خاتون کمرے کے ایک کونے میں صاف اور سادہ لباس میں ملبوس کھڑی ہے

Minimalism۔۔۔۔ زندگی میں آسانی پیدا کرنے کا بہترین فارمولا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ندا اسحاق۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے Decision Fatigue کا لفظ سنا ہے؟ نہیں تو گوگل سے مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ minimalism آپ کو اس fatigue سے بھی بچا سکتا ہے۔ یقین مانیں، زندگی آسان کرنے اور بلند مقاصد میں لگانے کا بہترین فارمولا ہے یہ!!! آزمائش شرط ہے۔

"Minimalism”

اگر آپ کو کبھی کسی نے براہ راست یہ کہنے کی جرات کی ہے کہ "یہ سوٹ تم نے فلاں جگہ بھی پہنا تھا تم پر کافی جچتا ہے”. یا
پھر کسی دوست، رشتہ دار نے آپ کو اس خاص نظر سے دیکھا ہو جو چیخ چیخ کر کہے "تمہارے پاس اور کپڑے نہیں ہیں جب دیکھو منہ اٹھا کر یہی پہن آتے ہو”
تو یقیناً آپ صحیح راہ پر گامزن ہیں، خود کو خوش قسمت گردانیے کیونکہ آپ consumer-zombie نہیں ہیں.

بحیثیت عورت مجھ پر ہمیشہ یہ دباؤ رہا کہ ایک تو مجھے خوبصورت دکھنا ہے اور دوسرا کوئی ڈریس کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی تقریب میں جاتے ہوئے repeat نہیں کرنا (جہالت سے بھرے رسم و رواج صدیوں سے repeat ہورہے ہیں لیکن کپڑے ہر گز نہیں ہوسکتے)۔

چونکہ minimalism اور sustainability گوروں کے چونچلے ہیں، ہمارے یہاں اس پر کوئی بات نہیں کرتا. کیا پاکستان جیسے ملک میں ان نظریات کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے؟؟؟

میں پچھلے دو سال سے Minimalism نامی نظریے کے اصولوں پر چل رہی ہوں (خواتین کے لیے یہ قطعاً آسان نہیں) جس کا مقصد آپ کو ضرورت اور خواہش میں فرق بتانا ہے. میری اس پوسٹ میں غریب طبقہ زیرِ بحث نہیں ہے جو اپنے روز مرہ کے معاملات کو پورا نہیں کر پاتا وہ consume کہاں سے کرے گا. نہ ہی ایلیٹ کلاس جن کی تعداد بہت کم ہے. میرا اشارہ اس مڈل کلاس کی جانب ہے جس نے اس خرید و فروخت کی ریس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے.

کسی دور میں لفظ consume کو تباہی یا کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ منسوب کرنے کا رواج عام تھا لیکن کپڑے، جوتے، سجاوٹ و آرائش کی اشیاء اور برقی آلات وغیرہ کو بھی consume کیا جائے گا، وہ بھی اس قدر extreme level پر، اس کا اندازہ تو اس تباہ کن نظام کے بنانے والوں کو بھی نہیں ہوا ہوگا.

اربوں روپے advertisements پر خرچ کرنے والی کمپنیاں انتھک محنت کرکے ہمیں صبح شام اس بات پر رضامند کرتی ہیں اگر فلاں برانڈ کی فلاں چیز خرید لیں تو اس سے آپ کی زندگی بدل جائے گی وگرنہ آپ یونہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، آپ کی اپنی حقیقی شخصیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔

انسانی دماغ (جو آج کل اپنے ہی نفع اور نقصان میں تمیز کرنے سے قاصر ہے) dopamine نامی ایک neuro hormone خارج کرتا ہے، یوں تو اس hormone کے سر کئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں لیکن اس کا ایک کام ہمیں "خوشی” کا احساس دلانا بھی ہے، یہ ساری industries اسی کا فائدہ اٹھاتی ہیں. شاپنگ کرکے ہمیں خوشی کا جو احساس ہوتا ہے وہ اسی dopamine کی بدولت ہی ہے(retail therapy اس کی مثال ہے)۔

سائنٹفک ریسرچ کے مطابق چیزوں کی زیادہ خرید و فروخت (یعنی زیادہ dopamine کو خارج کرنا) لت (addiction) میں مبتلا کرتا ہے، آپ اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد اشیاء کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں.

ایک Minimalist ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی کر کے سنیاس لے لیا جائے. دراصل اس طرزِ زندگی کا مقصد آپ کو ایک معیاری زندگی سے روشناس کرانا ہے۔ جب خواتین گھنٹوں صرف یہ سوچنے میں گزار دیتی ہیں کہ انہیں کیا پہننا اور کیسا نظر آنا ہے، دراصل یہ بھی غلامی کی ہی ایک شکل ہے۔

اچھے سے اچھا دکھنے کی یہ دوڑ ہمیں احساس کمتری اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہمیں حقیقت سے دور کردیتی ہے کیونکہ حقیقت میں آپ ہر وقت خوبصورت نہیں دِکھ سکتے. کم چیزیں خریدنا اور انہیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا آزادی کا احساس دلاتا ہے، احساس کمتری اور ہر وقت پرفیکٹ دکھنے اور کچھ نیا پہننے کی ذمہ داری سے آزادی……. وقت اور پیسوں کی بچت الگ.

جس دنیا میں لوگوں کا رویہ اور سلوک آپ کے status اور پیسوں پر مبنی ہو وہاں ایک t-shirt یا dress کو کئی مواقع پر زیب تن کرنے پر لوگ آپ کو جج کر سکتے ہیں. مہنگے تحائف کا تبادلہ نہ کرنے پر رشتہ دار اور دوست degrade بھی کر سکتے ہیں۔

خوبصورت گھر یا گھر میں خوبصورت آرائشی سامان نہ ہونے پر اکثر آپ کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھا جائے گا۔ مہنگا موبائل ہاتھ میں نہ ہونے پر دوستوں کا آپ کو غریب اور low standard خیال کرنا بھی ممکن ہے، اب ایسے میں ایک minimalist بن کر رہنا ہرگز آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔

اپنی خوشی کو محض اشیاء سے جوڑ کر رکھنا اپنی ہی ذات کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ وقت میں ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو محض اشیاء سے باندھ رکھا ہے۔

آج کل اچھے والدین وہی ہیں جو بچوں کو اچھے برینڈز لے کر دیتے ہیں، وقت دیں نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا. یہاں میں والدین کو ایک چھوٹی سی suggestion دینا چاہوں گی.

*آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے گریز کریں(اگر لائیں بھی تو گھر میں انٹر ہوتے وقت کبھی نہ دیں) ، گھر آکر انہیں ایک hug دیں اور اس بات کا احساس دلائیں آپ کا وقت اور آپ کی محبت سے قیمتی کوئی چیز نہیں اس دنیا میں۔ بچوں کا dopamine اشیاء کو گفٹ کرنے کی بجائے ان کو وقت دے کر release کرائیں.”

بے جا کی خرید و فروخت نہ صرف ہمارے ذہنوں کے لیے مضر ہے بلکہ ہمارے گھر یعنی Planet Earth کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں