ایک شاپنگ مال کا اندرونی منظر

کیا پاکستانی تاجرٹیکس دینے سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد نعیم میر۔۔۔۔۔
ریٹیلرز کے لئے شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کے دو مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ
دکاندار جب ایک وقت میں ایک فرد کو 50 ہزار روپے یا اس زائد کی جو بھی سیل کرے گا، اپنے گاہک سے شناختی کارڈ نمبر طلب کرے گاتاکہ دکاندارسےخریداری کرنے والے عام عوام کی منی ٹریل معلوم ھوسکے۔
اب ھوگا کیا ۔۔۔۔۔ !!!
جب عام آدمی کو یہ بات سمجھ آجائے گی تو ۔۔۔۔۔

پہلی صورت
یہ ہوگی کہ عام خریدار 50 ہزار کی خریداری ایک سے زائد دکانوں پر تقسیم کر لے گا تاکہ 50 ہزار کی خریداری کی نہ انوائس بنے اور نہ شناختی کارڈ نمبر فراہم کرنا پڑے۔

دوسری صورت
یہ ہوگی کہ جیسے کوئی گاہک فریج، ٹی وی یا موبائل وغیرہ یا کوئی سنگل یونٹ جس کی قیمت 50 ہزار یا اس سے زائد ہو، خریدنا ہو تو اس کو لازمی شناختی کارڈ نمبر دینا پڑے گا، ایسی صورت میں گاہک اپنا شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج کروا جائے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی گاہک سے نہیں وصول کی جانی بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر( تیرہ ڈجٹ) کا اندارج ہونا ہے جو لکھوانے یا لکھنے والا دونوں دانستہ یا غیر دانستہ غلط اندارج کر سکتے ہیں۔

تیسری صورت
یہ ہوگی کہ گاہک اپنے ملازمین وغیرہ کے شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا اور سامان خرید لے گا ۔

اب دکاندار نے گاہک کے بتائے گئے شناختی کارڈ نمبر کو انوائسز پر صرف درج کرنا ہے اور پورا سال وہ انوائسز سنبھال کر رکھنی ہیں اور اگلے سال اپنے ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ایف بھی آر حکام کو پیش کردینی ہیں۔

اب شروع ہوگا نیا عذاب ۔۔۔۔!!

دکاندار کو ایف بی آر کی طرف سے ایک نوٹس آئے گا کہ آپ نے جو شناختی کارڈ نمبر درج کئے ہیں وہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے یا وہ شناختی کارڈ نمبر تو کسی دہی بھلے والے یا کسی پکوڑے والے، ڈرائیور یا کسی گھر میں صفائی کرنے والی یا کسی مالی وغیرہ کے ہیں ، یاد رکھیں کہ اب ہر شناختی کارڈ نمبر سے حکام معلوم کر سکتے ہیں کہ اس شناختی کارڈ نمبر پر کون سی سم چل رھی ھے، لہذا۔۔۔!!
حکام بڑے آرام سے انوائسز پر درج شدہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے موبائل نمبر حاصل کر کے خریدار کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

پھر آخر میں پھنسا کون؟

ظاہر ہے کہ دکاندار ہی پھنسے گا ، دکاندار کے ساتھ اس کے گاہک جعل سازی کرجائیں گے اور ایف بی آر اور ہمارا میڈیا دکاندار کو چور و ڈاکو کہتا رہے گا اور پھر ایف بی آر حکام کی جیب گرم کر کے ہی دکاندار کی جان چھوٹے گی۔

لیکن دکاندار سب کی نظروں میں چور ہی کہلائے گا۔

شناختی کارڈ نمبر کے اندارج کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے

دوسرا مرحلہ

دکاندار کو اپنے مال کی خریداری ڈسڑی بیوٹر / ہول سیلر / مینوفیکچر یا امپورٹر سے کرنا ہوتی ہے۔

اب دکان دار کو اپنی ہر خریداری پر جو انوائس ایشو ہوگی اس انوائس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کروانا ہوگا۔

دکاندار یا تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دے گا (درست یا غلط) یا نہیں دے گا، ہر صورت میں کیا ہوگا ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔

پہلی صورت
اگر دکاندار اپنی خریداری پر غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج کروائے گا تو مال بیچنے والے کو جب ایف بی آر کا نوٹس آئے گاتو وہ بڑی آسانی سے غلط شناختی کارڈ فراہم کرنے والے کی ایف بی آر حکام کو نشاندہی کردے گا کیونکہ دکاندار عام عوام نہیں کہ جسے ڈھونڈنے میں کوئی دیر لگے گی لہذا یہ کام تو کسی صورت نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا، پھر دوسرا نوٹس دکاندار کو آئے گا اور 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس اور بھاری جرمانے دے کر ہی جان چھوٹے گی ۔

دوسری صورت
دکاندار اپنا شناختی کارڈ نمبر نہیں دے گا تو خریدے گئے مال پر17 فیصد اضافہ سیلز ٹیکس اور تین فیصد کے قریب اضافی انکم ٹیکس ادا کرے گا ، گویا دکاندار کو جو چیز 31 جولائی 2019 تک 100 روپے کی ملتی تھی شناختی کارڈ نمبر نہ دینے پر یکم اگست 2019 سے اب تقریبا 120 روپے کی ملے گی۔

تیسری صورت
اگر دکاندار اپنا اصل شناختی کارڈ نمبر اپنی خریداری کی انوائس پر درج کروا لے گا تو اس کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونا پڑ جائے گا، سیلز ٹیکس کی ماہانہ ریٹرن فائل کرنا ہوگی ، دکاندار ودہولڈنگ ایجنٹ بن جائے گا اور اپنی ہر پے منٹ پر 5۔4 ٹیکس کٹوتی کرے گا اور خزانے میں جمع کروائے گا اور ہر چھ ماہ بعد ودہولڈنگ ٹیکس کٹوتی کی ریٹرن بھی جمع کروائے گا۔ نہ کروانے کی صورت میں ایک سال کے لئے جیل جائے گا جبکہ انکم ٹیکس کی ریٹرن اس کے علاوہ ہے جو سالانہ بنیادوں پر جمع کروانی ہوگی اور اپنی سیلز پر 5۔1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس بھی جمع کروانا ہوگا۔

*ایک اہم بات یاد رکھیں جب دکاندار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہوجائے گا تو پھر اپنی فروخت کی ہر انوائس پر عام گاہک کا شناختی کارڈ نمبر درج کرنا لازم ہوجائے گا چاہے خریداری 50 ہزار روپے کی حد سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

یہ ہے وہ بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن جسے بجٹ 2019 میں کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ہے، اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن کو کرنے کے لئے ہر دکاندار کو ایک پروفیشنل اکاؤنٹینٹ رکھنا ہوگا جو بھاری تنخواہ لے گا، سال میں تین قسم کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے ٹیکس وکیل کی خدمات کا بھاری معاوضہ بھی ادا کرنا ہوگا اور آڈٹ میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے سامنے آنے پر بھاری جرمانہ علیحدہ سے ادا کرنا ہوگا اور سزائیں بھگتنا ہوں گی جبکہ ایف بی آر کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے جیب گرم کرنے کا خرچہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دکاندار کے لئے فکسڈ ٹیکس کا نظام وضع کرنے کا کہہ رہے ہیں تاکہ اس بھاری بھرکم ڈاکومنٹیشن سے نجات مل سکے، عام دکاندار کو ایف بی آر کے شکنجے میں کسنے سے بچایا جاسکے تاکہ عام دکاندار ذھنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار کرسکے، حکومت نے فکسڈ ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا بار بار وعدہ ضرور کیا ہے لیکن فکسڈ ٹیکس نظام کے خدوخال کیا ہوں گے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔

یہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم احتجاج کر رہے ہیں ۔۔۔!!!۔
ہمارا واحد مطالبہ یہ ہے کہ ہم ٹیکس دینے سے فرار نہیں چاہتے بلکہ ٹیکس کے طریقے کار کو آسان اور سہل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
(محمد نعیم میر، آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں