پاکستان، گائوں میں مٹی سے بنی مسجد

اپنی مٹی کی مسجد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر عامر جمال :

میرا دوست لوگن تبت کا رہنے والا ہے اور بدھ مت کا پیروکار ہے. میرے دفتر کے قریب ہی اس کا دفتر ہے …. ہمیشہ بہت پیار سے” السلام علیکم “ کہتے ہوئے میرے دفترآ جاتا ہے۔ آج مجھ سے رمضان کے بارے میں پوچھ رہا تھا. روزے کے اصل مقصد پر گفتگو ہوئی . پھراچانک اپنی کہانی سنانے لگا :

” جب چینیوں کے مظالم بڑھ گئے تو ہم تبت سے انڈیا ہجرت کر گئے، اتر پردیش میں جو اب دو صوبوں میں بٹ گیا ہے، ہمارا مہاجر کیمپ بنا۔ میں نے کینیڈا آنے سے پہلے جوانی اس کیمپ میں گزاری.

کیمپ کے بالکل قریب ایک خوبصورت گائوں تھا جہاں ہم روز آتے جاتے تھے . وہاں آدھے مسلمان اور آدھے ہندو بڑے سکون سے رہ رہے تھے، مندر اور مسجد دونوں تھے مگر کبھی کوئی جھگڑا نہیں سنا، پھر ایسے میں چند مسلمان جوانوں کی سعودیہ میں جاب ہو گئی، وہ پیسے لے آئے اورگاؤں میں ایک بڑی خوبصورت مسجد بنائی ۔

مسجد مندر سے زیادہ بڑی اور پکی بنی . ان میں سے کچھ سعودیہ پلٹ مسلمانوں نے گاؤں والوں کے لیے اسلام کی کچھ نئی باتیں بھی شروع کیں اور شائد ہندو بھی نئی مسجد سے کچھ حسد کرنے لگے اور گاؤں میں نفرتیں اور بے سکونی بڑھ گئی . آپس میں جھگڑے بھی شروع ہو گئے اور اب بھی شاید وہی حال ہے۔“

لوگن نے جاتے جاتے سوچوں میں گم کر دیا . اپنی اور اپنے گاؤں اور علاقے کی کہانی یاد دلا دی۔
ہم بھی بہت سکون ،امن اور بھائی چارے کی زندگی گزار رہے تھے . ہماری بھی مٹی اور پتھر سے بنی مسجد تھی . بڑے والے ہال میں سوکھی گھاس بچھی ہوتی تھی اور باہر کھجور کے پتوں سے بنے صف .
پھر 1980 کے آس پاس بیرونی امداد سے سنگ مرمر کی مساجد کا دور شروع ہوا۔ ان مساجد کے امام صاحبان بھی مسسجد بنانے والوں کے مکتبہ فکر کے لائے گئے. اور رفع یدین ، آمین تیز یا آہستہ ، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور کافر کافر کے نعرے دیکھنے اور سننے کو ملے . باقی نفرتوں ، تعصب ، ظلم اور بربریت کی ایک لمبی داستان ہے ۔

وہ مٹی اور پتھر سے بنی مسجد یاد آنے لگی۔ جیسی بھی تھی ، اپنی تو تھی ، سکون تو تھا . ان سوکھے گھاس پھوس پر نماز اور سجدے کا ایک اپنا مزہ تھا.سجدوں میں سوکھے گھاس اور مٹی کی وہ پیاری خوشبو اب بھی ذہن میں نقش ہے۔

میرے تو پیارے پیارے شیعہ دوست تھے. اب بھی طاہر بنگش کا خوبصورت چہرہ اور لہجے کی مٹھاس یاد آرہی ہے . اس کے گھر افطاری میں ہمارے بڑے مزے ہوتے تھے۔ ہم سنی دوست روزہ ان سے دس منٹ جلدی کھولتے تھے، وہ بیچارے دیکھتے رہتے اور ہم ان کا خوب مذاق اڑاتے۔

محبت تھی ، امن تھا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ تھا. مسجد جو اپنی تھی، کیا ہوا جو مٹی اور پتھر کی بنی تھی . کچھ پچیس سال بعد …
کینیڈا کے ایک جھوٹے سے بہت خوبصورت شہر کی یونیورسٹی میں جاب ملی۔ یہاں تھوڑے سے مسلمان تھے اور انہوں نے مل کر اپنے لیے دریا کے کنارے ایک پرانا چرچ خرید لیا تھا اور پیاری سی مسجد بنا لی تھی .
بلڈنگ تو پرانی تھی ۔ عید کے نماز کیلئے چھوٹی بھی۔ بچوں کے ہفتہ وار کلاس کیلیے بھی ہمیں ایک سکول کراۓ پر لینا پڑتا۔
خیر
ہم نے نئی مسجد کیلیے مہم شروع کی۔

میں مسجد کمیٹی کا ممبر تھا اور ذمہ داری بھی تھی ۔ دوسرے ممبرز مراکو ، سعودی، مصری، لیبیا ، الجزیرہ ، اور مقامی کینیڈین تھے۔ بہت پیارے لوگ تھے۔ معاشی مشکلات تھیں لیکن ہم نے کوششش جاری رکھی۔
ایسے میں سعودی کلچرل اتاشی کینیڈا کے مسلمانوں کے دورے پر تھا۔ اس کو ہمارے چھوٹے سے شہر کے بارے میں پتہ چلا اور پیغام بھیجا کہ ہم آپ کے لیے نئی مسجد بنا دیں گے۔
کمیٹی میں بات آگئی۔۔
اور میری نظروں کے سامنے اپنے بچپن اور جوانی کی پوری کہانی فلم کی طرح گھومنے لگی۔ پتہ نہیں کیا ہوا که میں نے سب کو صاف الفاظ میں کہا:
نو بردرز .. نہیں ..بالکل نہیں، ہمیں سنگ مر مر کی نہیں۔ بس! اپنی یہ دریا کے کنارے لکڑی سے بنی مسجد کافی ہے اور اگر بنائیں گے تو اپنے فنڈ سے بنائیں گے۔
کچھ احباب نے تھوڑی بحث کی لیکن جوان ڈٹ گیا تھا اور آخر کار اتاشی صاحب کو انکار کے ساتھ شکریے کا پیغام بھیجا گیا . وہ بھی حیران ہوا ہو گا۔

مسجد جیسی بھی ہے اپنی تو ہے، امن اور سکون تو ہے نا۔ اپنا ایک تعلیم یافتہ امام ہے جس کو نفرتوں کے کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں. ہم سنی ، شیعہ ،مالکی، دیوبندی….سب ایک ہی صف میں ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے . اب تو میں وہ شہر چھوڑ آیا ، جدائی مشکل تھی، وہ بھی بہت اداس تھے اور میں بھی ..الله ان سب کو اپنے امان میں بہت سکون کے ساتھ رکھے .آمین
آج اپنے تبت کے لوگن نے اپنی چھوٹی سی کہانی سنا کرکہاں سے کہاں پہنچا دیا، اپنے گاؤں کی مٹی کی پرانی مسجد یاد دلا دی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں