رمضان الکریم : دلوں‌میں گلاب کیسے اُگ سکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔۔
آج کل رمضان المبارک کے حوالے سے مختلف تحاریر نظر سے گزر رہی ہیں جن میں نفس کے شیطان کو قابو کرنے کی ترغیب بار بار دی جارہی ہے،زیادہ زور دل سے کینہ نکالنے اور صلہ رحمی پر دیا جا رہا ہے اور احادیث مبارکہ کی رو سے بتایا جارہا ہے کہ دل میں اگر کینہ ہوا یا کسی سے ناراضگی ہوئی تو روزے کی قبولیت ممکن نہ ہوگی کہ روزہ صرف بھوکا،پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ روزے کے ذریعےنفس کی اصلاح مقصود ہے۔

میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ گیارہ ماہ جو کینہ نفرت دل میں کسی کے لیے موجود رہتا ہے اُسے یکبارگی آمدِ رمضان پہ دل سے کُھرچنا آسان ہے کیا؟

زمانہ طالب علمی میں ایک نظم Poison tree کے عنوان سے پڑھی تھی۔۔اُس میں بڑی خوبصورتی سے واضح کیا گیا تھا کہ جس چیز کو ہم اپنے دل میں پانی دیتے رہیں گے وہی ایک درخت کی صورت دل میں ایستادہ ہو جائے گی۔

ہم نفرت اور برائی کے پودے کو پانی دیں گے تو دل میں ایک پوائزن ٹری تیار ہو گا اس کے برعکس ہم نیکی محبت اور اخلاص کے پودے کو پانی دیں گے تو دل میں اخلاص کے درخت کو تناور پائیں گے۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو یہ سمجھنا بے حد آسان ہو جاتا ہے کہ در حقیقت رمضان کو پانے کے لیے تیاری پورا سال کرنی چاہیے، اپنے دل کے برتن کو صاف کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں یہ پوائزن ٹری کی آماجگاہ نہ بن جائے۔

ایسا کرنے سے رمضان کے قریب دل کی بہترین صفائی بہت سہل طریقے سے ممکن ہو جائے گی ورنہ سارا سال نفرت کی پرورش کر کے آپ ایک دم سے استقبال رمضان کے احترام میں دل کو پھولوں سے بھرا خوشبودار باغیچہ نہیں بنا سکتے۔

اور پھر ہوتا یہ ہے کہ شعوری طور پہ آپ خود کو ان گناہوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کا نفس اُن پر پختہ ہوچکا ہوتا ہے، نتیجتًا رمضان کی اصل روح سے آشنائی نصیب نہیں ہوتی۔

کیونکہ دل جو اللہ کا گھر ہے وہ جب دنیاوی غلاظتوں سے بھرا ہوتا ہے تو ماہ صیام کی برکتیں بھی اُس شدت سے ہمیں مالا مال نہیں کرتی ہیں جیسے ہم چاہتے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے بھر دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے دلوں کی زمین پر گلاب اگائیں نہ کہ پوائزن ٹری۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں