منائی جاتی۔

جبکہ ہم پنجابیوں میں تو منگنی سے لے کر بیٹی کے مرنے تک تاوان کی صورت رقم، زیورات ، جہیز، پہناونیاں اور بچوں کی پیدائش، تہوار اور حتی کہ مرگ پہ بھی سارے خاندان کو کپڑے جوتے زیورات تحائف اور پیسے دے دیکر والدین کا بھرکس نکل جاتا ہے اور بیٹی کو سکون پھر بھی نہیں ملتا۔ تاہم یہ بھی ہمارا ہی قصور ہے کہ ہندو رسم و رواج کو اپنا کر اپنی زندگیاں خود اپنے ہاتھوں جہنم بنا رکھی ہیں۔

کسی کا انتقال ہو جائے تو بجائے دیگیں پکانے میں مصروف ہو کر جنازہ اٹھتے ساتھ اعلان کرنے کے کہ ” کھانا کھا کر جائیے گا”۔ اس حوالے سے ان بلوچ قبائلیوں کا یہ رواج بھی عین اسلامی طریقے کے مطابق ہے کہ تین دن تک کھانا رشتے داروں یا ہمسایوں کے گھر سے آتا ہے۔ چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت خاندان کے تقریبا سبھی افراد قریب قریب رہتے ہیں ( الگ گھروں یا پورشنز میں ) تو فوتگی ہو یا شادی مہمانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے اور کھانا بھی 150 -200 بندے کا ہی بھیجا جاتا ہے۔

فوتگی والے گھر کا بزرگ ایک قالین یا چٹائی پر بیٹھ کر تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملتا ہے۔ ہر آنے والا تعزیت کے بعد اٹھتے ہوئے اس کے قالین یا چٹائی کے کونے کے نیچے حسب استطاعت پیسے رکھ جاتا ہے۔ اس رسم کا مقصد شاید یہ ہو کہ کفن دفن اور دیگر اخراجات میں مرحوم کے گھر والوں کی کچھ مدد کی جائے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک رواج بچپن میں اپنے گاؤں میں دیکھا تھا کہ خواتین شادی یا فوتگی پر ایک کھجور کے پتوں کی بنی ٹوکری میں کچھ گندم اور چینی اور پیسے رکھ کر لاتی تھیں۔ چونکہ اس زمانے میں پیسہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا یا لوگ اتنے خوشحال نہیں ہوتے تھے چنانچہ گندم اور چینی کے ذریعے ہے مدد کر دی جاتی تھی۔

بہرحال بلوچ قبائلی قبیلے میں تیسرے دن تعزیت کا سلسلہ باقاعدہ طور پر ختم ہو جاتا ہے کوئی جمعرات، چالیسویں وغیرہ جیسی بدعات نہیں ہوتیں۔ ایک چٹائی پر بیل کاٹ کر اس کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں اور ہر آنے والےکو کچھ گوشت تھما دیا جاتا ہے لیکن پنجاب جیسا رواج نہیں ہے کہ سات قسم کے کھانے، فروٹس اور ڈرائی فروٹس، مرنے والے کے ایصال ثواب کے لیے ولیمے سے زیادہ اہتمام کر کے خوب مزے لیے جاتے ہیں اور جس چیز کی مرنے والے کو ضرورت ہوتی ہے یعنی دعائے مغفرت اس کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا، ویسا کچھ بھی یہاں نہیں ہوتا۔

دیگر بہت سے رسم و رواج میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کیساتھ ساتھ یہ لوگ نماز روزے کے بھی پابند ہوتے ہیں۔اکثر کئی انچ برف میں، بہتی کسی ندی کے کنارے انہیں یخ ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھتے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ حتی کہ نابالغ بچے بھی اذان کی آواز سنتے ہی خودبخود مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔ مرد حضرات ٹوپی اور پٹکے کا استعمال بھی کرتے ہیں اور داڑھی بھی رکھتے ہیں۔ اگرچہ خواتین میں کم ہی پردے کی پابندی دیکھنے میں آتی ہے مگر چادر سے سر ضرور ڈھانپا جاتا ہے۔ لوگ ذکر کے لیے تسبیح بھی ہاتھ میں رکھتے ہیں۔

جہاں ان میں بہت سی خوبیاں ابتدائی دور اسلام والی ہیں وہاں کچھ خامیاں بھی انہی والی موجود ہیں۔ جیسے کہ یہ لوگ قبائلی عصبیت کا شکار ہیں۔

مجھے یاد ہے اکبر بگٹی کے ایک بیٹے نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا۔” میں پہلے بلوچ ہوں، پھر مسلمان اور پاکستانی ہوں۔” تو جہاں ان کی قوم یا قبیلے کا سوال ہو وہاں یہ کسی کی نہیں مانتے سوائے اپنے سردار کے۔ دوسرے یہ لڑائی بھڑائی اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے بھی شوقین ہیں۔ بہت سے لوگ نسوار، سگریٹ، تمباکو اور دیگر نشوں کے عادی ہوتے ہیں۔ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی۔

مجھے یاد ہے میرا بیٹا ہسپتال میں ایڈمٹ تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور سب لوگ روزہ رکھتے تھے۔ہمارے سامنے والے کمرے میں ایک 6-7 سالہ بچہ ایڈمٹ تھا جس کے والدین کیساتھ ساتھ 10-15 افراد خانہ بھی وہیں موجود تھے۔( اگرچہ یہ ہونا نہیں چاہیے مگر ہسپتال انتظامیہ بھی اب ان چیزوں کی عادی ہو چکی ہے)۔

روزہ کھلنے سے پہلے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے دروازہ کھولنے پر ایک 24-25 سال کی لڑکی روح افزاء کا جگ اور بڑا سا آدھا تربوز اٹھائے کھڑی تھی۔ بلوچی میں اس نے کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ مگر جب اس نے افطاری کہہ کر چیزیں میری طرف بڑھائیں تو سمجھ آیا کہ وہ میرے لیے افطاری لائی ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ میں اکیلی ہوں اور یہ سب بہت زیادہ ہے۔ آپ پلیز یہ لے جائیں۔ اس نے اصرار کیا تو میں نے شربت رکھ لیا۔

روزہ کھلنے کے بعد میری نند اور شوہر آئے ( بڑے بیٹے کے اسکول کی وجہ سے میاں کو گھر پر رہنا پڑتا تھا) تو وہ لڑکی بھی آ گئی۔ میری نند کچھ بلوچی سمجھ لیتی تھیں لہذا ان سےبات چیت کرنے سے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا بیٹا ایڈمٹ ہے اور وہ پشین سے کوئٹہ آئےتھے۔

دو دن وہ چکر لگاتی رہی اور میں اس کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئی کہ اپنا بیمار بچہ چھوڑ کے میرے پاس بار بار آ جاتی ہے۔ آخر تیسرے دن عقدہ کھلا جب اس نے میری نند سے کہا ’اپنے بھائی سے کہیے وہ مجھے ایک سگریٹ دے دے۔ میں نے اتنے دنوں سے سگریٹ نہیں پیا اور میری حالت بری ہے۔‘

پھر اس نے بڑے مزے سے ہمارے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پی۔ اگرچہ مجھے اپنے بیمار بیٹے کی وجہ سے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا مگر مجبوری تھی۔

پوچھنے پہ معوم ہوا کہ اس کی عمر 26 سال ہے اور وہ 16 سال کی عمر سے گھر والوں سے چھپ کے نہ صرف سگریٹ پی رہی تھی بلکہ افیم بھی استعمال کر رہی تھی۔ اب ہسپتال میں شوہر اور سسرال والوں کی موجودگی میں سگریٹ خریدنا اور پینا ممکن نہ تھا۔ میرے شوہر کو کہیں لان میں سگریٹ پیتے دیکھ کر اس نے سوچا چلو اپنی طلب ہماری مدد سے پوری کر لی جائے۔ اس کے مطابق تقریبا 50 فیصد خواتین حقہ یا سگریٹ استعمال کرتی ہیں اور کچھ نہ صرف ہیروئن پیتی ہیں بلکہ بیچتی بھی ہیں۔

پناہ دینے کے معاملے میں بھی کٹڑ ہیں۔ اگر دشمن بھی پناہ مانگے تو ضرور دیتے ہیں۔ اور اپنی جان دے کر بھی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر برائی یہ ہے کہ اس رواج کی وجہ سے دہشت گرد پولیس اور رینجرز سے بچنے کے لیے جب ان کلیوں میں چھپ جاتے ہیں تو پکڑے نہیں جاتے۔

ان سب خامیوں کے باوجود قبائلی سسٹم بہترین سسٹم ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو جرگہ ہی میں طے کر لیا جاتا ہے، کورٹ کچہری کے چکر میں پڑ کر خوار نہیں ہوتے اور جھگڑے بھی نمٹ جاتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بزرگوں کا احترام کرنے کی ریت اب بھی باقی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں