بلوچی سجی، تلی ہوئی مچھلی ، چکن کڑاھی

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تیمیہ صبیحہ :

سنا ہے بنی نوع انسان کے گناہ کے کارن جو بلائیں نازل ہوا چاہتی ہیں انہیں کچھ پاک صاف قدسی نفوس کے اعمال صالحہ ذرا ہالٹ کر دیتے ہیں اور رن میں بربادی آبادی سے شکست کھا جاتی ہے جب تلک مالک یوم الدین کا فیصلہ نہ آ جائےـ

اب اسی سال آتے جاڑے کا ذکر ہے ـ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وبا نے ہمارا گھر تاک لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم اپنے اپنے حجروں میں پلنگ نشیں ہوگئے ـ جب نوبت یہاں تک پہنچی کہ آکسی میٹر اور تھرما میٹر دائیں بائیں کراما کاتبین کی مانند براجمان ہو گئے، رنگ رنگ وٹامنوں سے بھری شیشیوں کا انبار سر ہانے سج گیا،

آل اولاد باہر باہر سے ڈری سہمی نظر ڈالنے لگی تو خدا کی شان، غنودگی میں اک رات جو فون پر ہاتھ پڑا تو مدت سے بھولی بسری اک محبوب زمانہ باجی نکلیں کہ نوجوانی کے سنہری ایام میں ہم ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے اور ان کے التفات کے متمنی رہا کرتے تھے ـ

تاریخ کے جھروکوں سے دریافت ہوا کہ دس بارہ صفحات پر مشتمل نامے بھی شعر و شاعری سے مزین کر کے زبردستی ان کو پوسٹ کیا کرتے تھے ـ جانے پڑھا کرتی تھیں یا عاشقوں کے دماغی خلل کی صحت یابی کی دعا فرماتی تھیں ـ خیر! انہیں ایک فقرہ جڑ دیا کہ دعا فرمائیے، بندی تو گئی اب ـ ادھر ترنت بے تابی کا اظہار ہوا کہ بتاؤ تو سہی کیا ہوا ـ ہم میں عشوہ و ناز کی طاقت نہ رہی تھی لہذا یک سطری جواب دے کے غتر بود ہو گئے، وہ بے چاری گھلتی رہیں ـ

اس دوران میں درجہ ابال پر تاؤ کھائے دودھوں نہانے کا شوق پورا کیا ـ نتیجتاً بڑے بڑے چھالے یہاں وہاں ٹسوے بہانے لگے ـ جب بدن بستر چھوڑنے سے انکار کرے، چھالوں کا گریہ و فریاد آستین بھگو دے ـ یا اللہ! طاقت سے بڑا بوجھ نہ ڈال ـ تیسرے روز اچانک ہوش اور مد ہوشی کے بیچ احساس ہوا کہ سائیڈ پر دھرے ، بیل بند کیے فون میں کچھ چمک پیدا ہو رہی ہے ـ

دیکھا تو باجی کا حکم تھا کہ گلی میں جھانکو .. چہرہ محبوب تو نہ نظر آیا، careem میں لدے ہوے تھیلے دکھائی دیے ـ فٹافٹ اولاد آدم کو دوڑایا ـ خود نماز کی نیت باندھی ـ کچھ ہی دیر بعد مصلے پر گیٹ ویل سون کا پیغام لیے ایک کارڈ آ گرا ـ سلام پھیرا تو قلقاریوں اور نعروں کی پرجوش آوازیں سنائی دیں ـ

خدایا یہ کیا ماجرا ہے ـ اپنے قرنطینہ سے تمام تر روک ٹوک کو بالائے طاق رکھ کے جھانکا تو
تھیلے میں ڈبے ،
ڈبے پہ ڈبہ،
بڑے ڈبے پہ چھوٹا ڈبہ،
اور ڈبے ہی ڈبے ..
پلاؤ، سالن، میٹھے قسما قسم کے پیکنگ میں بند ..

آنکھوں میں آنسو ہی آ گئے ـ دو دن سے ایمرجنسی کور فراہم کرتے کنور نوڈل اور ڈبل روٹیاں کونے میں منہ بسور رہی تھیں اور قوم اس نعمت غیر مترقبہ پر ٹوٹی پڑی تھی ـ

ابھی یہ سامان باقی تھا کہ بڑی نند صاحبہ نے ڈرائور بھجوایا ـ دروازے پر ڈبوں کا تبادلہ ہوا ـ خدا کی شان! دو تین دن اور دعوت اڑاتے گزرے ـ چھٹے دن ہم نے کچھ سامان فریزر کے حوالے کیا ـ دوسرے ہفتے ڈرائیور کی اماں جان ساگ کا ڈونگا دے گئیں ـ اک روز میاں کے دفتر سے فیملی لنچ چلا آیا ـ ابھی اس کی باقیات موجود تھیں کہ ساس امی کے حلقہ ارادت سے قطار اندر قطار خوان چلے آئے ـ

اگلے روز سگنیچر فارم سے مرغ نے اڑان بھری اور ہمارے فریج میں لینڈ کیا ـ پیچھے پیچھے اک عدد بکرا ہمسائی کی کرم فرمائی سے پہنچ گیا ـ خدا نے سمندر کو بھی ہمیں رزق فراہم کرنے کا حکم دیا اور ہم ایک طرف مرغ و ماہی سے داد شکم دیتے پھلے پھولےـ دوسری طرف ٹیلی میڈیسن سے فیض یاب ہوتے آن لائن دوا دارو کرتے ـــ

کبھی اک مسیحا کا پیغام ملتا کبھے دوسرے صاحب کا نسخہ پہنچتا ـ سہیلیوں اور کنبے کی ٹیلی عیادت اس پر سوا تھی ـ روزانہ سیروں خون بڑھتا رہا ( امید ہے وزن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہوگا)ـ

یاروں کا کیا کہنا..سالوں جس سے بات نہ ہوئی ان محترمہ نے یاد فرمایا اور اتنا ہنسایا کہ پسلی درد کرنے لگی ـ اور کھانسی دوبارہ چھوٹ گئی ـ ظالم! اک اور محترمہ نے سنتے ہی اطمینان کا گہرا سانس لیا، ” چل شکر کر فارغ ہوئیں ـ مجھے تو پچھلے نو ماہ سے دھڑکا لگا ہے کہ اب ہوا تب ہوا“ ـ

دوسری طرف ہمت شکن خبریں بھی تواتر سے آ رہی تھیں ـ کئی بار فون بند کر دیا کہ انا للہ و انا الیہ راجعون مزید لکھنے پڑھنے کی تاب نہ تھی ـ میاں آپ مرض گزیدہ تھے ـ ان کا مرجھایا چہرہ دیکھ کے اپنا آپ فریش ظاہر کرنا پڑتا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کے امید افزا باتیں سوچنی پڑتیں ـ آخر اک روز فرمایا، بس وہ گاڑی بنا لوں تو پھر خیر ہے ـ ہم اپنی محنت اکارت جاتے دیکھ کے جی جان سے جل گئے ـ

انیس سو ستر کے اس سکریپ کو ہمارے سر چھوڑ کے کیا احسان دھرنا ہے ـ جنت میں اللہ سے مانگ لیجیو جا کے ـ تیسرا ہفتہ یوں بہتر رہا کہ دو طرفہ فائر ہر گزرتے دن زور پکڑتا رہا ـ سیانوں نے اس گھریلو رَن کو تندرستی کی علامت بتایا ہے لہذا ہم نے بھی آئسولیشن ختم فرمائی اور کھل کھیلے ـ تآنکہ چوتھے ہفتے نیگٹو ہو کے نئے نویلے دیدوں سے دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوئے ـ

تب سے اب تک ” اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ “ کا ورد کرتے سوچتے ہیں کہ جس قوم میں ایسی ہمدردی و دل سوزی باقی ہے اسے کورونا کہاں شکست دے سکتا ہے ـ
( اللہ سب کو عافیت سے رکھے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں