حامدمیر، اردوتجزیہ نگار

روزگار کمانے کے انوکھے طریقے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حامد میر :

موبائل فون جب تک صرف فون تھا تو ایک رحمت لگتا تھا پھر اِس موبائل فون میں کمپیوٹر شامل ہو گیا اور یہ اسمارٹ فون کہلانے لگا۔ ایک چھوٹے سے جیبی کمپیوٹر میں فون کے علاوہ واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور بہت کچھ اکٹھا ہو گیا۔ رحمت آہستہ آہستہ زحمت بننے لگی۔

سب سے بڑی مصیبت یہ کہ کوئی صبح چھ بجے کال کر رہا ہے۔ کوئی رات کو ایک بجے کال کر رہا ہے۔ آپ نے مصروفیت کی وجہ سے کال اٹینڈ نہیں کی تو شکوے شکایتوں سے بھرا پیغام بار بار آئے گا۔ اچھے اچھے دوست ناراض ہونے لگے۔ ایک کو منائو تو دوسرا ناراض۔ دوسرے کو منائو تو تیسرا ناراض۔

کسی نے مشورہ دیا کہ دو فون رکھ لو۔ جو نمبر زیادہ لوگوں کے پاس ہے، اُسے زیادہ تر بند رکھو اور دوسرا نمبر صرف خاص لوگوں کو ہی دو۔ زندگی آسان ہو جائے گی۔ کوشش تو کی لیکن ہر وقت دو فون ساتھ لئے پھرنا بہت مشکل تھا لہٰذا ایک ہی فون پر گزارا کیا لیکن زندگی کو آسان بنانے کے لئے نمبر تبدیل کر لیا۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔

کسی دوست نے میرا نمبر فیس بک پر شیئر کیا اور میں ہر ایک منٹ میں تین تین کالیں وصول کرنے لگا۔ نجانے کون کون کالیں کرنے لگا اور کیا کیا کہانیاں سنانے لگا۔ اِس دوران کچھ جیمز بانڈ ٹائپ لوگوں نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں سے کی جانے والی گفتگو کی کانٹ چھانٹ کر کے ایک ٹیپ بنائی اور اس ناچیز پر ایک ناکردہ گناہ تھونپنے کی کوشش کی۔ یہ معاملہ کافی عرصہ عدالتوں میں چلتا رہا اور آخر کار میری بےگناہی ثابت ہو گئی۔

اس معاملے سے جان چھوٹی تو کچھ خواتین کے فون آنے لگے اور وہ فون پر بہکی بہکی باتیں کرنے لگیں۔ میں نے ایک مہربان کو ایسی تین خواتین کے فون نمبر دے کر کوائف معلوم کئے تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ تینوں کا تعلق ایک ہی شہر اور ایک ہی ادارے سے تھا اور تینوں کا ہدف بھی ایک ہی تھا۔

مجھے ایسا لگا کہ میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا فون دراصل دشمنوں کا ایک ہتھیار ہے لہٰذا میں نے اپنے فون کا کم سے کم استعمال شروع کر دیا۔ صرف اہم فون کالیں لینڈ لائن سے کرنے لگا اور آئی فون پر آنے والی بےتحاشا کالوں کو سننا ہی چھوڑ دیا۔ صرف وہی نمبر اٹینڈ کرنا شروع کر دیے جو معلوم ہیں۔ ’’نامعلوم‘‘ اور ناشناسا نمبروں سے پرہیز شروع کیا تو زندگی کافی آسان ہو گئی۔ مزید آسانی کے لئے گھنٹی کو بھی خاموش کر دیا۔

اِس لمبی تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ماضی کے انتہائی تلخ تجربات کے باعث میں نے فون کو بہت احتیاط سے استعمال کرنا سیکھا لیکن اِس کے باوجود کچھ فنکار قسم کے لوگ اخلاق و تہذیب کے تمام تقاضوں کو چیر پھاڑ کر آپ کی پرائیویسی میں کہیں نہ کہیں سے گھس جاتے ہیں۔

کافی دن سے ایک نوجوان صحافی بار بار واٹس ایپ پر مجھے پیغامات بھیج رہا تھا کہ اُس نے ایک یوٹیوب چینل شروع کیا ہے اور اُسے مجھ سے انٹرویو کے لئے ٹائم چاہئے۔ میں نے اُسے جواب میں کہا کہ میرے بہت سے جاننے والوں نے اپنے یو ٹیوب چینل شروع کر دیے ہیں اور وہ مجھ سے وقت مانگتے ہیں میں نے آپ کو وقت دیا تو دوسرے ناراض ہو جائیں گے، اس لئے میری طرف سے معذرت قبول کریں۔

اس نوجوان صحافی نے میری معذرت قبول کرنے کی بجائے اصرار بڑھا دیا۔ میں نے اُسے جواب دینا چھوڑ دیا تو اُس نے فتویٰ صادر کیا کہ آپ بڑے مغرور ہیں، اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں؟ میں خاموش رہا تو اگلے روز اُس نے معذرت کا پیغام بھیجا اور کہا کہ ٹھیک ہے آپ انٹرویو کا وقت نہ دیں، ایک چھوٹی سی ملاقات کا وقت دے دیں۔ میں نے اس نوجوان کو اگلی شام دفتر بلا لیا۔ آتے ہی اس نے پوچھا کہ میرے پاس کتنا وقت ہے؟ میں نے کہا آپ سمجھدار ہیں۔ شام کو ہمارا کام کا وقت ہوتا ہے، آپ نے جو بھی ضروری بات کرنی ہے وہ جلدی سے کر لیں۔

اس نوجوان نے سب سے پہلے تو یہ بتایا کہ وہ پچھلے چند ماہ سے بےروزگار ہے اور اپنی روزی روٹی کے لئے ایک یو ٹیوب چینل کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے اُسے معلوم ہوا کہ حکومت نے کچھ یو ٹیوب چینلز کو اشتہار دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اُس نے بھی متعلقہ لوگوں سے رابطہ کیا۔ پہلے تو پوچھا گیا کہ آپ کے فالوورز کتنے ہیں؟ پھر کہا گیا کہ آپ کے فالوورز اتنے زیادہ نہیں ہیں، آپ فالوورز بڑھائیں پھر ہمارے پاس آئیں۔

جب اس نوجوان کے فالوورز چار پانچ ہزار ہو گئے تو وہ دوبارہ متعلقہ لوگوں کے پاس گیا اور اشتہار مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اشتہار تو نہیں ہے لیکن ہم آپ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں، آپ کو بھی ہماری مدد کرنا ہو گی۔ نوجوان نے پوچھا میں آپ کی کیا مدد کروں؟ اُنہوں نے کہا کہ آپ کو اپنے یوٹیوب چینل سے کچھ سیاستدانوں کے خلاف پروگرام کرنے ہوں گے۔

اس نوجوان یوٹیوبر نے روزی کی خاطر یہ کام شروع کر دیا۔ پھر ایک دن اس نوجوان سے کہا گیا کہ اگر تم کچھ صحافیوں کے خلاف بھی پروگرام کر دو تو تمہیں بہت فائدہ ہو گا۔ نوجوان نے پوچھا کہ کون سے صحافی؟ اس نوجوان کے ہاتھ میں پانچ صحافیوں کی ایک فہرست تھمائی گئی اور ساتھ میں تحریری گائیڈ لائن بھی پکڑا دی گئی۔ نوجوان نے فہرست میں میرا نام دیکھا تو اپنے ’’مدد گار‘‘ سے کہا کہ حامد میر پر پرانے الزامات بار بار لگانے سے بہتر ہے کہ جن الزامات کی فہرست آپ نے مجھے دی ہے، میں اُن سے تمام الزامات کا جواب لے لیتا ہوں۔

’’مدد گار‘‘ کو یہ آئیڈیا پسند آیا، اُس نے شرط عائد کی کہ اس انٹرویو کی کانٹ چھانٹ وہ خود کریں گے۔ پھر جب نوجوان نے انٹرویو کے لئے وقت مانگنا شروع کیا تو میں نے اُس کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اب وہ میرے سامنے بیٹھا جھکی جھکی نظروں کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ پچھلے دنوں لاہور کے ایک صحافی نے آپ کے حق میں یو ٹیوب پر پروگرام کیا تو اُس پر بہت لائیکس آئے اور اُس کے فالوورز بھی بڑھ گئے لیکن مجھے تو روزی روٹی بھی کمانی ہے، مجھے کہا جا رہا ہے کہ حامد میر کے خلاف پروگرام کر دو تو بڑا فائدہ ہو گا۔

نوجوان نے کہا تین سال پہلے ایک مشکل میں آپ نے میری مدد کی تھی، میں آپ کا وہ احسان نہیں بھولا۔ آج مجھ پر ایک احسان اور کر دیں۔ میں نے کہا ہاں بتائو کیا کرنا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے اجازت دے دیں کہ میں آپ پر وہ تمام الزامات لگا دوں جن کی فہرست مجھے دی گئی ہے۔ میں حیرانی سے اُس کی طرف دیکھنے لگا تو کہنےلگا کہ ایک صابر انسان سے پوچھ کر اُس کے خلاف کلمہ ناحق کہنا ہے۔

میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ بھی ہنسنے لگا۔ میں نے اُسے اجازت دے دی۔ وہ مسکراتا ہوا واپس چلا گیا اور میں اُن صاحبانِ اختیار کو داد دینے لگا جنہوں نے نوجوانوں کی بے روز گاری دور کرنے کے کیسے انوکھے طریقے دریافت کئے ہیں؟( بشکریہ روزنامہ جنگ)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں