مریم نواز شریف، بلاول بھٹوزرداری

مریم نواز کی پیپلزپارٹی سے محبت، ن لیگ کو کیا ملا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مزمل سہروردی۔۔۔۔۔
سینیٹ میں جو بھی ہوا۔ اس کے بعد مختلف رائے سامنے آ رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ آصف نے ٹھیک بات کی ہے۔ مریم نواز کی پی پی پی سے محبت ن لیگ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے رہی ہے۔

قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف تو پہلے ہی پی پی پی سے اتنے راہ و رسم بڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن مریم نواز نے بلاول کے ساتھ سیاسی شراکت داری بڑھا لی۔ ان کا خیال تھااس کو بہت فائدہ ہو گا۔ تاہم ن لیگ کے بڑے ان کے انکلز ان کو سمجھا رہے تھے کہ پی پی پی پر اعتبار نہ کریں۔

اس سے معاملات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوںگے۔ آج خواجہ آصف پھر کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی نے دھوکا دیا ہے۔ ن لیگ میں ایک عمومی رائے بن رہی ہے کہ پی پی پی نے پھر دھوکا دیا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو بچا کر پی پی پی نے پورے اپوزیشن اتحاد کی قربانی دے دی ہے۔ لیکن دوست یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بات صرف ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کی نہیں تھی۔ سندھ حکومت بھی خطرہ میں تھی۔ اس لیے پی پی پی کے پاس دھوکے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا لیکن کیا ن لیگ کو پی پی پی کی مجبوریوں کا علم نہیں تھا۔ اگر دیکھا جائے تو اس صورتحال میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو بچا کر پی پی پی نے کون سا تیر مار لیا ہے۔

اگر پی پی پی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی قربانی دے دیتی تو کم از کم اپوزیشن کا اتحاد بچ سکتا تھا۔ لیکن پھر سندھ حکومت بھی چلی جاتی اور اپوزیشن اتحاد کی اتنی بڑی قربانی دینے کے لیے پی پی پی تیار نہیں تھی۔ اس لیے شعوری طور پر پی پی پی نے اپوزیشن اتحاد کی قربانی دے دی ہے۔ اب بس اعلان ہی باقی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ منحرف سینیٹرز کا تعلق پی پی پی سے نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو انھوں نے بلاول اور پی پی پی کی مرضی سے ووٹ نہیں ڈالے تب بھی اس کے بعد کی پی پی پی کی پالیسی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔

یہ ماننا ہو گا کہ بلاول بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی خاموشی بھی بیان کر رہی ہے کہ انھیں بھی معلوم ہے کہ دھوکا کس نے دیا ہے۔ لیکن اب وہ بھی بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ آصف نے بروقت حقیقت بیان کر کے بلی کو تھیلے سے باہر نکال دیا ہے۔ سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی دراصل مریم نواز کی ناکامی ہے۔ اور ن لیگ میں شہباز شریف کے بیانیہ کی جیت ہے۔ دراصل خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ن لیگ واپس شہباز شریف کے بیانیہ پر جا رہی ہے۔

احسن اقبال کی جانب سے ٹوئٹ کے ن لیگ سینیٹ میں عدم اعتماد کے بعد کسی بھی قومی ادارے پر کسی بھی قسم کی تنقید کی کوئی پالیسی نہیں رکھتی ہے۔ اگر احسن اقبال اور خواجہ آصف کی گفتگو کو دیکھا جائے تو دونوں اعلان کر رہے تھے کہ ن لیگ واپس شہباز شریف کے بیانیہ پر جا رہی ہے۔

شہباز شریف پہلے دن سے پی پی پی کے ساتھ صرف اسمبلی کے اندر کی حد تک محدود تعاون کے حق میں تھے۔ ان کے خیال میں اس سے زیادہ تعاون کی بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن مریم نواز نے ماحول ہی بدل دیا۔ جس سے نقصان ہوا ہے۔

اس لیے اگر دیکھا جائے تو بجائے اس کے کہ پی پی پی اور بلاول اپوزیشن کے اتحاد کے خاتمہ کااعلان کرتے جیسا وہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔ا س بار صورتحال کو بھانپتے ہوئے خواجہ آصف نے پہلے ہی کر دیا ہے۔

میری رائے میں اگر اپوزیشن کی باقی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پی پی پی نے جان بوجھ کر شعوری طور پر دھوکا دیا ہے تو عوام میں یک زبان ہو کر برملا کہا جائے۔ باقی ساری متحدہ اپوزیشن پی پی پی کو چارج شیٹ کرے۔ اور انھیں اپوزیشن سے نکالنے کا اعلان کرے۔ شاید خواجہ آصف نے اس کی شروعات کر دی ہے۔ اس لیے ویلڈن خواجہ آصف۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں