زندگی کا ایک بڑا حصہ لاہور میں گزارنے کے بعد جب ادارے نے مجھے اسلام آباد ٹرانسفر کیا، پہلی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں گزاری، اگلی صبح جب بیدار ہوا تو یہ ایک نئی زندگی کا آغاز محسوس ہوا۔
مجھے کھڑکی سے پہاڑی کووں کی بھاری کائیں کائیں سنائی دی تو عجب خوشی کا احساس ہوا۔ تب مجھے یاد آیا کہ لاہور میں اکتیس برس اس حال میں گزرے کہ نہ کووں کی کائیں کائیں تھی، نہ طوطوں کی ٹیں ٹیں تھی، اور نہ ہی چڑیوں کی چہچہاہٹ۔
ضلع قصور کے گاؤں فتوحی والا میں بچپن گزر رہا تھا تو جنگل میں سرکنڈوں میں چھپے تیتر کی آواز سنا کرتے تھے، گندم کے کھیت میں بٹیر کی آواز سنتے تھے، اور درختوں سے فاختہ کی مسلسل آواز آتی رہتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ فاختہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سنایا کرتی ہے۔ اس کی آواز کو مسلسل دھیان سے سنا جائے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ ’کگھووو کوو۔۔۔۔یوسف کھوو‘ بولتی رہتی ہے۔
تاہم لاہور میں گزرے تین عشروں کے دوران میں ایسی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ کیونکہ لاہور میں درخت مسلسل کٹ رہے تھے، اور عمارتوں کے جنگل اگ رہے تھے۔ ایسے میں پرندے شہر سے ناراض نہ ہوتے تو کیا کرتے!
دلچسپ بات ہے کہ شہر کو ’ترقی‘ دینے والے سال میں ایک آدھ بار درختوں کی انسانی زندگی میں اہمیت بھی بیان کرتے تھے، ایک آدھ پودا شجرکاری کے نام پر بھی زمین میں گاڑ دیتے تھے لیکن دوسری طرف سینکڑوں درختوں سے شہر کی سرزمین کو محروم کردیتے تھے۔
انہیں کیا خبر کہ فطری زندگی انسانوں کے لیے کس قدر اہم ہوتی ہے، اس کا انسانی صحت سے کس قدر گہرا تعلق ہوتا ہے۔
مشہور امریکی مصنف اور استاد فرینک لائیڈ رائٹ کہا کرتے تھے کہ فطرت کا مطالعہ کرو، فطرت سے محبت کرو، فطرت کے قریب تر رہ کر زندگی بسر کرو ، یہ کبھی آپ کو ناکامی سے دوچار نہیں ہونے دے گی۔
اس سنہری قول کی اہمیت وہی لوگ سمجھتے ہیں جو دنیا کی ہنگامہ خیز زندگی سے تنگ آ کر ایک بار پھر فطرت کی گود میں چلے جاتے ہیں اور وہیں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور اس زندگی سے لطف حاصل کرتے ہیں۔
ایسے بہت سے لوگ ہیں، ان میں سے ایک آئرلینڈ کے مارک بوایو ہیں۔ ان کی زندگی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ذرا سا بھی نہیں۔ وہ پچھلے آٹھ برس سے فطرت کی گود میں رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جنگل کے بالکل قریب لکڑی سے بنے ایک گھر میں رہتے ہیں، شہری زندگی سے دور۔
مارک کوئی ان پڑھ شخص نہیں ہیں، بزنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے، اس کے بعد ایک اچھی ملازمت اور کاروبار ان کا منتظر تھا لیکن انہوں نے جنگل کے قرب میں زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں، یہ جاننے کے لیے ان کی کئی کتابیں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ زندگی کیسے گزارتے ہیں اور یہ زندگی انھیں کس قدر لطف فراہم کرتی ہے۔
آپ مارک بوایو جیسوں کی فطری زندگی پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ تارک الدنیا لوگوں کی زندگی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔ یقیناً آپ کا اعتراض وزنی ہے کہ ایسے لوگ جدید ٹیکنالوجی سے بھری ہنگامہ خیز دنیا کا حصہ بنتے ہیں، پھر ایک دن اس سب کچھ سے اکتا کر ترک دنیا ہی میں سکون تلاش کرتے ہیں، دنیا کے رشتوں ناتوں سے کٹ کر رہنے لگتے ہیں تاہم ایسی زندگی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ پھر یہ مسائل سنگین اور شدید تر ہوتے ہیں۔
یہود کے بعض قدامت پسند گروہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے پرہیز کو باقاعدہ مذہبی نظریات میں شامل کر رکھا ہے۔ بعض سو فیصد زندگی روایتی انداز میں گزارتے ہیں، جبکہ بعض کا نظریہ ہے کہ یوم سبت( ہفتہ) کو ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ وہ اس روز بجلی وغیرہ کا استعمال بھی نہیں کرتے۔ کمپیوٹرز سمیت دیگر ٹیکنالوجی کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔
دراصل انسان افراط اور تفریط میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان شٹل کاک بنا ہوا ہے۔ چکی کے ان دونوں پاٹوں میں پستے ہوئے وہ ایک دن توازن کی راہ پر چلنا شروع کردیتا ہے۔ اور توازن ہی زندگی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف انتہائی ضرورت میں ہو۔ جیسے ڈاکٹر آپ کو دردکش گولیاں دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ صرف اسی وقت کھانی ہیں جب درد ہو، ورنہ نہیں۔ بعینہ انسان صحت مند اور خوش رہنا چاہتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ فطری زندگی گزارے جیسے اس کے بزرگوں نے گزاری۔
یہ جدید ٹیکنالوجی ہی تو ہے جو اس سیارے سے جنگلات کو کم سے کم تر کیے جارہی ہے، جو پہاڑی چوٹیوں کو برف سے مکمل طور پر محروم کیے جارہی ہے، جو گلیشئرز کو پگھلا رہی ہے، جو اس زمین میں پانی کو کمیاب کرتی چلی جارہی ہے۔ صاف شفاف فضاؤں کو زیادہ سے زیادہ زہر آلود کیے جارہی ہے۔
درحقیقت انسان خسارے ہی کا سودا کرتا چلا جا رہا ہے، اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلائے جارہا ہے، درخت کی جس مضبوط شاخ پر بیٹھا ہے، اسے ہی کاٹے چلا جارہا ہے۔ حالانکہ اسے اس سب کچھ کی اہمیت کا خوب ادراک ہے۔ اس کے باوجود زندگی سے دور ہورہا ہے اور موت کے گھاٹ کی طرف بھاگا جارہا ہے۔
پس چہ باید کرد؟
یہ سوال کسی بھی فرد کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ سب کو فطری زندگی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، ایسی زندگی کو کیسے اور کیسے گزارا جائے، اس کا بھی بخوبی علم ہے۔ سوال محض یہ ہے کہ جب ہم پالیسی بناتے ہیں کہ ایک درخت کاٹیں گے تو دس اگائیں گے، اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں گرین ایریاز تیزی سے ختم ہوتے چلے جارہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب حکام کو علم ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے ہوتی چلی جارہی ہے، پھر ایسے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے جن سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجائے؟ کیا دنیا میں باقی اقوام اپنے ہاں زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں کرتیں؟؟؟؟ کیا ان کے اختیار کیے گئے طریقے ہمارے کام نہیں آ سکتے؟
بادبان، عبید اللہ عابد
تبصرہ کریں