کشمیرکے تجارتی مرکز لال چوک سے مشرق کی جانب 13کلومیٹر دور؛ ہری پربت پہاڑی کے دامن میں؛ آنچار کی دلدلی جھیل کے کنارے،کشمیر کی ایک اہم بستی صورہ کے نام سے موجود ہے؛ جہاں چھوٹے چھوٹے کچے، نیم پختہ اور پختہ مکانات تنگ گلیوں میں یوں آمنے سامنے ایستادہ ہیں جیسے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔ دن کے اُجالے میں بھی تاریکی سارا سارا دن ان گلیوں میں پڑی جمائیاں لیتی رہتی ہیں۔ دھوپ نُکڑوں اور ان مکانات کی چھتوں پر یوں آکر رُک جاتی ہے کہ جیسے اِسے آگے جانے کی ممانعت ہو۔ بہار میں یہاں’ فرّاٹے مارتی‘ ہواؤں کا چلن رہتا ہے جس کی وجہ سے مکانات کی چھت، دکانوں کی زینت بنے ہوئے سامان، چھتوں اور تاروں پر سُوکھنے کے لیے رکھے ہوئے کپڑے؛ ہوا میں رقص کرتے کرتے تا حدِ نگاہ دُور جا پڑتے ہیں۔ راہ چلتے لوگوں کی اصل شکل و صورت گرد و غبار کے نیچے ’دب‘ سی جاتی ہے۔ یہ مختصر سی آبادی بستے بستے بستی کی شکل اختیار کر گئی اور کشمیرکے سیاسی اُتھل پُتھل میں تاریخ کے صفحات پر اپنا انمٹ نشان چھوڑ گئی۔
اسی علاقے میں کشمیر کی سب سے پرانی ’عمررسیدہ‘ سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بانی اور خودمختار کشمیرکے پہلے وزیراعظم اور ماتحت جموں و کشمیرکے چوتھے وزیرِاعلٰی شیخ محمدعبداللہ کا آبائی مکان آج کل کھنڈرات کا ایک ڈھیرہے۔ یہ مکان کشمیر کی حقیقی صورتحال کا آئینہ ہے۔شیخ محمد عبداللہ سیکولر ذہنیت کے لیڈر تھے۔ ان کی ’کاوشوں‘ کا اور ’جدوجہد‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلم کانفرنس کا ٹمٹماتا ہوا چراغ اپنی آخری ہچکیاں لیتا ہوا نیشنل کانفرنس کو جنم دے پایا۔ یوں انہوں نے مسلم کانفرنس پر نیشنل کانفرنس کا ’قشقہ‘لگایا اور مسجدسے نکل کر’دَیر‘ میں آسن جمابیٹھے۔ اس انتقالِ فکر کے پیچھے مرحوم شیخ کی تلوُّن مزاجی، انانیت اور سیکولر ذہنیت کار فرما تھی۔
وہ کشمیر میں ڈوگرہ شاہی کا تاریک دور(Dark age)تھا۔ہر سُو کُہر کا جماؤ تھا۔کشمیریوں کے سیاسی و سماجی حقوق غیر محفوظ تھے۔ آسمان ابرآلو د تھا۔ رقص کرتی برف فلک سے فرش تک کا سفر دھیمے انداز میں طے کر رہی تھی۔ پربتوں،کوہساروں، بستیوں پر باہم سطریں لکھتے؛ مٹاتے وہ برف کے گولے، فرش پر سفیدچادر کی مانند تھے۔ اسی اثنا میں شیخ محمد ابراہیم کے ہاں ایک فرزند 5دسمبر 1905ء کو تولّد ہوا جو بعد ازاں کشمیرکے سیاسی افق پر ایک ایسا ’سورج‘ بن کر اُبھرا کہ جس نے شعاعوں کو عمرقید کی سزا سنا کر تاریکی کو اپنے وطن پر مسلط کیا۔
شیخ محمدعبداللہ کی ابتدائی تعلیم میں مدرسے کا بھی بہت اہم رول رہا ہے جہاں انہوں نے قرآن بھی پڑھا اور فارسی زبان سے بھی تھوڑی شُدبُد پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں اخلاقی دروس کے لیے فارسی کتابیں شاملِ نصاب ہوا کرتی تھیں۔ اخلاقی محاسن(Moral values) پیداکرنے میں مذہب کا بڑاعمل دخل تھا۔ اسکول اور مدرسوں میں اس پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ شیخ محمدعبداللہ نے بھی اسی ماحول میں تربیت پاکر انگڑائی لی۔ شیخ محمد عبداللہ دستِ الفاظ کاسہارا لیتے ہوئے ؛ کتابِ حیات کے پنّوں سے گردجھاڑکر؛ ماضی کے جھروکوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
’’چنانچہ مجھے اور میرے بڑے بھائی کے فرزند کو ۱۹۰۹ء میں محلے کے مکتب میں قرآن مجید پڑھنے کے لیے داخل کیا گیا۔ یہیں سے کلام پاک سے میرے والہانہ عشق کی ابتدا ہوئی جو الحمدللہ آج تک پوری طرح سرسبز و شاداب ہے۔۔۔۔ختم قرآن کے بعد ہم نے شاہ صاحب سے فارسی کی ٹکسالی کتابوں کریمانامِ حق، گلستاں، بوستاں، پندنامہ، بدائع منظوم کادرس لیا۔ اس کے علاوہ مکتب میں ارکانِ اسلام کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔بعد میں گھرکے بزرگ ہمیں مسجدمیں اپنے ساتھ لے جایا کرتے اور یہیں سے نمازمیرے معمول کالازمی جز بن گئی۔ اقتدار کا ایوان ہو یا زندان کی خلوت، ہرمقام پر نماز نے مجھے سہارا اور سکون دیا ہے۔گھر میں اُن دنوں صبح ایک آدھ پارہ قرآن کی اونچی آواز سے تلاوت بھی لازمی تھی اور بچپن کے اسی آمیزے میں جب میرا ذہن وضمیر کچّی مٹی کی طرح نرم تھا، قرآن کی لازوال اور سرمدی آیات میرے حافظے پر نقش ہوگئیں اور پھر زندگی بھر کڑے کوسوں میں مجھے اپنی قوتِ شفا سے بہرہ ور کرتی رہیں۔‘(آتشِ چنار؛ص9۔8)
سن 1931ء کے جامعہ مسجد سرینگر سانحہ نے ان کے فکرونظر پر اثر ڈالا اور وہ کشمیرکے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لیے سینہ سپر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ کشمیر کے سیاسی اُفق پر چھا گئے اور ایک سنجیدہ مزاج نوجوان برصغیرکے سب سے complexخطے کے قائد بن گئے۔ طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے کہ یہ شخصیت بناتی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہے۔ مادہ خیر اور شر اس سے جڑا ہوا ہے ۔صلاحیت کے ساتھ ساتھ گر صالحیت نہ ہو تو شخصیت بکھر جاتی ہے، پھسل جاتی ہے اور ساتھ میں اپنی قوم کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ مظلوموں کے حق میں’بانگِ درا‘ ثابت ہونے والی وہ آواز دھیرے دھیرے مظلوم کی آہ فغاں کاباعث بنی۔جس کے لیے لب سے دعائیں نکلتی تھیں، وہ اب بددعائیں سمیٹنے لگا۔
شیخ محمد عبداللہ کا مذہب اسلام تھا۔ البتہ سیاسی اکھاڑے میں آکر وہ اپنے عقیدے کو خالص نہ رکھ سکے۔ بڑے بڑے اجتماعات میں وہ سورہ یٰس و سورۃ الرحمٰن کی خوش الحانی سے تلاوت کرتے تھے لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ وہ بس ایک شعبدہ بازی(Duping) تھی تاکہ قوم کے جذبات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیاجاسکے۔ ان کے سیاسی سفر میں ایک طرف کعبہ تھا تو دوسری اور کلیسا۔۔۔۔ایک طرف درگاہ حضرت بل میں تبرکات کی تقسیم کاعمل تو دوسری طرف رَبوَہ (Rabwah ,punjab)کی آستانہ بوسی بھی۔۔۔۔۔ایک لمحہ کعبہ میں سربسجود تو دوسرے ہی لمحے قادیان کا طواف بھی۔۔۔۔کبھی اسلام کے لیے رکوع تو کبھی کمیونزم کے لیے ’قیام‘۔۔۔۔۔ ابھی اللہ کے رسولﷺسے اظہارِ عقیدت و محبت تو ابھی ’مرزا‘ کی مِدحت۔۔۔۔ ایک ایسا کردار جس کے شب و روز میں کوئی یگانگت تھی نہ مماثلت جس کے چلتے وہ کشمیر کے سوچنے سمجھنے والے اذہان کے لیے مشکوک شخصیت بن کر ابھرے۔
بی بی سی نامہ نگار سرینگر جناب ریاض مسرور لکھتے ہیں:
’ معروف اشتراکی دانشور اور سیاستداں آنجہانی رام پیارا صراف نے بیس سال قبل میرے ساتھ ایک گفتگوکے دوران بتایا: ’اُس وقت جنوبی ایشیا میں کمیونسٹ لہرجاری تھی اور جواہر لعل نہرو نے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو کمیونسٹ نظریات کاحامل بنایا تھا۔ پارٹی کا نام پہلے ہی مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس اور جھنڈا سبز سے سُرخ ہوگیا تھا اور بعد میں سرینگر کے مرکزی علاقہ شیخ باغ کا نام ماسکوMoscowکے ریڈاسکوائرRed Squareکے نام پر’لال چوک‘ رکھا گیا۔ ‘(بی بی سی اردو)
مفاد میں ایک کشش ہے۔ جن کے خون میں عزم، استقلال، صبر و عزیمت کا عنصر نہ ہو وہ کبھی بھی اور کہیں پر بھی اپنے ضمیر، عقیدہ اور وطن کو ذبح کر سکتے ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ ابھی عُنفوانِ شباب کی دہلیز پر ہی تھے۔ نئے نئے علی گڑھ سے فارغ ہو کر آئے تھے۔ سیاسی بصیرت کے لیے چودھری غلام عباس اور غلام نبی گلکار کی ’شاگردی‘ اختیار کی۔ وہ دونوں عقیدے کے اعتبار سے’ احمدی‘ تھے۔ مرحوم شیخ عبداللہ نے اُس دور میں ان کا اثر قبول کیا۔غلام نبی گلکار اور شیخ محمدعبداللہ نے سیاسی امور کو’فتح کدل ریڈنگ روم‘ کی آغوش میں جاری رکھا۔
(روزنامہ الفضل،لندن ؛غلام نبی گلکار؛2 نومبر2022۔www.alfazlonline.org)
احمدیوں کی آشیرباد سے ہی انہیں ’شیرِ کشمیر‘ کا خطاب ملا۔ مولانا ظفراللہ خان نے جماعت احمدیہ کے اخبار’الفضل‘کے حوالے سے لکھا ہے کہ شیخ محمد عبد اللہ تو ’الفضل‘ کے اداریوں سے ’شیر کشمیر‘ بن گئے ہیں۔
(اخبار’مکالمہ‘(Online portal Pakistan)مقالہ؛ ’کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ ‘ از راشد احمد۔5فروری 2017ء)
اسلام ، احمدیت، سیکولرازم، کمیونزم، نیشنلزم یہ شیخ محمد عبداللہ کی زندگی کے چندپڑاؤ ہیں۔۔۔۔ ہر در پر دستک دی۔۔۔۔سستالیے، مستفیدہوئے اور آگے بڑھ گئے۔۔۔۔ اقتدار کی ہوس حُسن وقبح؛ حق و باطل اور خوب و ناخوب کے درمیان کی لکیر مٹا دیتی ہے۔ رَبوَہ جو کہ احمدیوں کا مرکز تھا، سے شیخ محمدعبداللہ کو مالی اعانت بھی ملتی تھی۔۔۔۔حجازِ مقدس کی معطر فضا انہیں راس نہ آئی اور قادیان کی متعفن بُو انہیں قید کر گئی۔ تاریخ کے اوراق پھڑپھڑا رہے ہیں۔۔۔۔ چشمِ بینا رکھنے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔۔۔۔ وہ الفاظ چیخ چیخ کے پکار رہے ہیں کہ:
’چودھری غلام عباس کے علاوہ دوسرے لیڈرانِ کشمیری قوم بھی قادیانیوں کے وظیفہ خوار تھے جن میں سے شیخ محمد عبداللہ سرفہرست ہیں۔ ان کے بارے میں جب 3اکتوبر1931ء کو وہ گرفتار ہوئے؛ تو برطانوی ریزیڈنٹ نے اپنی سرکاری اطلاع میں شیخ عبداللہ کو قادیانی لکھا۔‘
(حکومت ہندفائل 35، رپورٹ مرسلہ 3 اکتوبر1931ء ،انڈیا آفس ریکارڈ؛1۔29۔780)
کہا جاتا ہے کہ قادیانیوں کے تب کشمیر میں تین اہم ایجنٹ تھے؛ جن میں سے ایک ’شیر کشمیر‘ کا نام بھی جلی حروف سے رقم ہے۔
( ضیا رسول امینی؛ مشمولہ ’وادی کشمیر اور قادیانی سازشیں‘؛18جنوری 2017ء۔www.ownislam.org)
قادیانیوں کی دستاویزات میں شیخ محمد عبداللہ کے خطوط کی نقل دی گئی ہے جس میں انہوں نے احمدی خلیفہ کو لکھا ہے کہ’ ہماری مالی امداد کی جائے، ہم آپ کے ہیں۔‘‘ 34/1933ء میں مرزا محمود نے شیخ عبداللہ کے لیے حمایت کا اعلان کیا اور ان کے حق میں کتاب بھی لکھی۔1934ء کو مرزا محمود کا ایک خط سرینگر سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں چھپا جس میں ظاہر کیا گیا کہ شیخ محمدعبداللہ ایک فعّال احمدی ہے۔
(ضیارسول امینی؛ مشمولہ ’وادی کشمیراور قادیانی سازشیں‘؛18جنوری 2017ء۔www.ownislam.org)
یہ وہ زمانہ تھا جب جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کی صدیوں سے خوابیدہ قسمت انگڑائی لینے لگی تھی۔’ینگ مینز مسلم ایسوی ایشن‘ کے پردے میں چودھری غلام عباس نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نے بھی سرینگر میں ایسوسی ایشن کی برانچ کھول کر سیاست کے خار زار میں قدم رکھ دیا تھا۔ مسلمانانِ ریاست کے افق پر دو نوجوان تیزی سے ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی آسمان پر پوری تابانی سے چھا گئے۔ چند برس بعد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی داغ بیل ڈالی گئی تو چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کی جوڑی اْس کی روح رواں تھی لیکن جیسے جیسے برصغیر کی سیاست میں پاکستان کا نظریہ ابھرتا گیا ویسے ویسے اِن دونوں لیڈروں کے راستے بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے گئے۔ شیخ صاحب نیشنل کانفرنس کا ڈیڑھ اینٹ کا ’مندر ‘ الگ بنا کر آنجہانی گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے چرنوں میں جا بیٹھے۔
حال کی حقیقت کو قال کی مصلحتوں میں چھپانا اْن کا شیوہ تھا۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے جب ’ینگ مینز ایسوی ایشن‘کے پلیٹ فارم سے اپنی اڑان شروع کی، اْس وقت وہ ایک سکول میں سائنس ٹیچر تھے۔ چہرے پر بڑی خوشنما داڑھی تھی اور گلے میں لحن داؤدی (بڑی میٹھی آواز) کا نور بھرا تھا۔ اْن کی قرات اور نعت خوانی ہزاروں لاکھوں کے مجمع کو مسحور رکھتی تھی لیکن پھر مسٹر گوپال سوامی آئنگر کشمیر کا وزیر اعظم بن کر آیا۔کہنے کو یہ آئی-سی-ایس افسر تھا لیکن در پردہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے مندر کا پجاری تھا۔اْس نے اپنے جال کچھ ایسی چابکدستی سے بچھائے کہ شیخ صاحب سدھائے ہوئے بٹیر کی مانند بڑی آسانی سے تہہِ دام آ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اْن کی مذہبی، ذہنی، معاشی اور جسمانی کایا پلٹ گئی۔ امیرا کدل اور حضرت بل کے جلسوں میں نعتیں پڑھ کر لاکھوں کو رلانے والے شیخ صاحب اب ’بندے ماترم‘ کا ترانہ الاپنے، بمبئی کے ’تاج‘ اور کلکتہ کے ’گرینڈ‘ ہوٹل کی ہائی سوسائٹی میں چہچہانے لگے۔ ریذیڈنسی روڈ جموں پر انجمن اسلامیہ کے غریبانہ دفتر سے اٹھ کر اْن کی نشست و برخاست بِرلا ہاؤس دہلی، انند بھون الٰہ آباد اور واردا جیسے مقامات میں منتقل ہو گئی۔
مسلم کانفرنس سے ناتا توڑ کر شیخ صاحب نے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی تو پہلے’ اُس کے‘ استرے سے اپنی خوبصورت داڑھی کا صفایا کیا اور پھر اس قضیہ کشمیر کی خشتِ اول بھی رکھ دی جو آج تک پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک خطرناک ناسور کی طرح رس رس کر بہہ رہا ہے۔ شیخ صاحب کی یہ ڈگر کسی نظریاتی اصول پرستی کا نتیجہ نہ تھی۔ نعت خوانی، تلاوت ِقرآن اور عیدین پر امامت کرکے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ آنکھ مچولی بھی کھیلتے تھے۔ اْن کے ’یارِ غار ‘پنڈت جواہر لال نہرو نے اْن کو کئی برس جیل میں ٹھونسے رکھا اور شیخ صاحب پھر بھی اُن کے حضور بدستور وفاداری کی دُم ہلاتے رہے۔ پنڈت نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی نے کالی دیوی کا روپ دھار کر آمریت کا ڈول ڈالا تو وہ بھی اُس کے فریم میں کھٹاک سے فٹ ہو گئے۔ مسز اندرا گاندھی کی معزولی کے بعد بھارت میں ہوا کا رخ بدلا تو شیخ صاحب نے بھی جھٹ پٹ ’قشقہ کھینچا، دَیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا۔ ‘
چنانچہ جموں کے پہاڑ پر ویشنو دیوی کا میلہ منعقد ہوا تو شیخ محمد عبداللہ نے بھی دیوی کی یاترا کے لیے کمر باندھی ۔۔۔۔اور آخری تین سو فٹ کا فاصلہ ڈَنڈَوَت (Bow)کرتے ہوئے پیٹ کے بل زمین پر لیٹ کر رینگتے ہوئے طے کیا۔’دیوی ماتا ‘کے چرن چھوئے اور اْس کے پاؤں کا دھوون پی کر اپنی وزارتِ اعلیٰ کو آبِ حیات کا انجیکشن دیا۔
٭٭٭
4 پر “ شیخ محمدعبداللہ کی مذہبی زندگی” جوابات
چشم کشا تحریر ۔۔۔۔۔ تاریخی حقائق ۔۔۔۔ اور شرم ناک طرز عمل ۔۔۔۔۔۔بہت عمدہ نثر۔۔۔۔۔۔
شکرًا ؛جزاک اللہ
میرے لیے معلومات افزا. بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب لیکن وہ واقعہ آپ سے چھوٹ گیا جب جناح نے کشمیر سے واپسی پر لاہور میں ایک نامہ نگار کے سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر میں ایک لمبا آدمی ہے جوعوامی اجتماعات میں قرآن گاتا رہتا ہے
آپ کی تحریر معلومات افزا اور ہر ذی شعور فرد کے لئے چشم کشا ہونے کے ساتھ ساتھ نثری ادب کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ گویا کہ موتیوں کو انتہائی سلیقے سے ایک دلکش مالا میں پیرویا گیا ہے۔
اخبارات اور جرائد میں شائع شدہ مواد کے حوالوں نے اسے یک دستاویزی شکل دی ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔