حامدمیر، اردوتجزیہ نگار

حکمرانوں کی آخری پناہ گاہ کون سی ہوتی ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حامد میر :

صبح صبح وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک فون نے پریشان کر دیا۔ یہ فون وزیراعظم پاکستان کا تھا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے سے پوچھا کہ کیا آپ نے آج نوائے وقت کا اداریہ پڑھا ہے؟ وزیراعلیٰ نے خفت آمیز لہجے میں کہا کہ ابھی میں نے اخبارات نہیں دیکھے۔

وزیراعظم نے اپنے صوبے کے دانشور اور لکھاری وزیراعلیٰ کو بتایا کہ اِس اداریے میں احمد فراز کی ایک غزل کے ایک شعر پر کیا جانے والا اعتراض انتہائی اشتعال انگیز ہے اور پنجاب میں مذہبی فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ آپ میری طرف سے اخبار کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی صاحب کو تشویش سے آگاہ کریں۔

حنیف رامے نے وزیراعظم کا فون سننے کے بعد اپنے پریس سیکرٹری فتح محمد ملک کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آج نوائے وقت کا اداریہ پڑھا ہے؟ ملک صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ میں تو آپ کے فون پر بیدار ہوا ہوں۔

اخبارات کا بنڈل تو باہر کہیں صحن میں پڑا ہو گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اداریہ تو ابھی میں نے بھی نہیں پڑھا مجھے بھی وزیراعظم کے فون سے پتا چلا ہے، آپ تیار ہو کر میرے پاس آ جائیں، راستے میں اداریہ پڑھ لیں اور ناشتہ میرے پاس کریں۔ فتح محمد ملک صاحب کو احساس ہوا کہ ہم سب سو رہے ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو جاگ رہے ہیں اور صبح کے اخبارات پر بھی نظر ڈال چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات میں طے ہوا کہ فتح محمد ملک خود مجید نظامی صاحب کے پاس جائیں گے اور اُنہیں وزیراعظم کی تشویش سے آگاہ کریں گے۔

ملک صاحب نے احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’فنون‘‘ کا تازہ شمارہ ساتھ لیا اور نظامی صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ قاسمی صاحب نے اپنے جریدے میں احمد فراز کی غزل اُس شعر کے بغیر شائع کی تھی جس پر اداریے میں اعتراض کیا گیا تھا اور اِسے توہینِ مذہب قرار دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے نظامی صاحب کو احمد فراز کی ’’فنون‘‘ میں شائع شدہ غزل دکھائی اور کہا کہ جناب اِس غزل میں وہ شعر ہی شامل نہیں جس پر آپ کو اعتراض ہے۔ نظامی صاحب حیرت میں ڈوب گئے۔

کچھ توقف کے بعد اُنہوں نے فتح محمد ملک سے کہا کہ آپ کی یہ حکومت بھی عجیب حکومت ہے۔ کل مجھے وفاقی وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی نے خود فون کیا اور کہا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کے لئے پیغام دیا ہے کہ وہ احمد فراز سے سخت تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ احمد فراز کے خلاف ایک اداریہ تحریر کریں تاکہ حکومت احمد فراز کو پاکستان نیشنل سنٹر سے فارغ کرے جو وزارتِ اطلاعات کا ذیلی ادارہ تھا۔

مولانا کوثر نیازی نے فون پر احمد فراز کا وہ شعر بھی نظامی صاحب کو لکھوایا جو اُن کے خیال میں بڑا قابلِ اعتراض تھا۔ سارا قصہ سنا کر نظامی صاحب نے پوچھا، آپ ہی بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ کس کی سنیں؟

مجید نظامی صاحب نے فتح محمد ملک کو لاجواب کر دیا تھا۔ اُنہوں نے نظامی صاحب سے پوچھا کہ جو آپ نے بتایا ہے، کیا ہم یہ سب وزیراعظم صاحب کو بتا دیں؟ نظامی صاحب نے بڑی خوش دلی سے اجازت دے دی۔ فتح محمد ملک صاحب نے یہ سارا قصہ اپنی کتاب ’’احمد فراز کی شاعری، نغمۂ دلدار یا شعلۂ بیدار‘‘ میں لکھا ہے۔ جب یہ معاملہ بھٹو صاحب کے علم میں آیا اُنہوں نے قہقہہ لگایا اور مطمئن ہو گئے کہ اُن کی حکومت کے خلاف سازش باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہو رہی تھی۔ جب کسی حکومت کا وزیر اطلاعات اپنے ناقدین اور مخالفین کے خلاف کفر اور غداری کے الزامات لگانے لگے تو دراصل وہ کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ معاشرے میں اشتعال اور بےچینی پھیلا کر خود اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہوتا ہے۔

اِس قسم کے الزامات کسی حکومت یا ریاست کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہوتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی کی احمد فراز سے چپقلش کی وجہ یہ تھی کہ مولانا وزیر اطلاعات تھے اور احمد فراز اُن کے ماتحت۔

ایک دفعہ کوثر نیازی نے اپنے ایک شعری مجموعے کا مسودہ احمد فراز کے پاس بھیجا اور تقاضا کیا کہ اِس کا پیش لفظ لکھ دیں۔ احمد فراز کا خیال تھا کہ مولانا کوثر نیازی ادیب تو ہو سکتے ہیں لیکن شاعر نہیں لہٰذا اُنہوں نے اپنے باس کی کتاب کا پیش لفظ لکھنے سے انکار کر دیا۔ اِس انکار کی وجہ سے مولانا صاحب اپنے ہی ماتحت کو کافر قرار دے کر نوکری سے نکالنا چاہتے تھے لیکن اُن کی سازش ناکام ہو گئی۔

عجیب اتفاق ہے کہ ملک صاحب نے اپنی اِس کتاب کو ایک ایسے صاحب کے نام کیا ہے جو آج کل وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور حکومت کے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینے میں مصروف رہتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی احمد فراز صاحب کی۔ وہ کوثر نیازی کی سازش سے تو بچ گئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایک اور سازش میں پھنس گئے۔ اُنہیں فوج کے خلاف ایک نظم کہنے کے الزام میں غدار اور ملک دشمن قرار دے کر اٹک قلعے میں پہنچا دیا گیا۔ اِس واقعہ کی تفصیل ہمیں کشور ناہید صاحبہ کے ذریعہ پتا چلی۔

اُنہوں نے احمد فراز کی رہائی کے لئے خاتون اول بیگم نصرت بھٹو سے بات کی لیکن بیگم صاحبہ کامیاب نہ ہوئیں۔ پھر کشور ناہید صاحبہ اور مسعود اشعر صاحب ملکۂ ترنم نور جہاں کے پاس گئے۔ ملکۂ ترنم نے اپنی ایک دوست حسنہ شیخ سے بات کی اور حسنہ شیخ نے بھٹو صاحب کو قائل کیا کہ وہ فوجی قیادت سے بات کریں اور احمد فراز کو رہا کروائیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت جب تک مضبوط تھی تو اُنہوں نے احمد فراز کو کفر کے فتوے سے بچایا۔ جب 1977کے اوائل میں اُن کی حکومت کمزور ہو چکی تھی تو پھر اُنہوں نے کسی کی فرمائش پر احمد فراز کو غداری کے الزام میں گرفتار کرا دیا۔ کچھ مہینوں کے بعد بھٹو صاحب خود گرفتار ہو گئے۔

2007 کی بات ہے۔ احمد فراز صاحب نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں کور کمانڈرز کے بارے میں ایک ایسا لفظ کہہ دیا جسے مشرف دور میں کہنا اور لکھنا آسان تھا، آج بہت مشکل ہے۔

اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل وحید ارشد نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیا یہ لفظ آن ائیر جانا چاہئے تھا؟ میں نے کہا، نہیں جانا چاہئے تھا لیکن یہ لفظ احمد فراز کی زبان سے نکلا تھا، اُسے کاٹنا مشکل تھا۔ وحید ارشد صاحب کی مہربانی کہ اُنہوں نے بات آگے نہیں بڑھائی، پھر جو بھی کیا پمرا نے کیا۔ آج تو بات بہت آگے جا چکی ہے۔ ایک طرف ایاز صادق کی صورت میں ایک نیا غدار متعارف کرایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف وزیر داخلہ اعجاز شاہ سیاسی مخالفین کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

سیاسی اختلاف کو ذاتی انتقام اور نفرت بنا دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ناکامی سے توجہ ہٹانے کا بہترین طریقہ غداری کے الزامات لگانا ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ غداری کے الزامات میں اُس وقت شدت آتی ہے جب حکومتیں ناکامیوں سے دوچار ہوتی ہیں پھر اُن کی آخری پناہ گاہ حب الوطنی کے دعوے بن جاتے ہیں۔( بشکریہ روزنامہ جنگ )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں