Alie by Muhamamd Bilal Akram Kashmiri

ایلین ،کائنات کا سربستہ راز

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

: محمد بلال اکرم کشمیری

کیا اس کائنات میں انسانوں کے علاوہ بھی کوئی ’’انسانوں ‘‘ جیسا یا اس سے ملتا جلتا آباد ہو سکتا ہے؟یہ وہ سوال ہے کہ جو قدیم اور جدید خلائی سائنس دانوں اور فلاسفروں کے علاوہ سائنس فنکشن کے ماہرین کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے ،اسی سوال کو لے کر بہت سے فرضی ناول لکھے اور فلمیں بنائی گئیں ،ان ناولز اور فلموں کا مرکزی کردار ایک ایسی مخلوق کو دکھایا گیا جس کا تعلق اس زمین کے علاوہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سے ہوتا ہے ،اسے’’ایلین‘‘ کا نام دیا گیا ۔بعض نے انسانوں کو ہی ’’ایلین‘‘ یعنی دوسرے سیارے کی مخلوق کا نام دیا ۔جیسا کہ ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب ’’Human are not from earth‘‘سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔جس میں ڈاکٹرایلس نے یہ ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلائل دیئے ہیں کہ انسان کا تعلق اس زمین سے نہیں بلکہ یہ انسان کسی دوسرے سیارے سے لا کر یہاں آباد کیے گے ہیں،1790میں جارج واشنگٹن نے  اجنبیوں کے لفظ ’’ایلین‘‘  کا استعمال کیا ،ایک نیا قانون بنایا جارہا تھا جس میں غیر ملکیوں یا اجنبیوں کو ملکی شہریت دینے کے حوالے سے قانون پاس کیا گیا جس میں اجنبی کے لیے لفظ ’’ایلین‘‘ کا استعمال کیا گیا ۔ اور یہ لفظ تاحال اس قانون کا حصہ ہے،2016 کے صدارتی مذاکرے میں بھی صدر ٹرمپ نے ’’قانونی ایلین ‘‘ اور ’’غیرقانونی ایلین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ۔

                2016 میں سائنس دانوں کو خلا سے ایسے سگنلز بھی ملے  جن کے بارے میں ان سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ سگنلز ایلین کے مرکز یا پھر میگا اسٹرکچر سے آرہے ہیں  ،اس کے بعد سائنس دانوں نے زمین کو ایلینز سے پوشیدہ رکھنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر دی تھی ،کیونکہ ان کے خیال میں ایلینز زمین کے دشمن ہیں اور ان سے زمین پر موجود آباد کاروں کو خطرہ ہو سکتا ہے ۔

Haim_Eshed_January_2008

                ایلین کے ساتھ ساتھ ان کی سواریوں جن کے لیے UFO (ان آئڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹس)یا اڑن طشتریوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے بھی  خلائی کہانیوں کے لیے مرکزیت کی حامل رہی ،وقتا فوقتا ان اڑن طشتریوں کے حوالے   سے بھی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں مگر تاحال اس کی تصدیق اور تردید کرنے سے سائنس دان قاصر نظر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ایسے انکشافات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن میں ایلین کی موجودگی اور ان کی زمین کی جانب پیش قدمی کے حوالے سے بھی باتیں کی جاتی ہیں۔چنانچہ یو ایف او کے حوالے سے  برطانوی وزارت دفاع نے 1990 میں ایک خفیہ تحقیقاتی مشن قائم کیا جس نے سن 2000 تک کام کیا ،اس مشن کا مرکزی سوال  تھا ’’کیا وہاں کوئی ہے ؟ ‘‘ بعد ازاں 400 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی جس  میں کہا گیا ’’ ایسے شواہد کا وجود نہیں ہے جن سے یہ اخذ کیا جاسکے کہ (یو ایف او کے) یہ مشاہدات خطرناک ہیں یا انہیں کوئی کنٹرول کررہا ہے، وہ فطری طاقتوں کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔‘تاہم یہ سوال پھر باقی رہا کہ اگر یو ایف او ٹھوس مادے سے نہیں بنی توپھر وہ کیا ہےجسے دنیا کے مختلف علاقوں میں وقتا فوقتا دیکھا گیا ہے؟اس کا جواب اس رپورٹ میں یوں تحریر کیا گیا کہ ’’ اس تحقیق کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ غیرشناخت شدہ فضائی مشاہدات یعنی یو ایف او ٹوٹتے ہوئے ستاروں اور ان کے اثرات کے نتیجے میں دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی یو ایف او خلاء میں مقناطیسی، برقی، طبیعاتی اور موسمیاتی فورسز کے درمیان ردعمل سے وجود میں آتے ہیں۔تحقیق کے مطابق خلاء میں مختلف برقی، مقناطیسی اور موسمیاتی حالات کے نتیجے میں کچھ اس طرح چند وقفوں کے لیے وجود میں آتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے وہ انوکھے نظر آتے ہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے سابق اسرائیلی خلائی ایجنسی کے چیف  نے اچانک ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ارتھلنگس یعنی زمینی باشندے گلیکٹک فیڈریشن یعنی خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں۔اسرائیل کے وزارت دفاع کے خلائی ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ ، ہائیم ایشد (Haim Eshed)نے اسرائیل کے یدیوٹ احرونوٹ(Yediot Aharonot) اخبار کوانٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ  "نامعلوم پروازی آبجیکٹوں(UFO) (ان آئڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹس)نے اس  رابطے  کو عام یا اسے شائع کرنے سے منع کیا تھا کیوں کہ ایلین کے مطابق  انسانیت ابھی اس خبر کے لیے تیار نہیں  ہے،ہو سکتا ہے کہ انسان یہ خبر سن کر خوفزدہ ہو جائیں۔

The Universe Beyond the Horizon

پروفیسر ہائیم ایشد  نے ایلین کے بارے میں مزید یہ بھی بتایا کہ ایلین بھی انسانوں کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں جتنی کہ انسان ان کے بارے میں  ،انہوں نے مزید بتایا کہ  ایلین کائنات کے بھی تانے بانے کو سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،اس انٹرویو میں پروفیسر نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت اور ایلین کے درمیان باقاعدہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ایک معاہدہ بھی ہوچکا ہے ۔ان معاہدوں میں "مریخ کی گہرائیوں میں زیر زمین اڈہ” بھی شامل ہے جہاں امریکی خلاباز اور ایلین موجود ہیں۔دو سال قبل مریخ  پر بھیجے جانیوالے مشن ’’ان سائیٹ‘‘ کے آلات نے بھی مریخ کی گہرائی کو جانچنے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔

ایشد نے  انٹرویو دیتے ہوئے مزید بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس غیر ارضی مخلوق سے بخوبی واقف تھے۔جب وہ یہ معلومات افشا کرنا چاہتے تھے تو انہیں عوام میں خوف وہراس پھیلنے کے سبب اس کام سے سختی سے روک دیا گیا ،کیونکہ انسان اب تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ بھی کوئی مخلوق ان کے مقابلے میں اس کائنات میں آباد ہے ۔کہکشائی انجمن (Galactic federation)کے متعلق بات کرتے ہوئے ایشد نے مزید کہا کہ وہ (ایلین)آج بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ انسان اس حد تک ترقی یافتہ ہو جائے کہ خلا اور خلائی جہازوں کے متعلق مکمل طور پر جان کر ان کے مساوہی ہو جائے تاکہ اس سے گفتگو اور معاملات میں آسانی ہو۔

پروفیسر ہائیم ایشد  کے اس تہلکہ خیز انٹرویو کے بعد اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں اور وائٹ ہاوس کے ترجمان نے فوری طور پر اس خبر پر ردعمل دینے سے معذرت کر لی تھی ،جبکہ پینٹا گون کے کے ترجمان سیو گو نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔جبکہ ناسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد کائنات میں زندگی کی تلاش ہےمگر تاحال انہیں غیر ارضی مخلوق کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا لیکن وہ پر امید ہیں کہ اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کر سکیں کہ آیا کائنات میں انسانوں کے علاوہ بھی کوئی مخلوق آباد ہے یا نہیں ؟

نومبر 2020میں شائع ہونے والی کتاب  "افق کے اس  پار – پروفیسر ہیم ایشد کے ساتھ گفتگو”( "The Universe Beyond the Horizon — conversations with Professor Haim Eshed”)جس کے مصنف ہاگر یانائی  (Hagar Yanai)میں ایشید کے نظریات کی وضاحت زیادہ تفصیل سے کی گئی ہے۔

87 سالہ ایشد  جو کہ اسرائیل ڈیفنس فورس کے جنرل رہے بلکہ ریٹائرڈ منٹ کے بعد گزشتہ 30 برسوں سے  انہوں نے  اسرائیل کے لیے متعدد خلائی سٹیلائٹ اور مصنوعی سیارچوں پر بھی کام کیا، ایشد نے باقاعدہ طور پر ایران  کی نگرانی کے لیے ایک خفیہ سیارچہ بھی خلا میں چھوڑا تھا،علاوہ ازیں ایشد نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی (اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس ) کے لیے بھی اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دیں،ان کاکہنا تھا کہ وہ باتیں اس وقت اس لیے کر رہے ہیں کہ اب لوگ اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہیں،ہائیم ایشد کا کہنا تھا کہ اگر وہ یہ باتیں 5 برس قبل کرتے تو انہیں (پاگل قرار دے کر )ہسپتال میں داخل کر دیا جا تا ،اب مجھے سب کچھ حاصل ہے ،میرے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے ،میں نے ڈگریز او رایوارڈ لے لیے ہیں اور بین الاقوامی جامعات میں میری عزت ہے ۔

دوران انٹرویو انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مئی 2020 میں جب ٹرمپ کو خلائی فوج کا جھنڈا پیش کیا گیا تو اس موقع پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’خلا اب مستقبل ہے جرم اور دفاع دونوں اعتبار سے،اور اب ہم خلا کے لیڈر ہیں‘‘،امریکہ نے خلا کو فوجی چھاؤنی بنانے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے جو کہ اس کے سیارچوں اور مواصلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ زمینی سیاست پربھی نظر رکھے گی۔دسمبر 2019 میں ٹرمپ انتظامیہ نے باقاعدہ طور پر خلائی فوج کی تیاری کا حکم دیا تھا جو کہ 16ہزار نفوس پر مشتمل ہو گی ۔ایشد  کے تبصروں  کے فوری بعد سوشل میڈیا پر بھی نئی بحث نے جنم لیا ہے ،اور بعض قارئین نے ایلین سے ملاقاتیں کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے ۔

برطانوی وزارت دفاع کے لیے یو ایف او پر  طویل عرصہ تک تحقیقات کرنے والے نک پوپ نے ایشد کے بیان کو "غیر معمولی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی لطیفہ ہو اور یا پھر اپنی کتاب فروخت کرنے کے لیے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔پوپ کا مزید کہنا تھا کہ سازشی تھیوی پر مبنی کمیونٹی یہ جاننا چاہتی ہے کہ ایشد اس بات کا اظہار ذاتی علم اور تجربے سے کر رہے ہیں یا پھر جو کچھ انہیں بتایا گیا اسی کو دہر ا رہے ہیں؟ابھی بھی اس معمہ کے چند ٹکڑے باقی ہیں۔

                 یہاں یہ سوال اہم ہے کہ آخر ایلین کے بارے میں اتنی جستجو کیوں کی جارہی ہے ؟ بار بار ایلینز کا تذکرہ کرکے انسانوں کے ذہن کو کس لیے تیار کیا جارہا ہے؟ اگر چہ اس کائنات میں انسانوں کے علاوہ بھی اللہ رب العزت کی بے شمار مخلوق آباد ہے  مگر دوسری مخلوق کو آج تک  دیکھا نہیں جا سکا،نہ ہی اس کے دیکھے جانے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں،اس دنیا میں جتنا بھی مذہبی ،غیر مذہبی اور اصلاحی لٹریچر موجود ہے اس میں مرکزیت انسان کو حاصل ہے ،انسان اس خالق کائنات کی بہترین تخلیق ہے ،جسے اشرف مخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے ،آج کا انسان اس جستجو میں ہے کہ کیا اس انسان کے علاوہ بھی کوئی دوسری مخلوق  اس کائنات میں آباد ہے ؟یہی وہ مرکزی سوال ہے جس پر انسان سمندروں کی تہہ اور خلاؤں کی خاک چھاننے میں مصروف عمل ہے ۔ تاہم قارئین مضمون کو پڑھ کر بخوبی اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں