نوازشریف کی چھٹی کس نے کرائی تھی؟ اہم انکشافات سامنے آگئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایوان اقتدار سے باہر نکالے جانے کے بعد ایک نیوزکانفرنس میں ایوان اقتدار سے اپنی بے دخلی کے اسباب بیان کئے تھے، حکومت کرتے ہوئے انھیں کن مشکلات کا سامنا رہا، انھوں نے واضح طور پر کافی کچھ بیان کیاتھا۔ ان کا کہنا تھا:

٭’’مشرف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھادیا گیا، مجھے دھمکی نما مشورہ دیا گیا کہ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کردو، بذریعہ زرداری پیغام دیاکہ مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے، میں نے مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دینے سے انکارکیا، آصف زرداری نے مصلحت سے کام لینے کو کہا‘‘۔

٭’’ مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتاہے، میرے خلاف جھوٹے، بے بنیاداور خودساختہ مقدمات کی وجہ جنرل مشرف کو سنگین غداری کیس میں کٹہرے میں لانا ہے‘‘۔

٭’’ سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتی ہے، جنوری 2014 میں مشرف عدالت کے لیے نکلا توطے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گیا، پرویز مشرف پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، انصاف کے منصب پر بیٹھے جج مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے‘‘۔

٭’’ 2014کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، مجھ پر لشکرکشی کرکے پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف غداری کیس کو چلانا اتنا آسان نہیں ہے، لشکر کشی کرکے پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلے جاؤ، میرے راستے پر شرپسند عناصر بٹھادیے گئے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، کہا گیا وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے، مقصدتھا مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں، مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر فسادی عناصر سے کچھ محفوظ نہ رہا، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر؟ وہ جوکوئی بھی تھا اس کی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی‘‘۔

٭’’ پاناما میں عالمی لیڈرز کا نام بھی تھا،کتنے سربراہان کو معزول کیا گیا؟ پاکستان میں یہ کارروائی جس شخص کے خلاف ہوئی اس کانام نواز شریف ہے، نواز شریف کا نام پاناما میں نہیں تھا‘‘۔

٭’’ میں نے سرجھکا کرنوکری کرنے سے انکار کردیا، میں نے اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا، میں نے خارجہ پالیسی کوقومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، مجھے ہائی جیکر کہیں، مجھے سسیلین مافیا کہیں، مجھے گاڈ فادر کہیں، مجھے غدار کہیں، فرق نہیں پڑتا، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں‘‘۔

٭ ’’داخلی و خارجی پالیسیوں کی باگ ڈور متنخب عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، آج بھی کہتا ہوں فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے فیصلے کا اختیار دیا‘‘۔

٭ ’’مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے اپنے اقتدار اور ذات کو خطرے میں ڈالا کہ ڈکٹیٹر کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے‘‘۔

٭ ’’کاش! آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کوطلب کرسکتے، ان سے پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا، کاش آپ سینئر ججز کو بلاکر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں ہرمارشل لاء کو خوش آمدید کہتے رہے، کاش! آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا؟‘‘

تمام تجزیہ کار اور ماہرین متفق ہیں کہ عمران خان دھرنے کے دوران میں جس ’’انگلی‘‘ کے اٹھنے کی بات کرتے تھے، اس سے مراد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہی تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوج اس دھرنے کے پیچھے تھی؟ممتازصحافی اور تجزیہ نگار جناب عارف نظامی کا کہناہے کہ 2014ء کے دھرنے میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بظاہرکوئی کردار ادا نہیں کیا تاہم پہلے پہل انھوں نے اور ان کے انٹیلی جنس چیف نے دھرنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے عمران خان نے تیسرے امپائر اور امپائر کی انگلی کا نام لیا، جب معاملہ زیادہ بڑھا توپھر نوازشریف نے راحیل شریف کو بلالیا اور کہا کہ ہماری مدد کریں، ہم پھنسے ہوئے ہیں کچھ کریں۔ نوازشریف سے ملاقات کے بعد انھوں نے جس جس کو دھرنے والوں کے لئے آگے کیاہواتھا، انھیں کھینچ لیا، انگلی اورپھرامپائر کی انگلی بھی کھڑی نہیں ہوئی۔جن جن کو آگے کیاہواتھا، انھیں ادھر ادھرکردیاگیا۔

انہی دنوں میں ملکی اور غیرملکی میڈیا میں بھی یہ خبریں دکھائی دیں کہ کورکمانڈرکانفرنس میں دھرنا تحریک کی مزید فعال پشتی بانی اور نوازشریف کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کرنے کا موضوع زیربحث آیا، جس میں جنرل راحیل شریف کا موقف تھا کہ سویلین قیادت کو نکال باہر کرنے کے لئے یہ وقت مناسب نہیں جبکہ پانچ کمانڈرز دھرناتحریک کی حمایت کے لئے مچلتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے، جب نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے مابین ملاقات ہوئی تو اس سے دھرنا کے منتظمین بھی مایوس ہوئے، پھر آرمی قیادت کی طرف سے جمہوریت کی مکمل حمایت کا عزم ظاہرکیاگیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سابق صدرجاویدہاشمی نے دھرنا تحریک کے دوران ہی انکشافات سے بھری پریس کانفرنسیں کی تھیں کہ عمران خان دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف کے ساتھ ملاقات سے خوش نہیں تھے، کیونکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انہیں صرف 4 یا 5 منٹ کیلئے سنا جبکہ طاہرالقادری کو35منٹ دیئے، تاہم وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ آرمی چیف نے نوازشریف کے حوالے سے ضمانت دی ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ میں جنرل کیانی اورجنرل پاشا سے رابطے میں ہوں، جو شخص بھی تحریک انصاف میں آتا تو اسے کہا جاتا کہ میں آپ کی خود بات جنرل پاشا سے کراؤں گا۔

عمران خان نے دھرنے سے پہلے یہ تاثر سب کو دیا کہ ہمیں اقتدار میں ایجنسیاں اور فوج لائیں گی۔جاویدہاشمی کا کہناتھا:’’مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دھرنا جنرل پاشا کا برین پلان تھا۔ میری پریس کانفرنس کے بعد جنرل پاشا نے مجھے فون کیا اور کہا:’’ میرے بارے میں غلط بات کی‘‘، میں نے کہا’’ آپ مجھے دھمکی نا دیں‘‘۔ جنرل پاشا نے کہا:’’ میں نواز شریف، خواجہ آصف اور چودھری نثار کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ میں نے ان کو کہا کہ ’’اس طرح دھمکیاں نہ دیں ناہی میں ڈرنے والوں میں سے ہوں‘‘۔ جاویدہاشمی کے بقول :’’جمہوریت کو جنرل راحیل شریف نے بچا لیا ورنہ نظام پلٹنے کا منصوبہ بنانے والے جنرل پاشا اورچند سابق کور کمانڈرعمران خان کو مجبور کرتے اور وہ وزیر اعظم بننے کی لالچ میں استعمال ہوتے رہتے۔ پاشا اور اس کے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنایا، اس کا مرکزی کردار عمران خان تھے‘‘ ۔

اگست2015ء میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے بھی دعویٰ کیا تھاکہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت کو لندن میں طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان ملاقات میں آئی ایس آئی کے چند لوگوں کی موجودگی کا علم تھا جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا ہے تاہم حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر دھرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ بعض طاقتیں چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت کا استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہوجائے۔

مشاہد اللہ خان کے مطابق ’’آئی بی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو دھرنے کے دوران افراتفری پھیلانے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کے لیے ہدایت دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ظہیرالاسلام کی یہ ریکارڈ ٹیپ 28 اگست کی شام وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ملاقات کے دوران سنائی جسے سن کر وہ حیران ہوگئے اور انہوں نے اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ظہیر کو میٹنگ میں بلا کر ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے اس آواز کی تصدیق کرنا چاہی جس پر لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے ٹیپ میں اپنی آواز کے ہونے کی تصدیق کی جس کے بعد آرمی چیف نے انہیں میٹنگ سے جانے کو کہا۔

اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بڑی تباہی ہونا تھی کیونکہ اس ٹیپ میں کھلی سازش تیار کی جارہی تھی جس میں وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کی بھی بات تھی جب کہ اس سازش کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نوازشریف نہیں بلکہ اس میں آرمی چیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سازش میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ایسے اختلافات پیدا کرنا بھی شامل تھے جس میں وزیراعظم مجبور ہوکر جنرل راحیل کے خلاف ایکشن لیں اور اس کے نتیجے میں فوج اقتدار پر قابض ہوجائے۔ تاہم جنرل راحیل شریف کو حکومت ختم کرنے کی خواہش ہوتی تو اس کے لیے کسی دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔تین برس قبل مشاہداللہ خان کا کہناتھا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف اس طرح کے اقدام پر کارروائی کی جاسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر کیسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تو درج کیا لیکن ان کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہوسکی جس طرح حکومت چاہتی تھی‘‘۔

اس کے بعد ’رائٹرز‘ سے ’وال سٹریٹ جرنل‘ تک، مغربی میڈیا نے خبریں دیں کہ سویلین قیادت اور فوج کے درمیان معاہدہ ہوگیا جس کے بعد فوج نے دھرنوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ امریکی اخبار’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘نے پاکستانی سرکاری حکام کے حوالے سے ایک معاہدہ کی خبر شائع کی جس کے تحت وزیر اعظم سلامتی امور اور اسٹریٹجیک فارن پالیسی کا کنٹرول چھوڑ دیں گے، فوج نے حکومت سے پرویز مشرف کی آزادی کا وعدہ بھی لیا۔ حکومتی اہلکارکا کہنا تھا کہ احتجاجی رہنماؤں کے ذاتی سیاسی عزائم کی حوصلہ افزائی فوج نے کی جو نواز شریف کے اختیارات کم کرنا چاہتی تھی۔

اسکرپٹ میں کبھی بھی حکومت کا تختہ الٹنا نہیں تھا بلکہ اسے اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ لٹکی رہے اور کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ فوج نواز شریف پر سلامتی امور اور خارجہ پالیسی کا کنٹرول چھوڑنے کیلئے دباؤڈالتی رہی۔ حکومتی اہلکاروںکا کہنا تھاکہ فوج نے سیاسی بحران کے دوران نواز شریف کی کمزور حیثیت پر قبضہ کرلیا کہ وہ ایک معاہدہ کریں جس کے تحت وہ سٹریٹیجک پالیسی کو چھوڑ دیں گے جس میں امریکا، افغانستان، اور بھارت کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں جنہیں مسلح افواج کی طرف سے کنٹرول کیا جائے گا۔ اخبار کے مطابق پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کی کامیابی کے بعد نواز شریف کی مسلح افواج پرسویلین کنٹرول کی کوشش نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کردیا ،نواز شریف نے ان پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا جوروایتی فوج کی ڈومین تھیں۔

ان دنوں چھن چھن کر آنے والی خبروں کے مطابق معلوم ہوا کہ فوج نے نوازشریف سے پرویز مشرف کی آزادی کا وعدہ لیا جن پر غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا، یہ ایشو بھی مسلح افواج اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ تھا۔ نتیجتاً سیاسی اور سیکورٹی حکام کے مطابق نواز شریف حکومت نے مشرف پر غداری کی علامتی فرد جرم عائد ہونے کے بعد خفیہ طور پر مشرف کے بیرون ملک جانے پر اتفاق کر لیا تھا لیکن نوازحکومت نے معاہدے پر مزید عمل نہ کیاچنانچہ فوج اور نواز شریف کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا۔

سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے بیانات کے بعد تادم تحریر(پانچ روز گزرنے کے باوجود) پاک فوج اور جنرل(ر) ظہیرالاسلام کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان آیاکہ ’’اگر دھرنے کے پیچھے جنرل ظہیرالاسلام تھے تو ان کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ جنرل (ر)ظہیر بتائیں کہ وہ تھے یا نہیں کیونکہ یہ فوج کے چہرے پر ایک بد نما داغ ہے اوراب اس بد نما داغ کو دھونے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اس دھبے کو جنرل ظہیر السلام اور فوج ہی مل کر دھوسکتے ہیں۔ہمارے پاس دھرنے میں جنرل ظہیر الاسلام کے ملوث ہونے اور ان کی جانب سے اس دھرنے کا بندو بست کیے جانے کے واضح ثبوت موجود ہیں ، اس بارے میں ہم یہ ثبوت فوج کی اعلیٰ قیادت کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں‘‘۔ یوں محسوس ہورہاہے کہ نوازشریف اور ان کی جماعت ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ اس پریس کانفرنس سے پہلے ایک بڑے انگریزی اخبار کے رپورٹر کو انٹرویو میں بھی نوازشریف نے کچھ ایسی باتیں کہیں جس سے ملکی سیاست میں خوب گرما گرمی پیدا ہوئی، اس کے بعد سابق وزیراعظم نے ایک قومی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا جو تعین کرے کہ غدار کون ہے؟

یہ سب کچھ بخوبی ظاہر کررہاہے کہ مسلم لیگ ن نہایت محتاط اور سوچے سمجھے انداز سے پیش قدمی کررہی ہے، اگر اس کے پاس دھرنے میں بعض جرنیلوں کے ملوث ہونے کے ثبوت اور ٹیپس ہیں تو پھر اس کا پلڑا بھاری ہے، ایسے میں اس کا خیال ہے کہ وہ حالات کو سویلین بالادستی کی طرف لے کرجارہے ہیں، چنانچہ اب بہت سے ایشوزکی بابت کمیشن قائم ہوں گے، جس کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔ اگریہ کمیشن قائم ہوتے ہیں تو نوازلیگ اسے اپنی بڑی کامیابی تصور کرے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں