بلوچستان میں چلتن مار خور

بلوچستان نے وہ کام کر دکھایا جو کوئی دوسرا صوبہ نہ کرسکا

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بلوچستان میں چلتن مار خور جیسے نایاب جانور کی تعداد دوگنی ہوگئی، جنگلی حیات کے تحفظ کی شاندار کہانی

خیر محمد بلوچ ، محمد کاظم :

اگر کسی نے بلوچستان نہیں دیکھا یا انھیں بلوچستان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تو وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ پہاڑ بلوچستان کے کسی دوردراز کے علاقے میں ہو گا کیونکہ جب بلوچستان بھر میں جنگلی حیات ناپید ہو رہے ہیں تو صوبے کے سب سے بڑے شہر کے قریب مارخوروں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کیونکر ممکن ہے۔

لیکن چلتن کا پہاڑ ناصرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ساتھ واقع ہے بلکہ کوئٹہ کی آبادی تو اس کے دامن تک جا پہنچی ہے۔

پہاڑ کا نام چلتن کیسے پڑا؟

عام طور پر مشہور ہے کہ اس پہاڑ میں ایک درویش رہتے تھے اور ان کے 40 بچے تھے۔ ان چالیس بچوں یا بھائیوں کی وجہ سے اس پہاڑ کا نام چلتن پڑ گیا۔

یہ صرف سنی سنائی بات نہیں بلکہ بلوچستان کے سکولوں کی نصابی کتابوں میں بھی یہی بات شامل ہے لیکن ہزارگنجی چلتن نیشنل پارک میں بطورڈپٹی کنزرویٹر جنگلات فرائض سرانجام دینے والے نذیر احمد کرد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ کے حوالے سے 40 بھائیوں جیسی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ’دراصل اس پہاڑی علاقے میں مختلف ناموں سے 40 مقامات ہیں جس کی وجہ سے اس کو چلتن کہا جاتا ہے۔ ان مقامات کے مخصوص نام بھی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم محکمہ تعلیم کے نصاب سے متعلقہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اورہمارے ساتھ بیٹھ کر تحقیق کریں تاکہ اس پہاڑ کے نام کے حوالے سے دست معلومات کورس میں شامل ہو سکیں۔

مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم

مارخور جنگلی بکرے کی قسم کا ایک چرند ہے جو بلوچستان کے بعض علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان، چترال، وادی کالاش اور وادی ہنزہ سمیت دیگر شمالی علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ مارخور انڈیا، افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور دیگر علاقوں میں بھی پایاجاتا ہے۔ قدرتی وسائل کی حفاظت کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت (آئی یو سی این ) کے مطابق اس نوع کو ان جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔

اس لیے اس کے شکار پر پابندی ہے تاکہ اسے معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔

اسے مارخور کیوں کہا جاتا ہے؟
بعض زبانوں میں سانپ کو مار کہا جاتا ہے اورخور کھانے والے کو کہتے ہیں۔

نام کی مناسبت سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید یہ جانور سانپ کھاتا ہے لیکن نذیر احمد کرد اس بات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بائیالوجی کے لحاظ سے یہ herbivore یعنی گھاس کھانے والا جانور ہے۔ یہ گوشت خور(Carnivore) نہیں ہے اس لیے مارخور سانپ کھانے والا جانور نہیں ہے۔‘

نذیر احمد کرد نے بتایا کہ چونکہ اس کے سینگ اوپر جاکر جب مڑتے کرتے ہیں تو وہ سانپ کی مانند نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مارخور کہا جاتا ہے۔

چلتن مارخور کے تحفظ کی کامیاب کہانی
اگرچہ بعض قبائلی شخصیات، مقامی کمیونیٹیز اور محکمہ جنگلات کی کوششوں کی وجہ سے بلوچستان میں مارخور کے تحفظ کی ایک سے زائد کامیاب کہانیاں ہیں لیکن چلتن مارخور کے تحفظ کی کہانی دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔

یہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے مشرق میں کوئٹہ شہر کی بڑی آبادی ہے جبکہ اس کے دیگر تین اطراف میں بھی انسانی آبادی قریب قریب موجود ہے۔

نذیر احمد کرد نے بتایا کہ جب ہم نے 2014 میں کام سنبھالا تھا تو اس وقت چلتن مارخور کی تعداد 800-1000 کے لگ بھگ تھی۔

ان کا کہنا ہے ’اس کے بعد میرے عملے کی محنت، محکمے اور خاص طور پر چلتن پارک مینجمنٹ کمیٹی کے تعاون اور کوشش کی بدولت آج ان کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔‘

نذیر احمد کرد نے بتایا کہ انھوں نے سب سے پہلے پارک میجمنٹ کمیٹی کو فعال کرنے کے لیے کوشش کی ’کمیٹی کے بڑے شراکت دار قبائل میں رئیسانی قبائل شامل ہے جن کے سربراہ نواب محمد اسلم رئیسانی اور ان کے بھائی نوابزادہ لشکری رئیسانی نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔‘

’دوسری جانب چلتن پارک کے مشرق میں شاہوانی قبائل ہیں۔ ان کے حاجی داﺅد شاہوانی جیسے عمائدین نے بھی بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ قبائلی شخصیات اور ان قبائل کے لوگ اب بھی عملی طور پر چلتن پارک کے تحفظ کے حوالے سے محکمہ جنگلات کے ساتھ کام کررہے ہیں۔

نذیر احمد کرد کا کہنا تھا کہ ’ہم نے چلتن میں لوگوں کے مال مویشیوں کی غیر قانونی چراہی کو روکا تاکہ مارخور کے لیے خوراک کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔‘

’اس کے ساتھ ساتھہم نے مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکا۔ چلتن مارخور کے علاقوں میں پکنک کے لیے آنے والوں پر پابندی کے اقدامات کیے جس سے ایک مرتبہ پھر چلتن مارخور کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مارخور آئی یو سی این کی اس فہرست میں شامل ہے جوکہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے لیکن آج ہم فخر کے ساتھ اور سر اٹھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس کا تحفظ کیا ہے اور کررہے ہیں۔

چلتن مارخور دوسرے مارخوروں سے کس طرح مختلف ہے؟
نذیر احمد کرد نے بتایا کہ چلتن نیشنل پارک میں مارخور کی جو نسل ہے وہ چلتن مارخور کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ ’یہ پوری دنیا میں Endemic ہے۔ Endemic اس جانور کو کہتے ہیں جو ایک مخصوص علاقے میں رہتا ہے۔ چلتن مارخور کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے علاقے کو بالکل چھوڑتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’یہ سلیمان مارخور اورسندھ Ibex کا کراس Hybrid ہے ۔ خدا نے چلتن مارخور کے نام سے ایک نئی اس پہاڑ میں پیدا کی ہے جو اس پہاڑ کی پہچان بن گئی ہے۔‘

چلتن مارخور کی تین مزید اقسام کو نام دینے کے لیے آئی یو سی این کو دعوت

نذیر احمد کرد نے بتایا کہ اس پہاڑ میں چلتن مارخور کی تین مزید sub species ہیں اور وہ بھی ہائبرڈ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سب کو سائنسی لحاظ سے ابھی تک ک ئی نام نہیں دیا گیا ہے۔

انھوں نے ان کے مقامی نام بتائے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ ان sub species کو باقاعدہ سائنسی نام دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ آئی یو سی این سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آکر ان species کو دیکھ کر انھیں زوآلوجیکل سرٹیفیکیٹ یعنی نام دیں۔

چلتن مارخور کی تعداد میں اضافے کے باعث ٹرافی ہنٹنگ میں اضافے کا خدشہ
اس وقت دنیا بھر میں ٹرافی ہنٹنگ ایک انٹرنیشنل پریکٹس ہے جس میں سلیکٹڈ شکار کیا جاتا ہے اور اس کے تحت ان جانوروں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے جن کی عمر زیادہ ہو۔

نذیر کرد نے بتایا کہ اس کے بدلے میں ایک رقم مقرر کی جاتی ہے جو کہ ڈالر میں ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مارخور کی قیمت چالیس ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر یا اسے سے کچھ اوپر تک ہوتی ہے۔ پھر قواعد و ضوابط کے مطابق اس رقم کا 80 فیصد گردونواح کی آبادی ہے کی خوشحالی پر خرچ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب یہ طریقہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اور یہ لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب چلتن پارک کے بفرزون میں ٹرافی ہنٹنگ شروع کی جا سکتی ہے۔

چلتن میں اور کون سی جنگلی حیات ہیں؟
چلتن میں مارخور کے علاوہ دوسرے جانور بھی موجود ہیں جن میں بھیڑیے جسے لگڑ بگڑھ کہا جاتا ہے، اس کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔

نذیر احمد کرد کا کہنا تھا کہ یہاں بہترین قسم کی لومڑی بھی موجود ہے اور یہاں ہجرت کرنے والے فالکن بھی آتے ہیں ’یہاں شاہین، چکور اور سسی بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں جنگلی حیات کی تمام اقسام موجود ہیں جو افریقہ کی جنگلی حیات سے کم نہیں ہیں۔

چلتن کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مارخور کی کیا صورتحال ہے؟

بلوچستان میں پایا جانے والا مارخور، سلیمان مارخور کے نام سے مشہور ہے۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف بلوچستان نیاز کاکڑ نے بتایا کہ سلیمان مار خور ژوب، قلعہ سیف اللہ میں طورغر، زیارت اور کوئٹہ کے قریب شمال مشرق میں کوہ تکتو میں پائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں مارخور کی سب سے بڑی تعداد طورغر میں ہے اور یہاں بھی محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نوابزہ محبوب خان جوگیزئی اور مقامی کمیونٹی کا اس کے تحفظ میں اہم کردار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طور غر میں مارخور کی تعداد دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔

نیاز کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں دوسرے نمبر پر مارخور کی تعداد کوہ تکتو میں ہے جہاں ان کی تعداد پندرہ سو سے دو ہزار کے لگ بھگ ہے۔

اس وقت مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کس علاقے میں ہو رہی ہے؟
بلوچستان میں اس وقت ٹرافی ہنٹنگ قلعہ سیف اللہ کے طورغر علاقے میں ہوتی ہے۔ نیاز کاکڑ نے بتایا کہ اس کے لیے ہر سال پوری دنیا سے دس سے بیس لوگ درخواست دیتے ہیں جن میں سے دو سے تین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ شکار کے لیے زیادہ رقم کی پیشکش کرتے ہیں انھیں ہی ہنٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے۔
( بشکریہ بی بی سی اردو)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں