زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہارنا چاہتے تو یہ15 فلمیں ضرور دیکھئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فیصل ظفر،عاطف راجا……….
کیا آپ ایسی فلموں کو دیکھ دیکھ کر بیزار ہوچکے ہیں جو کسی قسم کا تاثر مرتب نہیں کرپاتیں؟ یا تفریح تو فراہم کرتی ہیں مگر ان میں حقیقی پیغام نہیں ؟

اگر ہاں تو آپ ان فلموں کو ضرور دیکھیں جو درج ذیل دی جارہی ہیں جو آپ کو متاثر کرنے کے ساتھ کسی مقصد یا زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے پرعزم بھی بنائیں گی۔

یہ ہر دور کی سب سے بہترین متاثر کن فلمیں ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ہم نہیں کرسکتے مگر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان کا تاثر تادیر ذہن سے اتر نہیں پائے گا۔

دی شاشنک ریڈیمپشن
کئی بار زندگی کسی کو مشکل حالات میں پھنسا دیتی ہے جس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا مگر وہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر چھپا انسان کیسے حالات پر قابو پاسکتا ہے اور اس کے لیے کچھ ناممکن نہیں ہوتا۔ٹم رابسن اور مورگن فری مین کی یہ دلچسپ و کلاسیک فلم جس میں کئی برسوں سے قید دو قیدی اپنی جیل کو ایسے بدل دیتے ہیں کہ وہ غیرمعمولی اور دنیا سے باہر کی جیل محسوس ہونے لگتی ہے۔ 1994 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو فرینک ڈارابونٹ نے ڈائریکٹ کیا اور یہ ایسی فلم ہے جسے جب بھی دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔

اٹس اے ونڈر فل لائف
یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی جو کہ کرسمس کے حوالے سے ایک فنٹاسی ڈرامہ فلم ہے اور اس میں ہیرو کو ایسا شخص دکھایا گیا ہے جو کرسمس کی شام پر اپنے خواب ترک کرکے دیگر افراد کی مدد اور خودکشی پر تلے ہوئے افراد کو بچانے کے لیے نکل جاتا ہے۔اپنے مزاح کی بدولت ہولی وڈ کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر فرینک کاپرا تھے جبکہ مرکزی کاسٹ میں جیمز اسٹیورٹ اور ڈونا ریڈ سمیت دیگر شامل تھے۔

دی ساﺅنڈ آف میوزک
1965 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے جو ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو نن بننے میں ناکام رہتی ہے جس کے بعد نیوی میں کام کرنے والا ایک کپتان اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اسے اپنے بگڑے ہوئے سات بچوں کو سدھارنے کے لیے رکھ لیتا ہے جس سے بچے خوش نہیں ہوتے مگر وہ ایک ایک کرکے انہیں رام کر ہی لیتی ہے جبکہ بتدریج نیوی کا کپتان اور ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس فلم کو رابرٹ وائز نے ڈائریکٹ کیا۔

فورسٹ گمپ
زندگی میں سادہ طرز فکر حقیقی خوشی کا باعث بن سکتی ہے، بغیر کسی بہت زیادہ کوشش کے زندگی کے بہاﺅ میں بہتے جانا کامیابی کی ضمانت بھی بن سکتا ہے اور یہی اس فلم کا مرکزی خیال ہے۔ 1994 میں رابرٹ زیمییکس کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ فلم ایک رومانوی فلم ہے جس کا مرکزی کردار ذہین تو نہیں ہوتا مگر وہ حادثاتی طور پر متعدد تاریخی لمحات کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے اور یہی دیکھنے والوں کو بھی بھا گئی۔

اے بیوٹی فل مائنڈ
معروف ریاضی دان جان فوربس نیش جونیئر کی حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم کو رون ہوورڈ نے ڈائریکٹ کیا جبکہ رسل کرو نے مرکزی کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کیا جو انتہائی تنک مزاج پروفیسر کا تھا۔ پھر وہ دماغٰ مرض شیز و فرنیا کا شکار ہوجاتا ہے اور دہائیوں تک اس کا مقابلہ کرکے کسی نہ کسی طرح اپنی ذہنی حالت پر کنٹرول حاصل کرتا ہے اور بتدریج نوبل انعام جیتنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

بریو ہارٹ
ایک نوجوان جنگجو کی کہانی جس کے والد اور بھائی کو برطانوی فوجی ہلاک کردیتے ہیں اور پھر وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کے لیے بیس سال بعد نکلتا ہے مگر اس سے پہلے وہ اپنی بچپن کی دوست کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور پھر آزادی کے لیے جاری جدوجہد سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے کھیتوں میں امن کے ساتھ رہنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تاہم اس کی محبت جب برطانویو فوجیوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہے تو پھر وہ اٹھتا ہے اور قیامت ڈھا دیتا ہے۔

دی لائن کنگ
کارٹون فلموں دیکھنے کے شوقین افراد میں سے کون ہوگا جس نے ایک شیر کے بچے اور مستقبل کے کنگ سیمبا کی اس کہانی کو نہ دیکھا ہو۔ 1994 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو راجر ایلرز اور روب منکوف نے ڈائریکٹ کیا، اور اس کی کہانی محبت، ذمہ داری، ہمت اور مضبوطی کا سبق دیتی ہے، اگر آپ نے اسے دیکھا نہیں تو ایک بار ضرور دیکھیں۔

دی پریسیوٹ آف ہیپی نیس
ایک حقیقی زندگی کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائے جانے والی یہ فلم حالیہ برسوں کی چند متاثر کن فلموں میں سے ایک قرار دی جاتی ہے۔ ول اسمتھ نے ایک ایسے تنہا شخص کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے بیٹے کی پرورش کررہا ہوتا ہے اور طبی آلات فروخت کرتا ہے مگر مالی حالت اتنی خستہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں بس اسٹیشن کے باتھ رومز اور بے گھر افراد کے شیلٹر میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ زندگی کے اس مشکل سفر میں وہ کبھی ہار نہیں مانتا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم کھڑا رہتا ہے،اس شخص کی زندگی کی مشکلات کو عبور کرنے کی یہ کہانی کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔

رے
ایک معروف موسیقار رے چارلس کی زندگی کی کہانی جو بچپن میں اپنی بینائی سے محروم ہوجاتا ہے اور پھر بھی کسی نہ کیس طرح پیانو کو چلانا سیکھتا ہے اور خود کو دنیا کے سب سے زیادہ چاہے جانے والے فنکاروں میں سے ایک کی فہرست میں لاکھڑا کرتا ہے۔ بینائی سے محرومی کے ساتھ اسے نسل پرستی اور منشیات کی لت کا بھی سامنا ہوتا ہے، ان میں سے ایک رکاوٹ بھی بیشتر افراد کو کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہیں مگر رے سب کو روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ جیمی فاکس نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ ٹیلر ہیک فورڈ نے اس کی ہدایات دیں۔

راکی
آپ مانے یا نہ مانے مگر راکی کو بیشتر افراد سب سے بہترین متاثرکن فلم قرار دیتے ہیں۔ اس کا بہترین تھیم سانگ، کلب فائٹر سے تمام تر مشکلات پر قابو پاکر ورلڈ چیمپئن بننے کے قریب پہنچ کر شکست کھانے کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم اسے خاص بنادیتے ہیں۔ سلویسٹر اسٹالون کے اس کردار کی مقبولیت ہی تھی جو اس پر اب تک فلمیں بن رہی ہیں اور متاثر بھی کررہی ہیں۔

Chariots of Fire
ویسے تو یہ فلم دوڑ کے میدان پر مبنی ہے مگر یہ دیکھنے والے افراد کو زندگی کے بارے میں متعدد سبق دیتی ہے۔دو افراد کے گرد گھومتی اس فلم میں دکھایا گیا ہے وہ جس پر یقین رکھتے ہیں اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، اپنے اقدار پر مفاہمت نہیں کرتے چاہے زندگی میں پیچھے ہی کیوں نہ رہ جائیں۔ یعنی یہ لوگ جس کو درست سمجھتے ہیں اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دیکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ایسا ہی کریں۔1981 کی اس فلم کو ہیوگ ہڈسن نے ڈائریکٹ کیا جبکہ بین کراس اور آئن چارلس نے مرکزی کردار ادا کیے۔

ریمیمبر دی ٹائٹنز
یہ ایک حقیقی کہانی پر مشتمل ہے جس میں رگبی ٹیم کے عروج و زوال کا احوال بیان کیا گیا ہے اور اس میں اہم پیغام یہ دیا گیا ہے کہ کوئی ٹیم اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب سب مل کر کوشش کریں۔ اپنی ذاتی رنجشیں ایک طرف رکھ کر اکھٹے ہو تو کامیابی قدم چومتی ہے جبکہ کسی کی بھی صلاحیت کا فیصلہ اس کے حلیہ کی بجائے رویے سے کیا جائے۔2000 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو بواز یاکن نے ڈائریکٹ کیا۔

اکتوبر اسکائی
ایک چھوٹے سے قصبے کے لڑکے کی حقیقی کہانی جس کے خواب بہت بڑے ہوتے ہیں، جو اپنے والد کی مرضی کے خلاف جاکر راکٹ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس راہ میں آنے والی تمام تر مشکلات سے گزر جاتا ہے۔ 1999 کی اس فلم کو جوئی جونسٹن نے ڈائریکٹ کیا۔

ان بروکن
دوسری جنگ عظیم کے دوران طیارے کے لگ بھگ جان لیوا حادثے کے بعد اولمپئن لیوئس زیمپیرینی کو 47 دن اپنے عملے کے دو ساتھیوں کے ساتھ سمندر پر لکڑی کے تختوں پر گزارنا پڑتے ہیں جس کے بعد وہ جاپانی بحریہ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قیدیوں کے کیمپ میں پہنچ کر تشدد کا سامنا کرتے ہیں اور زندگی کے اس بدترین دور سے نکلنے کی یہ کہانی آپ کے دلوں کو پگھلا کر رکھ دے گی جس میں ایک شخص کسی صورت ٹوٹنے سے انکار کردیتا ہے۔ انجلینا جولی کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ فلم 2014 میں ریلیز ہوئی۔

بلڈ ڈائمنڈ
ایک ماہی گیر، ایک اسمگلر اور کاروباری افراد کے ایک گروپ کے درمیان انمول ہیرے پر قبضے کے لیے ہونے والی یہ جنگ آپ کے اندر بھی جذبہ جگاتی ہے اور کس طرح زندگی میں آگے بڑھا جاسکتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں