محمود-خان-اچکزئی-اور-عمران-خان

پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کون ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ ’سنی اتحاد کونسل‘ کی جانب سے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی معروف قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اور ان کا تعلق ایک بڑے پشتون قبیلے اچکزئی سے ہے۔ وہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

محمود خان اچکزئی چودہ دسمبر انیس سو اڑتالیس کو پیدا ہوئے۔ وہ معروف قوم پرست رہنما خان عبد الصمد خان اچکزئی کے صاحبزادے ہیں۔ واضح رہے کہ خان عبدالصمد خان کو قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں بنیادی انسانی حقوق کے لیے طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیں۔

محمود خان اچکزئی نے ابتدائی تعلیم گلستان اور کوئٹہ سے مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ چونکہ وہ ایک معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس بناء پر انھوں نے ملازمت یا کوئی پیشہ اختیار کرنے کے بجائے عملی سیاست میں قدم رکھا۔

1970 کے اوائل میں دستی بم حملہ میں خان عبد الصمد خان اچکزئی کی ہلاکت کے بعد محمود خان اچکزئی کو پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کا سربراہ بنادیا گیا۔ پی این اے پی اور شیرعلی باچا کی پختون خوا مزدور کسان پارٹی کے درمیان 1986 میں ایک معاہدہ ہوا، اس سمجھوتے کے نتیجے میں مارچ 1989 میں کوئٹہ میں ایک اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی ایم اے پی) بنائی گئی۔ شیر علی باچا پی ایم اے پی کے جنرل سیکرٹری جبکہ محمود خان اچکزئی چیئرمین منتخب ہوئے۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران انہیں افغانستان میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ وہ 1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں پاکستان واپس آئے۔

محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی نے کسی بھی مارشل لاء اور غیر جمہوری حکومتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ وہ ملک میں فوجی آمریتوں کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ وہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار خلاف اپنے سخت گیر بیانیے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔

محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تمام تحریکوں کا حصہ رہے ہیں۔ وہ عمران خان کی حکومت کے دور میں بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بھی حصہ تھے، تاہم 2024 کے انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پالیسیوں انھیں اختلاف رہا اور وہ ان دونوں جماعتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔

محمود خان اچکزئی ضمنی انتخاب میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اچکزئی 1993 کے پاکستانی عام انتخابات میں کوئٹہ کے حلقے سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنا پہلا الیکشن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے جیتا، 1997 کے عام انتخابات میں محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کی نشست ہارگئے۔

محمود خان اچکزئی 2002 کے عام انتخابات میں NA-262 حلقہ سے دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2007 میں انہوں نے اپنی اتحادی مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا۔ 2008 میں، انہوں نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے ساتھ اتحاد بنایا اور اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف کی قانونی حیثیت کو مسترد کرنے کے لیے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا اگرچہ انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن وہ سیاست میں سرگرم رہے۔

محمود خان اچکزئی نے 2013 کے عام انتخابات میں 2 حلقوں، این اے259 کوئٹہ اور این اے 262 قلعہ عبداللہ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا۔ کوئٹہ کے حلقے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اچکزئی کی حمایت کی تھی۔ اچکزئی نے NA 259 کوئٹہ سے کامیابی حاصل کی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار بنانے والی پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان ماضی میں محمود خان اچکزئی کے شدید مخالف رہے ہیں اور ان کی جلسوں میں سرعام تضحیک کیا کرتے تھے۔ بالخصوص ان کے چادر اوڑھنے کے اسٹائل کی نقل اتارا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں ایک جذباتی خطاب بھی کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری نئی پارلیمنٹ کا آغاز ہونے والا ہے، پارلیمان میں کوئی دوسرے کی بات کرنے کو تیار نہیں۔ ملک خطرناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ 22 کروڑ عوام کی پارلیمنٹ کو بکرا منڈی بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین سے ہماری اسٹبلشمنٹ کھلواڑ کرتی ہے، یہ ہاؤس 22 کروڑ لوگوں کا نمائندہ ہے، کچھ لوگ پاکستان کی پارلیمان کو بکرامنڈی بنانا چاہتے ہیں۔ جو بکتا ہے وہ وفادار، جو خریدتا ہے وہ وفادار اور جو کام نہیں کرتا وہ غدار کہلاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھاکہ نوازشریف کہتے تھے ووٹ کو عزت دو، عمران خان بھی عوام کی طاقت سے آگیا ہے، سب طے کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاست میں نہیں ہوگا اور پاکستان کی داخلی اور اندرونی سیاست کا سرچشمہ یہ پارلیمان ہوگا۔

محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم پاگل نہیں کہ کہیں فوج اور ایجنسیاں نہ ہوں لیکن ان کو سیاست سے توبہ کرنا ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرارداد منظور کی جائے جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت نہیں کی ان کو ہیرو قرار دیا جائے اور جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت کی ان کی تنخواہیں بھی واپس لی جائیں۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک خطرناک حالات سے گزر رہا ہے، پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ کوئی کسی کو بات کرنے نہیں دیتا اور کسی کی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہے، راجا پرویز اشرف نے کل ہم سے حلف لیا، جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے کہ میں آئین پاکستان کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔

محمود خان اچکزئی نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو اور ہمیں پتہ ہے کہ آئین کو ہماری اسٹیبلشمنٹ درخوراعتنا نہیں سمجھتی اور آئین سے کھلواڑ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہاؤس (پارلیمنٹ) 22 کروڑ پاکستانیوں کا نمائندہ ہاؤس ہے، اس کو لوگ بکرا منڈی بنانا چاہتے ہیں، یعنی پاکستان کی سیاست یہ ہوگئی ہے کہ ’جو بکتا ہے وہ وفادار، جو خریدتا ہے وہ وفادار اور جو کام نہیں کرتا وہ غدار۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے، نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے، عمران خان بھی عوام کی طاقت سے آئے ہیں۔’آپ (اسپیکر قومی اسمبلی) ابھی ہم سے حلف لے لیں اور یہ پارلیمنٹ اعلان کردے کہ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور جاسوسی اداروں کا کردار نہیں ہوگا۔‘

محمود خان اچکزئی نے تجویز دی یہ قرارداد پاس کی جائے کہ ’یہ پارلیمنٹ پاکستان کی داخلی اور اندرونی سیاست کا سرچشمہ ہوگی، کوئی جنرل درمیان میں نہیں آئے گا، ہم پاگل نہیں ہیں کہ کہیں آئی ایس آئی اور فوج نہ ہو لیکن ان اداروں کو مہربانی کرنا ہوگی کہ وہ سیاست سے توبہ کریں، ورنہ عوام کی طاقت سے ہم ان کو روک دیں گے، ہم ہر اس جج اور جنرل جو آئین کا احترام کرے گا، اس کو ہم سیلیوٹ کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب تک جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی جاری ہے، جس بھونڈے انداز میں اس مرتبہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا ہے، بھلا ہو ان ورکرز کا جنہوں نے جنرلوں کے بنائے ہوئے سارے کھیل کو الٹ دیا ورنہ انہوں نے تو عہدے بھی بانٹ دیے تھے کہ صدر، وزیر خارجہ اور وزیرداخلہ فلاں ہوں گے۔

’اب اس کو روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ 3 قراردادیں اسمبلی سے پاس ہوں کہ جن جن ججز نے آئین پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے مارشل لاء کا ساتھ نہیں دیا انہیں ملک کا ہیرو ڈکلیئر کیا جائے، ان ججز کے بچوں کو وہ ساری مراعات ملنی چاہیے جو ان سے چھین لی گئی تھی،’جن ججز نے مارشل لاز کی حمایت کی ان کو نوکریوں سے نکال کر ان سے مراعات واپس لی جائیں۔‘

انہوں نے تجویز دی کہ جو لوگ جمہوری جہدوجہد میں گولیوں سے مارے گئے انہیں بھی جمہوری ہیروز قرار دیا جائے، کیوں کہ یہ سیاسی ورکرز تھے جنہوں نے وزیراعظم نہیں بننا تھا، انہوں نے صرف جمہوریت کے لیے قربانی دی۔‘

محمود خان اچکزئی نے مزید کہا کہ جب پاکستان کے عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے تو اس کو بدلنا پاکستان کے عوام سے غداری ہے، آرمی چیف سے درخواست ہے کہ وردی میں لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مارا گیا ہے، جن جنرلوں اور بریگیڈیئرز نے سیاستدانوں سے ملاقات کی اور پیسے لیے، ان کو پاکستان آرمی سے نکال دینا چاہیے، سب توبہ کریں اور جنرل اور جاسوسی ادارے توبہ کریں اور عہد کریں کہ وہ آئین کی حدود کے اندر رہ کرکام کریں گے، تبھی پاکستان چلے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کون ہیں؟”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ اور معلوماتی مضمون ۔۔۔۔۔۔ کاش۔۔ محمود اچکزئی فرمودات پر عمل ہو۔۔اور پارلی منٹ مضبوط ہو