خادم حسین رضوی

علامہ خادم حسین رضوی انتقال کر گئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے۔ خاندانی ذرائع نے ان کی وفات کی تصدیق کردی ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی گزشتہ کئی روز سے بخار میں مبتلا تھے۔ چند روز پہلے جب وہ فیض آباد دھرنا کی قیادت کر رہے تھے تو انھوں نے اپنے بخار میں مبتلا ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے جب ان کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو انھیں شیخ زید ہسپتال لاہور میں لے جایا گیا، جہاں وہ بے ہوش ہوئے ، بعدازاں انتقال کر گئے۔

خادم حسین رضوی کون تھے؟

لاہور کی ایک مسجد کے 52 سالہ خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔

بریلوی مکتب فکر کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا ہے۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے۔

خادم حسین رضوی کو گذشتہ برس کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔

انھیں کس کی حمایت حاصل تھی؟

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں فیض آباد دھرنے سے متعلق تاثر تھا کہ اس دوران احتجاج کرنے والوں کو کسی نہ کسی صورت پاکستان فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اس بابت احتجاج کے اختتام پر رینجرز کی جانب سے مظاہرین میں رقوم کی تقسیم کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

فوج اس حمایت سے انکار کرتی رہی لیکن اب آسیہ بی بی کے تنازعے میں ملک بھر میں دھرنوں کے پیچھے کون ہے اور تحریک لبیک کو کس کی حمایت حاصل ہے یہ سوال دوبارہ پوچھا جا رہا ہے۔

تاہم مبصرین کے خیال میں ماضی میں انھیں کسی کی پشت پناہی حاصل ہو یا نہ ہو اس مرتبہ وہ معاشرے کے ایک خاص قدامت پسند طبقے میں اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر سڑکوں پر نکلے ہیں۔

اب وہ اور ان کی تحریک کے دیگر سینئر رہنما جس قسم کی زبان فوج اور عدلیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں اپنی طاقت پر حد سے زیادہ اعتماد ہوگیا ہے۔

ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں تھے۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا تھا ۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس اب موجود تھیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ تھے ۔ وہ اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے تھے۔

خادم حسین رضوی کہاں سے تھے؟

تحریک کے ایک ترجمان اعجاز اشرفی نے بتایا کہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا ۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے بھی مختلف احتجاج میں شریک رہے ہیں۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے ۔

وہ 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی درج ہیں۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انھیں یاد نہیں۔ لیکن تحریک کے آغاز سے اب تک انھیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کی ’سٹریٹ پاور‘ ہے۔

جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور انھیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔

خادم رضوی کا انداز بیان

خادم حسین رضوی کی گرمجوش تقاریر سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت سے کافی مرعوب تھے ۔ ان کے پیرو کار ان کی سخت گفتگوئوں پر آنکھیں بند کر کے خوب واہ واہ کرتے رہتے تھے۔ ان کی کڑی تنقید کا نشانہ محض صاحب اقتدار ہی نہیں بلکہ دیگر کئی شخصیات بھی تھیں۔

مولانا خادم حسین رضوی کو علامہ محمد اقبال کی شاعری بہت پسند تھے، وہ اپنی تقاریر میں ان کی شاعری اس انداز میں روانی سے پڑھتے تھے کہ بعض لوگ انھیں علامہ اقبال کے کلام کا حافظ بھی کہتے تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں