بیلٹ باکس

الیکشن کا زمانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈھٹائی وہ عنصر ہے، جس کے اثرات اور نتائج بڑے خوفناک ہوتے ہیں۔ اچھے سے اچھا معلم ہو، بہترین تربیتی منصوبہ ہو لیکن اگر طلبا بدقسمتی سے ڈھیٹ اور ٹس سے مس نہ ہونے والے ہوں( یہ الگ موضوع ہے کہ یہ ڈھٹائی کیسے ان کےاندر پروان چڑھتی ہے) تو تربیت کے سارے منصوبے بے کار جائیں گے۔

کچھ یہی حال ہماری قوم کا بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ قوم بہت ڈھیٹ ہوگئی ہے، نہیں! بلکہ قوم کے شعور کی تربیت کرنے والے ڈھیٹ ہوچکے ہیں۔ قوم کے شعور و لا شعور کی تربیت کون کرتا ہے فی زمانہ؟

میڈیا(مین اسٹریم و سوشل میڈیا)

سلیبرٹیز

خصوصاً فلم آرٹسٹ، گانے ناچنے والے اور پھر کھلاڑی۔

لوگ لا شعوری طور پر انہی کو آئیڈیالائز کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں سیاسی شعبدہ باز، وہ بھی عوام کی آنکھوں میں اس قدر مہارت کے ساتھ دھول جھونکتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے کہ لوگ مٹی کے ان مادھوؤں ہی کو نجات دہندہ ماننے لگتے ہیں۔

اپنے ملک کے حالات دیکھ لیجیے، ہماری بات کی سچائی پہ یقین آئے گا۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مذکورہ بالا طبقات کا قبلہ و کعبہ دولت ہے، شہرت ہے اور مادی آسائشوں کا حصول ہے اور بس۔ (واضح رہے کہ راقم فنونِ لطیفہ اور اسپورٹس کی مخالف نہیں مگر اخلاقی ضابطے، اپنی روایات کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے!)

تپتی ریت، صحرا پر سورج بادشاہ کا راج، پانی کی شدید قلت، بھوک پیاس سے جاں بلب انسان اور حیوان اور اس بستی سے دور امراء عیاشیوں میں بدمست۔ ایسے میں چولستان کے ان باسیوں کو زندگی کا پیام دینے پہنچتے ہیں وہی جو صحرا کو گلشن کرنے کا عزم رکھتے ہیں، وہی جو زلزلہ زدگان  اور کورونا زدگان کے غم کا مداوا بنے ہیں۔

کفالت یتامی کی منصوبہ سازی کرتے ہیں۔

کبھی سیلابی ریلوں کے درمیان رقصاں موت کی دیوی کا غرور خاک میں ملاتے ہیں۔

فلسطین میں اسرائیل خون مسلم کا پیاسا ہوا تو یہی صدارتی ایوارڈ یافتہ *الخدمت فاؤنڈیشن* ان کی امداد اور بحالی کے پراجیکٹس لے کے وہاں پہنچی ہے۔

 الخدمت کے رضاکاروں کی جانفشانی کے تذکرے ہوں یا ان کے لیڈر کی ٹوپی کی آن بان کا قصہ، اس سب کچھ کو دیگر جماعتوں کی ’کار کردگی‘ کی طرح ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچانا کس کی ذمے داری ہے؟ میڈیا کی۔ !!!

لیکن افسوس صد افسوس! یہ میڈیا سیاسی شعبدہ بازوں کی سرگرمیاں،’عوامی‘ لیڈروں کے گھٹیا مکالمے تو پوری ڈھٹائی کے ساتھ سارا دن نشر کرتا ہے مگر نہیں دکھائے گا تو ایسی چیزیں نہیں دکھائے گا جس سے خیر اور خدمت کے کاموں کی تشہیر ہوتی ہو۔ کسی celebrity کا کتا مر جائے تو میڈیا تین دن تک سوگ کی کیفیت میں رہتا ہے مگر اس ڈھٹائی پہ کوئی کتنا ماتم کرے کہ ’الخدمت فاونڈیشن‘ کے سرپرست اعلیٰ اور ان کی جماعت اسلامی کی قومی و بین الاقوامی خدمات کو کماحقہ کوریج نہیں دی جاتی۔ عوام کو دانستہ یہ نہیں بتایا جاتا کہ آئین کے آرٹیکل 62  اور 63 پر پورا اترتا ہے تو واحد سراج الحق جیسا لیڈر ہے خود عدالت کے ریکارڈ میں یہ گواہی محفوظ ہے۔ 

پس اے، وہ کہ جس کا خمیراس مٹی سے اٹھا ہے، جس کو اس دھرتی کے ساتھ جذباتی و روحانی وابستگی ہے

اے وہ کہ جو سیاسی شعبدہ بازیوں سے متاثر نہیں بلکہ نظریہ کے علمبردار ہیں، اے وہ کہ جو اس دھرتی پر باران رحمت کا نزول چاہتے ہیں۔ اے وہ کہ جو لغو و لعب اور عریانی و فحاشی پھیلانے والی قوتوں کے Followers نہیں بلکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنا آئیڈیل ٹھہراتے ہیں، سب ایک ہوجائیں اور کردار کی شان اور خدمت کے تسلسل کا حصہ بن جائیں۔

اسی تسلسل میں 8 فروری 2024 کے دن ایک مہر بھی لگانی ہو گی۔

نئے پرانے شعبدہ بازوں سے متاثر میرے پیارے لوگو! دیگر انتخابی نشانات سے ذرا بچ کے، جی ہاں! الیکشن کا زمانہ ہو، امانت کی سپردگی کا بہانہ ہو تو آپ کی مہر کا حق دار صرف وہ نشان ہونا چاہیے جو دستور کی دفعہ 62 اور 63 پہ پورا اترے۔ اور ہم آپ کو بتا چکے، وہ ہے ترازو۔

واضح رہے کہ ریٹنگ کو ہی مطلوب و مقصودِ ٹھہرانے والا میڈیا آپ کو کبھی بھی ترازو کا تعارف نہیں دے گا۔ باقی سب نشانات کے ’فضائل‘ آپ کو گنوا دے گا۔

رائے اور فیصلے کا اختیار آپ کو آپ کے خالق نے محدود مدت کے لیے دیا ہے لہٰذا خوب سوچ لیجیے،

بار بار سوچیے کہ 

الیکشن کا زمانہ ہو

امانت کی سپردگی کا بہانہ ہو

ڈھٹائی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو

تو آپ کا واحد پیمانہ دستور کی دفعہ 62 اور 63  ہوگا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں