وقوفی عدم مطابقت

کہیں آپ بھی وقوفی عدم مطابقت کا شکار تو نہیں، جائزہ لیجئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک : شعبہ ابلاغ عامہ : جامعہ کراچی/

مسز عادل کو نئے پوش علاقے میں شفٹ ہوئے چند ہی دن گزرے تھے۔ یہ علاقہ ان کے خوابوں کی سرزمین تھا۔ وہ بہت خوش تھیں ۔ وہ کئی سالوں سے شوہرکوراضی کرنے میں مصروف تھیں بالآخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ اب وہ جلد از جلد اس علاقے کے تہذیب یافتہ لوگوں سے مل کر اپنے شوہر کی بہت سی باتوں کی نفی اور اپنے آپ کو درست ثابت کردینا چاہتی تھیں۔

عادل صاحب بیگم کے ضد کے آگے برسوں پرانا محلہ ،عزیز،دوست اقارب چھوڑنے پر راضی تو ہوگئے تھے لیکن بالکل خاموش سے ہوگئے تھے ۔ بچے بھی اب کمروں میں دبکے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ وہ بچوں کو سوسائٹی میں مختلف طریقوں سے ایڈجسٹ ہونے کے مختلف گر سکھاتیں لیکن بچے اب ماں کی بات سنتے ہی نہ تھے ۔

یہی بچے کتنے فرمانبردار تھے ۔ وہ ایسی باتیں زیادہ نہ سوچتی بلکہ خود بھی محلے میں ہونے والی کسی میلاد کسی فنکشن کو نہیں چھوڑتی تھیں ۔ کہاں تووہ پرانے محلے میں گھر سے نکلتی نہ تھیں لیکن یہاں معاملہ کچھ اور تھا کیونکہ بقول ان کے وہ اب اپنی صحیح جگہ پہنچ چکی تھیں۔ شوہر کا کیاہے وہ تو کسی حال میں خوشی نہیں ہوتے۔


بیگم بقائی بچوں پر جبری مشقت اور کام کاج میں ان پر بے جا سختیوں کے خلاف تھیں ۔ وہ بہترین تقریر کافن بھی جانتی تھیں .ان کی اپنی ایک این جی او تھی . ایسی شعلہ بیان مقررہ تھیں کہ ان کے بغیر بچوں پر ظلم و زیادتی ہونے والے سیمینارز، ورکشاپس اور مباحثے نامکمل تصور کئے جاتے تھے.

وہ ایسے نادار اور مفلس بچوں کے لیئے چندہ بھی جمع کرتیں .وہ کسی معصوم بچے کو ورکشاپ یا ہوٹل میں کام کرتا دیکھتیں تو فوری پولیس بلاکر اس ورکشاپ کے مالک کے خلاف دفعہ 172 کے تحت مقدمہ درج کروادیتیں. انہوں نے کچی بستیوں میں بچوں کی فلاح کے لیئے بہت سے اسکولوں کا افتتاح بھی کیا تھا جس کی بدولت ان کی شہرت کو مزیدچاند لگ گئے تھے.

ان کے گھر میں ہر کام کی الگ ماسی تھی. ان کام کرنے والیوں کی عمریں 13 سے15سال تک تھیں . اس کی توجیہہ وہ پیش کرتی تھیں کہ غیرشادی چھوٹی لڑکیاں کام جلدی سیکھ جاتی ہیں۔ گھر اور بچے نہ ہونے کے باعث چوریاں بھی نہیں کرتیں۔ ان لڑکیوں کے والدین خود ہی بیگم بقائی پر بھروسہ کرکے اپنے بچیوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے جو گھر کے کاموں سے مکمل فراغت کے بعد ایسے خوبصورت اور دیدہ زیب کڑھائی کرتی کہ بیگم بقائی ہر فیسٹیول میں ان کے ہاتھوں کے بنے خوبصورت کاموں کو بیچ کر پیسے اپنی این جی او میں لگادیتی جو انہی جیسی کم عمر لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا کرتی تھی۔


عادل صاحب کی عمر اس وقت 45 کے قریب تھی. اچھی جاب، بہترین گھر ، محبت کرنے والے رشتے دار سب کچھ تو تھا ان کے پاس. وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزارنا چاہتے تھے . کثرت سے سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے . کہیں بھی ہوتے چاہے دفتر،گھر یا پھر فیملی کی دعوت وہ سب کے سامنے باآسانی اور بے حساب سگریٹ نوشی کرنا شروع ہوجاتے.

بعض اوقات ان کے ہم عصر حلقوں سے انہیں اپنے متعلق شکایات بھی پتہ چلتی رہتی لیکن اس بےتحاشہ سگریٹ نوشی کی وہ یہ توجیہہ پیش کرتے کہ سگریٹ میں نکوٹین کی غیرمعمولی تعداد کے باعث جسم کی کیلوریز ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں پاتی.

سگریٹ پینا جوان مردوں کا شیوہ ہے. سگریٹ پینے کے لیئے جب میں کسی پر بوجھ نہیں تو دوسرے مجھے تبلیغ کرکے مجھ پر کیوں بوجھ بنناچاہتےہیں. سگریٹ جو میں پیتا ہوں وہ ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا لوگ اپنی احساس کمتری مٹانے کے لیئے مجھے اس سگریٹ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں.


بیگم احسان عالمہ تھیں۔ بچپن ہی سے انہیں دینی تعلیم سے انسیت تھی ۔ شادی کے بعد وہ مختلف دینی کورسز کرکے اب اس درجے پر پہنچ چکی تھیں کہ لوگ انہیں اپنے گھربلا کر ان کا درس سننا اپنے لیئے اعزاز سمجھتے تھے ۔ وہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیئے اپنی دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ مختلف ممالک کا دورہ بھی کرچکی تھیں۔ وہ بالکل فارغ نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ فارغ اوقات میں اپنی کسی دوست ساتھی یا کسی رشتہ دار سے بات بھی کرلیا کرتیں۔

بیگم احسان اپنی ایک سہیلی دوست رشتہ دار عزیز سے تمام خاندان کی خیر خبر لے لیاکرتی تھیں ۔ کس کے ہاں شادی ہوئی؟ کس نے مجھے نہیں بلایا؟ کس کے ہاں اولاد ہوئی؟ کس نے مجھے اطلاع نہیں دی؟ کس کے ہاں شادی کے بعد طلاق ہوگئی؟ کون کس حال میں ہے؟ کس کی طلاق کے بعد شادی ہوگئی؟ کسی رشتہ دار نے اپنامکان کتنامکمل کرلیا؟ کون کتنا کمارہاہے؟ کون کہاں شفٹ ہوگئی؟ کس کے بچے بیرون ملک مقیم ہیں؟ کتنا خرچہ بھیج رہے ہیں وغیرہ؟

ان تمام معلومات کو وہ وقتا فوقتاً لوگوں کے سامنے پیش کرکے لوگوں کو حیران کردیا کرتی تھیں۔ توجیہہ وہ یہ پیش کرتیں کہ انسان کو کم از کم اپنے رشتہ داروں، دوسرےقریبی لوگوں کے بارے میں علم ہوناچاہیئے۔ مومن باخبر ہوتاہے۔ لوگ بھی ہمارے بارے میں جانتے ہیں اگر ہم بھی ان کے معاملات کو جان لیں تو کون سی قباحت ہے!


عبدالجبار صاحب کے چار لڑکے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ہر طرح کی آسائش دے رکھی تھی۔ وہ بچوں پر سختی کے سخت خلاف تھے۔ ان کے نزدیک سختی اور ماردھاڑ سے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔

ایک دفعہ شدید بخار اور نزلے نے انہیں آلیا۔ بخار اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ مشکل سے بچے سے درخواست کی کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو ۔ ان کا لڑکا جو صبح سے شام تک ٹسٹ کھیل کر بری طرح تھک گیا تھا۔ بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جاکر سوگیا۔ مجبوراً خود ہی بمشکل گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔

ڈاکٹر نے چکن گونیا کی تشخیص کرتے ہوئے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ جبار صاحب کے بے انتہا اصرار پر ڈاکٹر نے ایک دن انہیں اسپتال میں داخل کرلیا.جب گھر جانے لگے تو تمام گھر والے ساتھ تھے. انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا لیکن گھر پہنچتے ہی پھر وہی کیفیت۔ سب کی مصروفیات شروع ہوگئیں.آخر کارایک دن اپنی کیفیت سے تنگ آکرانہوں نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ مجھے پانی پلادو، حلق خشک ہورہاہے۔ بیوی نے اپنے تمام کاموں کو چھوڑ کر انہیں پانی تو پلادیا، جاتے جاتے کہنے لگیں کہ سنیں! آپ اللہ کا شکر ادا کیاکریں آپ کو مجھ جیسی بیوی ملی۔

پڑوس کی صائمہ کے شوہر تو اپنے کپڑے بھی خود دھوتےاور اپنے جوتے خود ہی پالش کرلیتے ہیں.لیکن میں تو آپ کے سارےکام کرتی ہوں، پھر بھی بُری ہوں.اب جب آپ بھی ٹھیک ہوجائیں تو خود ہی اپنے جوتےپالش کیا کریں اور اپنے کپڑے بھی خود استری کیا کیجئے۔

ہمارے نبی بھی اپنے کام خود کیاکرتے تھے۔ تھوڑے ہی دن میں وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ اب وہ اپنے کپڑے بھی خود استری کرتے ہیں اور جوتے بھی خود صاف کرتے ہیں۔ توجیہہ وہ یہ پیش کرتے کہ آج کے دور میں کسی کے پاس کسی کے لئے وقت نہیں، میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔


بیگم الماس کے دونوں بیٹے جب شادی کی عمر کو پہنچے تو دونوں کی ساتھ بیویاں لانے کا فیصلہ ہوا۔ بڑا والا بیٹا تھوڑا لاڈلا اور بدتمیز تھا اس کے لیے انہوں نے خاندان کی لڑکی کا انتخاب کیا تاکہ خاندان کو باندھ کر رکھے۔ چھوٹا والا چونکہ پہلے سے ہی فرمانبردار تھا اس کے لیے سلجھے ہوئے گھرانے سے اسلامی لڑکی لائیں، بیٹے سے 10 سال چھوٹی اس لیے لائی تاکہ رعب میں رکھا جاسکے۔

اب شادی کے بعد ایک سال ہی گزرا تھا ، خاندان والی بہو ہر وقت الگ گھر لینے کی بات کرتی.کیونکہ یہاں سارے گھر کا کام کرنا تھا ۔ بیگم الماس بڑی بہو کی الگ گھر کی دھمکیوں میں آگئیں اب وہ سارے کام چھوٹی بہوسے کرواتی۔ بڑی بہو کمرے سے صرف کھانا کھانے نکلتی یا جب اسے اپنے میکہ جانا ہوتا۔

سارے کام چھوٹی بہو کرتی اپنی جٹھانی کا بچہ بهی سنبھالتی. نندوں کے آنے پر ان کے لیے فرمائشی پکوان بھی بناتی لیکن اگر بڑی بہو کا ذکر آتا تو بیگم الماس بڑے زور و شور سے خاندان بھر میں یہ اعلان کرتی نظر آتیں کہ بڑی بہو کافی کمزور ہے، وہ جلدی تھک جاتی ہے، بیمار بھی رہتی ہے جبکہ چھوٹی بہوصحت مند اور جلد کام کرنے کی عادی ہے اس لیے اگر وہ دو وقت کا کھانا بنالیتی ہے گھر کے کام کرلیتے ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے بھی جوانی میں بہت کام کیئے ہیں .کام کرنے سے کوئی گھستا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ


وقوفی عدم مطابقت (Cognitive Dissonance) کا نظریہ لیون فسٹنگر (Leon Festinger) نے1957 میں پیش کیا.اس نظریہ کا تعلق عام زندگی میں فرد کے اعمال سے ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ جب ملنے والی نئی معلومات فرد کی یقین کردہ معلومات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں، فرد وقوفی عدم مطابقت کا شکار ہوجاتاہے. اس صورتحال میں اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس تکلیف کو کسی طرح سے دور کرے.ایسی صورتحال کا شکار شخص عموماً تین طرح کے افعال سرانجام دیتا ہے۔

1.ترجیحی روبروئی (selective exposure) :
اس میں فرد ایسی کوئی خبر یا معلومات پڑھے گا ہی نہیں جو اس کے عمل کے مطابق نہ ہوگی۔

2.ترجیحی یادداشت(Selective Retention):
اس عمل میں وہ شخص جو وقوفی عدم مطابقت کا شکار ہے صرف ان افعال و واقعات یاد رکھے گا جو اس کے لیے مثبت و خوشگوار ہوگی۔

3.ترجیحی ادراک (Selective perception):
مطلب کسی بھی بات، واقعات سے وہ مطلب نکالنا جوکہ فرد کے خیالات سے ہم آہنگ ہو۔

اس عمل میں مبتلا ہر فرد ایک قسم کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوجاتاہے.

اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آیئے! اپنے معاشرے میں چلتے ہیں۔ یہ چند سچائی پر مبنی واقعات سے اس عدم وقوفی نظریے کی تائید ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کا مشہور قندیل بلوچ قتل کیس جسے پہلے عزت پر حملہ (honour killing) کا نام دیا اور قندیل کے بھائی نے بھی اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی.
قندیل بلوچ کے بھائی کی قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کی دیر تھی کہ ذرائع ابلاغ سوشل و پرنٹ بشمول الیکٹرانک میڈیا میں اسلام اور عزت و ناموس کے خلاف وہ غلیظ زبان استعمال کی گئی کہ ہم اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ قندیل بلوچ کو اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن اس نے سوشل میڈیا پر عریانی و فحاشی کا جو ناختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا اس کے جانے کے بعد کتنی ایسی لڑکیاں ہے جو اس کی طرح راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی خاطر غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ بعد میں اس قتل کیس کی کڑیاں کسی اور سمت جاملیں.اب سب نے چپ سادھ لی یا طرح طرح کی بیجا تاویلات دینے لگے.

میاں نواز شریف اور ان کی بچوں پر لگنے والے الزامات کوئی نئی بات نہیں لیکن پانامہ لیکس کے بعد ان کے بچوں پر جن آف شورز کمپنیوں کا اعتراف خود ان کے بچوں کی جانب سے ہوچکا وہ کسی سے ڈهکا چھپا نہیں.اس کے باوجود ن لگیوں کی غلط توجیہہ،مریم نواز مریم اورنگزیب ،اور احسن اقبال کے بیانات عدم وقوفی کا نتیجہ ہیں.وہ سب لگائے جانے والے الزامات کو اپنے قائد کے خلاف سیاسی چال سے تشبیہ دے رہے ہیں.

بے نظیر بھٹو کے قتل پر ملک کو معاشی ، زرعی،اور صنعتی، سماجی اعتبار سے نقصان پہنچانے والوں کے نزدیک نقصان پہنچانے کی توجیہہ یہ تھی کہ جب ہماری قائد اس ملک میں محفوظ نہیں تو اور کسی کو بھی یہاں محفوظ رہنے کاحق نہیں جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کے بے نظیر کا قتل عالمی استعماری ایجنڈے کا حصہ تھا جس میں خود اس کے اپنے پاسبان بھی شامل تھے.

9/11 کے بعد ملک کو امریکا کے نوآبادیاتی ریاست بنانے میں جتنا حصہ اس وقت کے آمر نے ڈالا ہم سب اس نام سے بخوبی واقف ہیں۔ توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ہمیں پتھروں کے دور میں پہنچادیں گے۔ انہوں نے بلوچستان میں اکبربگٹی کو قتل سے پہلے دھمکی دی کہ تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

اس کے تھوڑے دن بعد اسےبیدردی سے قتل کردیا گیا توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ریاست میں ریاست بنارہےتھے۔ بلوچستان کی موجودہ صورت حال اسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ 12 مئی کو کراچی پر چیف جسٹسس کی آمد پر کراچی کو اپنے اس وقت کے غنڈوں کی بدولت آگ و خون میں نہلادیا گیا۔ توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ وہاں عوامی طاقت کامظاہرہ ہواہے.

لال مسجد و جامعہ حفصہ فاسفورس بموں سے ختم کردی گئی توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ یہ حکومتی رٹ کو چیلینج کررہی تھیں .

چند ڈالروں کے عوض بین الاقوامی قوانین کی دهجیاں اڑا دی گئیں غیر ملکی سفیر کو زنجیروں میں جکڑ کرغیروں کے حوالے کردیاگیا توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ یہ دہشت گرد ہیں حالانکہ اب تک ان کے دہشتگردی کے ثبوت پیش نہیں کیئے جاسکے۔

غرض یہ ہے کہ ہم سب کے پاس اپنے ہر کام کی وضاحت کی زبردست توجیہہ موجود ہوتی ہیں۔ کسی دانا کا قول ہے ” ہم اپنے تمام غلط کاموں کی وضاحت کے خود سب سے بڑے اچھے وکیل ہیں“۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بحثیت فرد ہم اپنی ذات کے خول سے باہر آکر اپنے آفاقی ہونے کا ثبوت دیں۔ ہمارے نزدیک صرف درست وہی ہے جو نبی مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم نے کیا اور تمام وہ افعال و معاملات غلط ہیں جن سے پناہ مانگی گئی۔

قرآن ہمارا مرکز ہے .ہم اس گھوڑے کی طرح حدود میں قید ہیں جو رسی سے آگے نہیں جاسکتا۔ مرکز کو یاد رکھنا، قرآنی تعلیمات پر مکمل ادراک و عمل کی کیفیت ہی ہمیں اس عدم مطابقت کے عمل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈهل جاؤ گے

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلوگےتو پھسل جاؤ گے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں