ملانیاں قابل قبول نہیں! کیوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 70 کی دہائی کا زمانہ تھا، جب ہمیں ”ہوم سکولنگ“ کرواتے ہوئے امی جان کو نجانے کیسے خیال آ گیا کہ اب ہمیں گورنمنٹ سکول میں داخل کروا دیا جائے۔ ہم نے پہلی مرتبہ سکول کا منہ دیکھا تھا، اگر سکول ہمارے لئے ایک عجوبہ تھا تو ہم سکول والوں کے لئے بھی!

پہلے دن سکول کی اسمبلی کے لئے گرائونڈ میں پہنچے تو ہر جانب سفید اور نیلے اجلے یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں تھیں، گلے میں ”وی“ والی پٹی بھی آویزاں تھیں، ہم نے بھی دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا، کئی لڑکیوں نے ہمیں حیرت سے دیکھا اور کلاس ٹیچر چونکہ ہمارے گائوں کی تھیں اس لئے فقط سمجھایا کہ کل سے آپ بھی پٹی اوڑھ کر آئیں، یہی سکول یونیفیارم ہے۔

گھر آ کر والدہ کو بتایا تو انہوں نے کہہ دیا کہ سکول تو دوپٹہ اوڑھ کر ہی جانا ہے، استانی کو بتا دینا۔ اس وقت تو سکول ٹیچر نے برداشت کر لیا مگروقت گزرنے کے ساتھ سکول کا رویہ مزید سخت ہونے لگا، اور ہر نئی ٹیچر ہمیں یہی سبق پڑھاتی کہ یہاں کون ہے کلاس میں؟ کلاس میں تازہ دم اور چست دکھائی دیں۔ اتنے بڑے دوپٹے اوڑھ کر کیا ملانی بنی ہوئی ہیں آپ؟ (ان دنوں ہم یہی سمجھتے تھے کہ ملانی شاید بہت ہی بری شخصیت کو کہتے ہیں)۔

اگلی کلاس میں گئے تو ایک سخت اور درشت ٹیچر سے پالا پڑا، جو کسی بھی معمولی بات پر ہمیں خوب سزا دیتیں، ان کے خیال میں یہ ملانیاں کلاس کا ماحول خراب کر رہی تھیں، اور اب تو سکول ہیڈ مسٹریس کی جانب سے اسمبلی میں وزارت ِ تعلیم کی جانب سے آرڈرز پڑھ کر سنائے گئے، تمام طالبات مکمل یونیفارم میں سکول آئیں، اور اس کی وضاحت میں استانی صاحبہ نے ہر کلاس میں جا کر بتایا کہ کل سے کوئی سر پر دوپٹہ نہ اوڑھے، ”وی“ پہننا لازمی ہے، ہم عجب مشکل کا شکار تھے، نہ گھر والے مفاہمت کرنے کو تیار تھے اور نہ سکول والے!!!

اور پھر کیا ہوا؟
1977ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت تسلیم نہ کی گئی، دھاندلی کے بڑے الزامات اور عوامی احتجاج کے بعد ملک میں مارشل لاءلگ گیا، کئی مہینوں کے لئے سکول کالجز بند کر دیے گئے، اور جب تعلیمی نظام شروع ہوا تو اپنے ساتھ نئے قوانین بھی لایا، اور ان کانوں نے بڑی حیرت سے اسی سکول کی پرنسپل کو یہ اعلان کرتے سنا:

”کل سے کوئی طالبہ سکول میں ننگے سر نہیں آئے گی، ململ کا بڑا سفید دوپٹہ اوڑھنا لازمی ہے، اور کوئی استانی بھی چادر اوڑھے بغیر سکول کی چار دیواری سے اندر نہیں آئے گی“۔

سچ پوچھئے کہ ہمارے دل کی کلی کھل گئی، اب وہی ٹیچرز باری باری گیٹ پر ڈیوٹی دیتیں اور چوکیدار کو بار بار ہدایت کرتیں کہ کلاس ششم سے دہم تک کی کوئی طالبہ پٹی میں اندر نہ آنے پائے، اور ہم بھی بڑے دھڑلے سے دوپٹے کی بکل مار کر کلاس میں بیٹھتے۔

ہماری کارکردگی بھی ایک دم اچھی ہو گئی، کیونکہ اب اساتذہ ہمیں ایک ملانی کے طور پر جج نہیں کرتی تھیں،( اب تو وہ خود ملانی بن چکی تھی) اب کارکردگی بھی معیار ِ تعلیم کی بنیاد پر طے ہوتی تھی۔

ہمارا اس حاکم کو دعائیں دینے کو دل چاہتا جس نے ہمیں دوپٹے اور چادر سے تحفظ عطا کیا تھا۔

آج بہت عرصے بعد یہ سننے کو ملا کہ طالبات کو امتحانی سینٹر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سینٹر سے باہر برقع اتار کر اندر داخل ہوں، نقل سے بچائو کو بنیاد بنا کر حیا کا لبادہ اتروانے کی ناپاک کوشش کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔تفتیش اور جانچ کے اور بھی محفوظ اور باوقار طریقے موجود ہیں۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں