(ضیاء چترالی)
شیخ یوسف (رکن مجلس اسلامی فلسطین) کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک سفید ریش بزرگ کی صورت میں دیکھا تھا کہ آپ ایک بلند مقام پر سو رہے ہیں اور مغارہ (غار) کی نسیم آپ کے جسم مبارک سے مس کرکے آپ کی داڑھی کے بالوں کو چھو رہی ہے۔
یہ واقعہ میرے دل میں پیوست ہوگیا اور یہ صورت میرے حافظہ میں بالکل محفوظ ہوگئی، حتیٰ کہ میں نے ایک دن یہی صورت قاضی القضاۃ ابو الیمن محی الدین الحنبلی کی کتاب الانس الجلیل میں دیکھی، جیسا کہ اور راویوں نے بھی اپنی دوسری کتابوں میں اسی طرح روایت کی ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں’میں نے اصحاب حدیث کی کتابوں میں پڑھا ہے اور ان سے نقل کیا ہے کہ محمد بن بکران بن محمد خطیب مسجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امام تھے۔ یہ 323ھ میں رملہ کے قاضی تھے اور اس کے بعد بھی وہ وہاں کے قاضی رہے۔ انہوں نے بہت سی احادیث کی روایت کی ہے اور بہت سے علماء نے ان سے روایت کی ہے، انہوں نے بیان کیا:
’میں نے محمد بن احمد بن جعفر الانباری سے سنا کہ وہ کہتے تھے، میں نے ابو بکر الاسکافی سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ مجھے صحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر اسی مقام (فلسطین کے شہر الخلیل) پر ہے، جہاں وہ اب ہے۔ یہ بات خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ صورت یہ ہوئی کہ میں نے آپؑ کے مزار کے خدام اور مزار کے لیے کوئی چار ہزار دینار وقف کیے تھے، مگر میں یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ جان لوں کہ یہ بات صحیح بھی ہے کہ آپؑ کا مزار اسی مقام پر ہے۔
مجاورین میرا بڑا احترام کرتے تھے اور انہیں مجھ سے خاص لگاؤ ہوگیا تھا۔ میں نے ایک دن ان سے درخواست کی کہ مجھے قبروں کے اندر پہنچادو تاکہ میں اپنی آنکھوں سے انبیائے کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کا دیدار کرسکوں۔ انہوں نے کہا چونکہ آپ کا ہم پر حق ہے، مگر آج کل تو ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ زائرین آتے رہتے ہیں۔ جاڑوں کی راتوں میں جب برف گرنے لگے گی، تب یہ بات ممکن ہو گی۔
میں ان کے پاس ٹھہرا، حتیٰ کہ برف گرنے لگی اور رات کے وقت آنے والوں کا سلسلہ بند ہو گیا۔ وہ مجھے اس پتھر کے پاس لائے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق علیہما السلام کی قبور کے درمیان ہے۔ ایک شخص جس کا نام صعلوک تھا، مجھے لے کر اترا۔ کوئی 72 سیڑھیاں اترے تو میں نے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف دیکھا کہ سیاہ پتھر کا ایک تخت ہے۔ اس پر ایک بزرگ ہلکے رخساروں اور لمبی داڑھی والے چت لیٹے ہوئے ہیں اور ان پر سبز کپڑا پڑا ہوا ہے۔
صعلوک نے کہا: یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ تھوڑی دور چلے تو ایک اور تخت پہلے سے بڑا نظر آیا۔ اس پر بھی ایک بزرگ لیٹے ہیں۔ بال کاندھوں کے درمیان پڑے ہیں۔ داڑھی اور سر سپید ہے، ابرو اور پلکیں بھی۔ سبز جامہ پہنے ہیں اور ہوائیں آپ کی داڑھی کو چھو رہی ہیں۔
صعلوک نے کہا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ میں سجدہ شکر بجالایا اور کھڑا ہو گیا۔ پھر ہم ایک اور تخت کی طرف گئے تو دیکھا بڑا خوبصورت تخت ہے، اس پر ایک شخص گندم گوں رنگ والا اور گھنی داڑھی والا دراز ہے۔ دونوں منڈھوں کے درمیان سبز رنگ کا کپڑا لپیٹے ہوئے ہیں۔
صعلوک نے کہا: یہ حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ پھر ہم اپنی بائیں جانب مڑے اور ہم نے حرم کی طرف دیکھا۔ ابھی ابو بکر الاسکافی یہ قصہ پورا بھی نہ کر پائے تھے کہ میں فوراً حرم (یعنی حرم ابراہیمؑ) کی طرف گیا۔ جب میں مسجد (الخلیل) میں پہنچا تو میں نے صعلوک کے بارے میں دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا کہ ابھی آتا ہے، تھوڑی دیر میں وہ آگیا، میں گیا اور اس کے پاس بیٹھا اور مذکورہ واقعہ کے بارے میں کچھ کہنے لگا تو وہ ناراض ہوئے۔
میں نے معافی چاہی، پھر کہا ابو بکر الاسکافی میرے چچا ہیں تو وہ مجھ سے مانوس ہوگئے۔ میں نے انہیں خدا کی قسم دلاکر کہا ’مجھے بتاؤ کہ جب تم حرم ابراہیم میں گئے تھے تو کیا ہوا تھا اور تم نے کیا کیا دیکھا تھا؟‘ انہوں نے کہا ’کیا تجھ سے ابو بکر الاسکافی نے بیان نہیں کیا؟‘ میں نے کہا ’بیان تو کیا ہے، مگر آپ کی زبانی بھی سننا چاہتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا ’ہم نے حرم کی طرف سے ایک چیخنے والے کی آواز سنی کہ کہتا تھا حرم سے دور رہو، خدا تم پر رحم کرے، تو ہم لوگ بے ہوش ہوگئے، جب افاقہ پایا تو ہم زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔‘ شیخ یوسف کا کہنا ہے کہ ’ابو بکر الاسکافی اس کے چند دنوں کے بعد وفات پا گئے اور صعلوک کا بھی انتقال ہو گیا۔‘ الخلیل کے تمام باشندے اس روایت سے آشنا ہیں۔ یہ قصہ مجھ سے شیخ مرحوم عبد اللہ طہبوب مفتی الخلیل نے بیان کیا، جبکہ وہ میرے ساتھ غار کے مشاہدہ کے لیے گئے تھے، انہوں نے کہا کہ ’اس حادثہ کے بعد اوقاف الخلیل کے متولیوں نے ارادہ کیا کہ غار کے دہانے تک بہت بڑی لمبی سرنگ بنا دیں گے تاکہ کوئی شخص وہاں تک نہ پہنچ سکے۔‘
میں ان روایتوں کی تصدیق پر مجبور ہوں، کیونکہ مجھ سے معتبر اشخاص نے اس قسم کی روایتیں بیان کی ہیں اور کوئی تعجب نہیں کہ حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت سی کرامات سے نوازا ہو اور ابو الانبیاءؑ کا جسم اب تک سالم ہو، کیونکہ جیسا کہ مشہور ہے کہ انبیاءؑ کا جسم پرانا نہیں ہوتا۔ (’تاریخ الکعبۃ‘ از محمد طاہر الکردی، ص 28 تا 31)
اس غار کو غار مکفیلا کہتے ہیں۔ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ’دوہری غار‘ ہے اور یہ فلسطینی شہر الخلیل میں واقع ہے۔ دینی نصوص کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس غار کو اپنی اہلیہ سارہ کو دفنانے کے لیے خریدا تھا۔ حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد انہیں بھی اسی غار میں دفن کیا گیا۔ اسی طرح حضرت اسحاق بن ابراہیم اور ان کی اہلیہ رفقہ کو بھی یہاں دفن کیا گیا۔
مغارۃ الخلیل جوحرم ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ الخلیل شہر میں ایک مذہبی اور تاریخی مقام ہے۔ یہ جگہ تینوں آسمانی مذاہب: اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے نزدیک مقدس ہے اور دنیا کی قدیم ترین آباد اور مقدس جگہوں میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے یہاں حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ کے بعد یہ چوتھا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی اہلیہ حضرت سارہ اور ان کے بیٹوں حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت رفقہ، اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت لیہ کی قبروں پر مشتمل ہے۔
حرم ابراہیمی اس غار کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ انبیاء کی قبروں کی جگہ ہے۔ موجودہ عمارت پہلی صدی قبل مسیح میں بادشاہ ہیرود اعظم کے دور میں تعمیر کی گئی اور اسلامی ادوار میں اس میں مختلف تعمیراتی اضافے کیے گئے۔ مملوک دور میں اس میں میناروں کا اضافہ کیا گیا اور اس جگہ کو ایک نمایاں اسلامی مسجد کے طور پر مزین کیا گیا۔
جب ساتویں صدی عیسوی میں عرب فلسطین میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس غار کو ’مشہد ابراہیم‘ کا نام دیا، کیونکہ حضرت ابراہیم کو وہ اپنا جد امجد سمجھتے تھے۔ اسی مقام پر انہوں نے حرم ابراہیمی شریف تعمیر کیا، جسے مسلمانوں کے لیے مکہ، مدینہ اور القدس کے بعد چوتھی اہم ترین جگہ قرار دیا جاتا ہے۔
عربوں نے صدیوں تک اس جگہ کا خیال رکھا، یہاں تک کہ 1967 میں اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور غار پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اسرائیل نے اس میں تبدیلیاں کیں اور یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ اسرائیلی حکومت نے الخلیل کے قریب ’کریات اربع‘ نامی یہودی بستی بھی قائم کی۔
حرم ابراہیمی شریف کو مختلف حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سب سے بدترین حملہ 1994 میں ہوا، جب ایک یہودی آباد کار ’باروخ گولڈسٹین‘ نے مسلمانوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ نماز ادا کر رہے تھے، اور درجنوں نمازیوں کو شہید کر دیا، جبکہ مسلمانوں کو کسی قسم کی حفاظت فراہم نہیں کی گئی۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی حکام نے حرم ابراہیمی کے ارد گرد موجود درجنوں فلسطینی گھروں اور عمارتوں کو بھی مسمار کر دیا تاکہ یہودی آباد کاروں کے لیے "کریات اربع” سے حرم تک رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔
نومبر 2002 میں فلسطینیوں نے اپنے مقدس مقام کے دفاع میں ایک جراتمندانہ جنگ لڑی، جس میں انہوں نے حرم کے قریب 12 اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کو ہلاک کیا۔ اس واقعے کے بعد، شارون حکومت نے فلسطینیوں کے گھروں کو بڑے پیمانے پر مسمار کرنے کا حکم دیا تاکہ نام نہاد ’نمازیوں کے راستے‘ کو یہودی آباد کاروں کے لیے صاف کیا جا سکے۔
تبصرہ کریں