مہناز ناظم :
مارچ کا مہینہ ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب مسلمانان ہند نے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں وہ اسلام کا نظام قائم کریں اور اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936 /1937 کے انتخابات میں کانگریس کو ملک بھر میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تو کانگریس نے اقتدار کے نشے میں کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت مسلمانوں میں خدشات اور شکوک و شبہات نے جنم لیا مثلاً کانگریس نے ہندی کوقومی زبان قرار دیا گاؤ کشی پر پابندی عائد کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم قرار دے دیا.
اس سے پہلے بھی کانگریس کے ہندو رہنماؤں کے بہت سے فیصلے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ کانگریسی اقتدار صرف ہندو اکثریت کے لیے سود مند ہے اور یہ کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ان کے نظریات اور اقدار اور روایات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں جس کی بنا پر یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتیں۔ اس حقیقت کا اظہار مختلف مسلم عمائدین کر چکے تھے۔
1930 میں خطبہ الہ آباد میں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں اور یہ کہ
” میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے ۔ یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومتی خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی“۔
چنانچہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کےاجلاس سےخطاب کرتے ہوئے قائداعظم نےیہ کہا کہ
ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علاحدہ مملکتیں ہوں۔
اجلاس کے دوسرے دن یعنی 23 مارچ کو بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نا تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو ۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔
اس قرارداد کی تائید مختلف صوبوں سے آنے والے مسلمان رہنماؤں نے کی جن میں یو پی کے مسلم لیگی رہنما خلیق الزمان، پنجاب کےمولانا ظفر علی خان، سندھ کے حاجی عبداللہ ہارون، بلوچستان کےقاضی عیسیٰ ، خیبر پختونخوا کے سردار اورنگزیب ، عبدالحامد بدایونی ، اور بیگم مولانا محمد علی جوہر شامل تھے۔
یہ قرارداد تحریک پاکستان کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی ۔ اس قرارداد نے مسلمانان ہند کیلئے جدوجہد کی راہ متعین کر دی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں سخت جدوجہد کی آخر کار سات سال کے عرصے میں برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کی صورت میں ایک الگ مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔
پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر رکھی گئی یعنی ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور کبھی مل کر نہیں رہ سکتے ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا. دیکھا جائے تو یہ اس وقت کے لحاظ سے بہترین فیصلہ تھا متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی موجودگی میں مسلمانوں کی ترقی کے امکانات نا ہونے کے برابر تھے بلکہ مسلمانوں کی بقا کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا وجود ناگزیر تھا۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو بھی ظاہر ہوتا ہے کی ہماری بزرگوں نے کس قدر دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ۔پاکستان نہ ہوتا تو آج مسلمان ہندوؤں کے غلام ہوتے اور جو حالات ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش ہیں ان کا سامنا کر رہے ہوتے۔
بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور آزادی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں آج بھارت نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے ۔ بھارت نےدوسرے علاقوں میں بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ آئے دن انہیں کسی نہ کسی طریقے سے ستایا جاتا ہے۔
کہنے کو بھارت ایک سیکولر ریاست ہے مگر وہاں ہندو اکثریت اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے پر تیار نہیں ۔ بھارت پر ہندو انتہا پسندوں کی حکومت ہے جو ہندو راج کے علم بردار ہیں ۔ اسی بنا پر بھارت کے ہمسایہ ممالک بھی جن میں سری لنکا ،نیپال، بنگلادیش ،چین اور پاکستان شامل ہیں تقریبا سب ہی بھارت کے جارحانہ رویوں کا شکار ہیں۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک بھارت پاکستان کے خلاف مختلف سازشوں میں ملوث رہا ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہے۔ 1971میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا ۔ مسئلہ کشمیر بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج تک حل نہ ہو سکا ۔ سچ یہ ہے کہ بھارت نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا اور مسلسل پاکستان کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہے۔
23 مارچ کا دن ہم سے مطالبہ کرتا ہے کی اگر ہم پاکستان کومستحکم اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوگی اور ان مقاصد کو پورا کرنا ہوگا جن کی خاطر ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جان مال اور عزت کی قربانی دی تاکہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکیں .