عالمی یوم خواتین، پشاور میں خاتون مظاہرین

ہاں ! ہم ہیں اسلامی فیمنسٹ اور ردعمل کی پیداوار!!!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عظمیٰ خان :

یوم خواتین یعنی آٹھ مارچ کا دن پاکستان میں گزشتہ تین چار سالوں سے ہاٹ ایشو ہوتا ہے ۔ مارچ کے مہینے میں مٹھی بھر خواتین نے اسلام آباد ، کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر شغل میلہ لگانا شروع کیا۔ یہ شغل میلہ اس سے پہلے لگتا تھا لیکن میڈیا چونکہ ” آزاد “ نہیں تھا تو یہ شغل میلہ ایک دو سطری خبر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔

خیر ! جب میڈیا کی نظر کرم اس مٹھی بھر ٹولے پر پڑی تو عوام بھی متوجہ ہوئی۔ ان کے نعرے اس قدر فضول اور پاکستانی عورت کے مسائل سے دور تھے کہ عام پاکستانی عورت نے انھیں ذرہ برابر پذیرائی نہیں دی لیکن ہاں ! میڈیا پر موضوع گفتگو بنتے بنتے یہ سوشل میڈیا پر بھی موضوع بن گئیں۔

گزشتہ برس ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کی بدولت ، انھیں کچھ زیادہ ہی توجہ مل گئی۔ ان کے بکواس قسم کے سلوگن جو تفریح یا پھر تضحیک کی نیت سے ہی سہی ہر وال کی زینت بنے۔ اور وہ موضوع اور دن جس پر کبھی گھروں میں بات نہیں ہوتی تھی ، ہر جگہ موضوع گفتگو بنے۔

یہ سوچنا کہ ایک تحریک چلے اور آپ کے گھر سے دور رہے بالخصوص اس دور میں جبکہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ایک بے وقوفانہ سوچ ہے۔ اور یہ سوچنا کہ اسلام کے نام پر بنے ملک میں عورت کو تمام ” اسلامی حقوق “ حاصل ہیں یہ بھی احمقانہ سوچ ہے۔ اس لئے حقیقی مسائل پر بات کرنے اور پاکستانی عورت کی حقیقی نمائندگی کرنے کا بیڑہ اٹھایا چند اسلامی تنظیموں نے ، جن میں جماعت اسلامی خواتین پیش پیش تھیں۔

ان کی سوچ سے متاثرہ خواتین نے حقیقی مسائل پر قلم اٹھایا ، سوشل میڈیا پر بھی لکھا ۔ ان کا سرفہرست مطالبہ تھا کہ یہ بے جا صنفی امتیاز ختم کیا جائے، خواتین کو انسان سمجھا جائے، ان کے بنیادی انسانی حقوق اور شرعی حقوق فراہم کئے جائیں لیکن ہوا یہ کہ وہ طبقہ جو ان مطالبات کی زد میں آرہا تھا اسں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ، ” اسلامی فیمنسٹ “ کی۔

بعض لوگوں نے انہیں opportunist گردانا اور بعض نے فیمنسٹ کی سب سے ” خطرناک “ قسم۔ اس طبقہ کو لگتا ہے کہ جن خواتین پر یہ اسلامی فیمنسٹ کا لیبل چسپاں کر رہے ہیں وہ ” کچھ نہیں جانتیں “ ، وہ ردعمل کے نتیجہ میں سامنے آئی ہیں اور اس خاص دن خواتین کے حقوق کی بات کر کے الحاد کے ہاتھ مضبوط کررہی ہیں۔

اپنے اس دعویٰ کے حق میں ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل تو نہیں سوائے اس کے کہ فیمنسٹ تحریک نے مغرب سے جنم لیا تو لازمی انجام بھی مغربی ہی ہوگا۔ اس لئے یہ ہر پلیٹ فارم پر لبرل اور ریڈیکل فیمنسٹ کا مذاق اڑائیں یا نہ اڑائیں اسلامی فیمنسٹ کا ذکر خاص تمسخر سے کرتے ہیں۔ حیرت اور دکھ تو یہ کہ خود کو سب سے بڑا مذہبی رکھوالا گردانتے ہیں۔

ان تمام افراد سے عرض ہے کہ اگر آپ خواتین کے ” شرعی حقوق “ کا مطالبہ کرنے والی خواتین کو اسلامی فیمنسٹ کہتے ہیں تو ہاں ! ہم ہیں اسلامی فیمنسٹ۔
آپ ہمیں ردعمل کی پیداوار کہتے ہیں تو ہاں! ہم ہیں ردعمل کی پیداوار ،
لیکن وہ رد عمل جو آپ کے خاندانی نظام پر لگتی ضرب کے نتیجے میں ” استحکام خاندان “ کی صورت میں عمل پذیر ہوا ہے۔

آپ کی انا پر ضرب پڑتی ہے جب یہ اسلامی فیمنسٹ اپنے پردے کے مقابل آپ کو ” غص بصر“ کی آیت یاد دلاتی ہے۔ آپ کے مفادات کو دھچکا پہنچتا ہے جب وہ آپ سے وراثت میں شرعی حق کا مطالبہ کرتی ہے، جب نان نفقہ کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ جب انسان سمجھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے لئے صحت کی بنیادی سہولت اور اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے فیصلوں کا حق چاہتی ہے۔

آج بھی پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے ڈھائی سو عورتیں دوران زچگی خون کی کمی، کمزوری اور مناسب وقفہ نہ ہونے کے باعث مر جاتی ہیں۔ fistula جیسی بیماری سے تو شائد ہی چند افراد واقف ہوں لیکن آج بھی ہر سال 3500 کیسز fiatula کے پاکستان میں رپورٹ ہوتے ہیں جو کیس رپورٹ نہیں ہوتے ، ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

آج بھی عورت وراثت میں شرعی حق کا مطالبہ کرنے پر ڈرائی دھمکائی جاتی ہے ، سوشل بائیکاٹ کا شکار ہوتی ہے۔ نان نفقہ کا کالم تو خیر سے نکاح کے وقت کاٹ دیا جاتا ہے۔ آج بھی تعلیم کے دروازے اکثر خواتین پر بند ہیں۔ ضرورت پڑنے پر صدقہ کھانے کی اجازت ہے لیکن کام کرنے کی اجازت نہیں۔ پسند کی شادی آج بھی ایک taboo ہے۔

اس لئے یہ تمام مطالبات جائز ہیں جو اللہ نے دیئے لیکن بندے انھیں غصب کئے بیٹھے ہیں۔ یہ مطالبات نہ ہی تو کسی عورت کو باغی کرنے کے لئے ہیں نہ ہی مرد سے کسی مقابلے کی چاہ ہے۔ بس ! ایک خواہش ہے عورت کو انسان سمجھیے اپنے جیسا اشرف المخلوقات سمجھیے۔

ہم نے اس سال بھی آج کے دن بات کی اور اگلے سالوں میں بھی کرتے رہیں گے۔ اس دن کا آغاز بے شک مغرب سے ہوا ہو لیکن پاکستان میں اس دن کو کیسا منانا ہے اور اس میں کیا مطالبات پیش کرنے ہیں ، یہ ہم ہی طے کریں گی۔

نہ ہی پاکستانی عورت کی حقیقی نمائندگی کا خلا پیدا ہونے دیں گی نہ ہی اپنے شرعی مطالبات سے پیچھے ہٹیں گی چاہے آپ اسلامی فیمنسٹ کہہ کر جتنا مرضی مذاق اڑائیں۔

ایک مضبوط عورت بننے کا مطالبہ اور چاہ معاشرہ یا خاندان سے بغاوت نہیں بلکہ مستحکم خاندان اور معاشرہ کی بنیاد ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں