قاضی حسین احمد

قاضی حسین احمد : گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید وقاص انجم جعفری :

یادوں کے کواڑ کھٹکھٹاتا ہوں، یہ جاننے کے لئے کہ اس عام نوجوان پر قاضی حسین احمد کا نقش اول کب اور کیونکر مرتب ہوا !!!

اول: یہ غالباً 1985 کی بات ہے جب اسلامی جمعیت طلبہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ مردان میں قاضی صاحب جہادافغانستان کے موضوع پرمحو کلام تھے ۔ وہ ملک بھر سے جمع ہونے والے طلبہ کے سامنے افغانستان کے ماضی ، حال اور مستقبل کو ایسے بیان کررہے تھے گویا یہ سب کچھ ان کی ہتھیلی کی لکیروں پہ رقم ہو۔

نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بھاریم

دریائےآمو،غزنی، ڈیورنڈ لائن ، لویہ جرگہ ، فقیر ایپی، اقبال ، امیر عبدالرحمان ، داؤد خان ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ ، ادب اور سیاست کے وہ حقائق جو ہمارے لئے کبھی بےرنگ اور غیر دلچسپ ہوا کرتے تھے ،قاضی صاحب کے بیان سے یکدم زندہ اور معنی خیز بن کر ہمارے حال میں داخل ہوگئے ۔

دوم: آپ اس کے طرز صحافت سے اتفاق کریں یا اختلاف، روزنامہ جنگ،اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں ہمیشہ سے تخلیقی راہیں تلاشتا رہا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صحافت کو اشتہارات کی اشتہا نے باؤلا نہیں کیا تھا۔ اس زمانے میں جنگ کا فرائیڈے یا سنڈے میگزین اخبار سے بھی زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی سیلیبرٹی اس میگزین پر جلوہ گر ہوتی ۔

ایک ہفتے قاضی صاحب کا انٹرویو سرورق پر ان کی وجیہہ تصویر کے ساتھ ابھرا، جس کے نیچے لکھے ہوئے جملہ نے شخصیت کے جلال وجمال کو کوزے میں بند کرکے رکھ دیا تھا کہ ” مجھے چٹانوں کی سختی اور پھولوں کی نرمی سے پیار ہے“

نسیم حجازی کے ناولوں کے رزمیہ ہیروز ، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم ایم اے کے نیشنلسٹ ایڈونچرازم سے متاثر نوجوان کو لگا کہ

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

(اس کے سر سے لیکر اس کے قدموں تک، میں جہاں بھی دیکھتا ہوں ان کی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے)

سوم: توکل و قناعت کے ماحول میں شعور کی آنکھیں کھلیں تو ارد گرد تعلیم و تربیت ،علم وادب کی فضا کہ مہکار تھی ۔ ایک جانب والد محترم کی پاکستان،اسلام اور اردو ادب سے محبت اور دوسری طرف اساتذہ کی محبت وتربیت نے جہاں زبان وبیان کے ذوق سے نوازا ، وہیں ادبی مقابلہ جات کے میدان میں بھی لاکھڑا کیا۔

اقبال کو پڑھنے ، یاد کرنے اور پھر کسی حد تک سمجھنے کے یہ ابتدائی دن تھے، جو بتدریج اقبال سے عقیدت اور بالاخر شیفتگی میں تبدیل ہوگئی ۔ قاضی صاحب،صحیح معانی میں اقبال کے مرد مومن تھے۔ مجھےایسی درجنوں تقاریب یاد آرہی ہیں جب قاضی صاحب کی گفتگو اور خطاب سے قبل کلام اقبال پڑھا جاتا ۔ مجمع کے ساتھ ساتھ قاضی صاحب ہمہ تن گوش ہوتے اور میں گاہے ’ دانائے راز‘ کے کلام کی معنویت کو اس شخص کے چہرے پر تلاش کرتا ، جس کی پوری زندگی اقبال کے خواب کی تعبیر کا سودا کئے ہوئے تھی۔

قاضی صاحب کو اقبال کا اکثر کلام ازبر تھا۔ مجھے کلاس پنجم سے ہی اقبال کے کلام سے شناسائی تھی ،مگر قاضی صاحب کی ہر تقریر، گفتگو، خطاب میں اقبال کا کچھ نیا، منفرد، برمحل پیغام دل کے تاروں کو چھیڑتا،ذہن کے در وا کرتا اور عمل کے راستہ کشادہ کرتا محسوس ہوتا۔

اقبال کے کچھ شعر تو میں نے قاضی صاحب ہی کی زبان سے پہلی مرتبہ سنے اور کسی مبالغے کے بغیر میں یہ کہوں گا کہ اقبال کے کئی اشعار ایسے ہیں جس کا مصداق قاضی صاحب ٹہرتے۔ وہ جستجو، محنت،ایثار،وژن، قائدانہ اوصاف،میں شاعر مشرق کے مرد مطلوب تھے

بتاؤں تجھ کومسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ وکمال جنوں

دہائیوں پہلے احمد ندیم قاسمی کاایک انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نامہ نگار نے مقبول و محبوب شاعر سے ان کی مزید خواہشات کے بارے میں جاننا چاہا۔ انہوں نے کہا کہ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا بڑھاپا ’ خوبصورت‘ ہو۔

قاضی حسین احمد پر لفظ بڑھاپا پھبتا ہی نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قاضی صاحب سے خوبصورت بڑھاپا ابھی تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔ ہم نے جب ان کی محفلوں میں جانا شروع کیا تو ان کے بالوں میں چاندی نے اترنا شروع کردیا تھا،مگر ڈھلتی عمر کے ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا جلال و جمال ، مائل بہ کمال تھا۔غالب جیسا عبقری بھی بے بس ہوکراپنے قوی کے اضمحلال اور اعضائے رئیسہ کی بے اعتدالی کا شکوہ کرتا ہے،مگر یہاں تو

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

والا معاملہ تھا۔ان دنوں میں بھی، جب قاضی صاحب امارت کی مصروفیات سے فارغ ہوکر جامع منصورہ کی صف اول میں کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے ، میری آنکھیں اس چہرہ کا طواف کررہی ہوتیں، جس کی مسکراہٹ،ملائمت رعنائی، اور رعب نے مسلسل کئی دہائیوں تک بچوں،جوانوں،بزرگوں،اپنوں،غیروں اور موافقین ومعاندین کو یکساں گرویدہ بنائے رکھا۔

قاضی صاحب کا خمیر جس مادے سے بنا تھا ،یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ سکون ،آرام،سٹیٹس کو،مفاہمت، خموشی اور سہل پسندی کا خوگر ہوتا۔ کبھی ان کی آبلہ پائی کو جہاد افغانستان وکشمیر کا پیمانہ عطا ہوتا اور کبھی ان کی سیماب صفت زندگی اسلامک فرنٹ اور متحدہ مجلس عمل کا جامہ پہنتی۔ گاہے وہ باہم نبردآزما افغان دھڑوں کے غیض وغضب کو اپنی حکیمانہ تدبیروں سے اتحاد کی لڑی میں پروتے نظر آتے اور کہیں بین الاقوامی محاذ پر ایران ،عراق،بوسنیا کے رستے زخموں کو اپنے دل کی تاروں سے رفو کرتے دکھائی دیتے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں آرام سکون، ٹہراو کے متعلق تو وہ خود کہتے تھے

ہستم اگر می روم گر نردم نیستم
ساحل اُفتادە گفت، گرچہ بسی زیستم
ہیچ نہ معلوم شد، آە کە من چیستم؟“
موج ز خود رفتە ای تیز خراسید و گفت
ہستم اگر می روم، گر نروم نیستم“

ایک سنسان ساحل کہنے لگا: اگرچہ میں نے بہت زندگی گزار لی لیکن افسوس مجھے کچھ پتا نہ چلا کہ میں کیا ہوں ۔ ایک متوالی لہر تیزی سے اترا کے چلی اور بولی: ” اگر چلتی رہوں تو میں ہوں ، نہ چلوں تو میں نہیں ہوں۔ “

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی نہ تو ان کا شوق سفر اور جوش جنوں تھم نہ پایا تھا ،نہ ہی لوگوں کی ان سے محبت وعقیدت ،ان کی سرگرمی میں نہ تو عمر مانع تھی نہ ہی ضعف ۔ وہ زندگی کے آخری لمحے تک جسم و جاں کی ہر صلاحیت کو مقصد زندگی کے لئے کھپا دینے کے خوگر تھے۔ ان کو محبوبیت اور مقبولیت کے عروج پر ایسی ہی موت زیبا تھی گویا کہ ایک شاہسوار جو معرکہ خیروشر میں اپنے حصہ کا کردار ادا کرتے کرتے براہ راست رب کے حضور حاضر ہو جائے۔

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فراز و پس و پیش سے
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں