کورونا وائرس کی مریضہ بستر پر

کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کورونا کی سابقہ مریضہ محترمہ عظمیٰ خان بتاتی ہیں کہ کورونا میں مبتلا ہو کر انھوں نے اپنے اور دوسرے مریضوں کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی ؟

سوچا تھا اس موضوع پر نہیں لکھوں گی لیکن روزانہ کی بنیاد پر ملنے والی اموات کی خبروں نے اس موضوع پر لکھنے کو مجبور کردیا۔ چند مہینے پہلے میں ، گھر اور خاندان کے چند افراد اس مرض کاشکار ہوئے۔ اس سلسلے میں ہمیں کچھ ایسے تجربات ہوئے خاص طور پر علاج کے حوالے سے جنھیں جب اپنے سرکل میں ڈسکس کیا تو اندازہ ہوا اس حوالے سے لوگوں کو معلومات نہیں ہیں۔ ہسپتال میں گزارا ہوا وقت بھی کافی چیزوں کے مشاہدہ کا باعث بنا اس لئے سوچا کہ شئیر کر لیا جائے۔

اس تحریر کا آخری حصہ اہل کراچی کے لئے مفید ہوگا۔ کراچی کے باہر یہ سہولیات دستیاب ہیں یا نہیں اس کے متعلق مجھے علم نہیں ہے۔

کورونا کی علامات
اس کی عام علامات تو سب کو پتہ ہیں کہ نزلہ، کھانسی ، بخار، جسم میں درد ۔ جس کی بناء پر اکثر لوگ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کورونا کچھ نہیں، بس ایک طرح کا فلو ہے اور فلو تو پہلے بھی ہوتا تھا، فضول کا ہوا بنایا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ یہ سب کورونا کی عمومی علامات ہیں لیکن یہی علامات سب کو ہوں یا صرف یہی علامات ہوں یہ لازمی نہیں۔

مجھے سوائے جسم درد کے کوئی دوسری علامات نہیں تھی۔ امی کو بھی یہ علامات نہیں تھیں بلکہ انھیں frequent urination ، sleep diaorder اور گلے میں لگتا تھا کچھ اٹکا ہوا ہے۔ سانس پھولتی تھی اور کمزوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شروع میں ہمیں محض کمزوری ہی لگتی تھی۔

ہم لوگوں نے امی کو ڈاکٹر کا وزٹ frequent urination یعنی باربار پیشاب کا خارج ہونا کی وجہ سے کروایا تھا لیکن جب دوا سے ، اینٹی بایوٹک سے مسئلہ حل نہیں ہوا تو ڈاکٹر نے فوری طور پر کورونا ٹیسٹ کروایا۔ اسی طرح کی علامات کے ساتھ ایک اور مریضہ بھی ہسپتال میں تھیں جنہیں frequent urination کا مسئلہ تھا ۔

سو کوئی بھی ایسی میڈیکل کنڈیشن جو کہ آپ کے لئے غیر معمولی ہو اور علاج کی صورت میں تین دن سے زائد دوا کھانے کے باوجود صورتحال بہتر ہونے کے بجائے ویسی ہی رہے یا بگڑ جائے تو بہتر ہے کورونا ٹیسٹ کروا لیا جائے۔ ٹیسٹ نیگٹو آئے یہ زیادہ اچھی بات ہے بجائے اس کے کہ مرض کی تشخیص میں دیر ہوجائے۔ زیادہ تر اموات بروقت ٹریٹمنٹ شروع نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

کورونا کی تشخیص
اس مرض کی تشخیص کے لئے جو nasal swab test ہے اس کا سب کو معلوم ہے لیکن اگر وائرس کو جسم میں داخل ہوئے پورے چودہ دن نہیں ہوئے تو ہوسکتا ہے آپ کا ٹیسٹ نیگٹو آئے لیکن اگر کوئی بھی ایسی علامت جیسے کہ کھانسی، سانس پھولنا، گلے میں کچھ پھنسنا جیسی علامات ہیں تو چیسٹ ایکسرے کروا لیں۔ اور اس کی بنیاد پر آپ کا nasal swab test دوبارہ کیا جائے گا۔

ٹیسٹ کراچی میں بہت سی لیبارٹریز کررہی ہیں لیکن سستے سے سستا ٹیسٹ بھی ساڑھے تین ہزار کا ہے۔ اس لئے اگر آپ کے مریض کی حالت زیادہ خراب نہیں تو اپنے علاقے کے سندھ گورنمنٹ ہسپتال یا پھر ٹائون ہیلتھ آفس میں جا کر مفت ٹیسٹ کروا لیجیے۔ اگر خواری برداشت کر سکتے ہیں تو ڈاو اوجھا کیمپس سے بھی مفت ٹیسٹ ہوتا ہے لیکن لائن بہت لمبی ہوتی ہے۔ رزلٹ چوبیس گھنٹوں میں آجاتا ہے۔

ٹائون آفس اور سندھ گورنمنٹ ہسپتال کے ٹیسٹ کے نتائج آنے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ آپ کو موبائل پر میسج مل جاتا ہے۔ ساتھ ہی سندھ گورنمنٹ کا ایک میسج کہ اگر آپ کو کسی میڈیکل اسسٹنس کی ضرورت ہے تو دیئے گئے نمبر پر رابطہ کیجیئے۔

چیسٹ ایکسرے الخدمت سے تین ساڑھے تین روپے کا ہوتا ہے اور کسی پرائیوٹ لیب سے بھی ہزار کے اندر اندر ہوجائے گا۔
چیسٹ ایکسرے آپ کے مرض کی پروگریس جانچنے کے لئے بھی ضروری ہے۔

کورونا کے سبب ہاسپٹلائزیشن
لوگوں کی اکثریت اس مرض میں ہسپتال جانے سے گبھراتی ہے۔ اس میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ آکسیجن سپورٹ مرض کا علاج نہیں ہے بلکہ مرض کا علاج ادویات ہیں اور اگر مریض پہلے سے ہی ذیابیطس، دل کے امراض یا کسی اور chronic بیماری کا شکار ہے تو اسے ادویات کے ساتھ ساتھ کلوز میڈیکل مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ہسپتال جائے بغیر کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔

اس بیماری میں steroids دیئے جاتے ہیں جو آپ کے بلڈ پریشر، شوگر سب کو بڑھا سکتے ہیں اور خطرناک حد تک بڑھا سکتے ہیں ، اس لیے اگر آکسیجن لیول کسی پچپن سے ساٹھ سال والے مریض کا نوے سے نیچے ہے تو اسے ہسپتال لے جائیں اور نوجوان کا اسی سے نیچے جانے سے پہلے ہسپتال لے جائیں۔ یہ آپ کے مریض کے حق میں بہتر ہے۔

کورونا میں زیادہ تر اموات دیر سے علاج ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں جب پھپیڑے اس حد تک متاثر ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کی ریکوری ممکن نہیں رہتی۔ اس صورت میں زندہ رہنے کا دورانیہ بڑھانے کے لئے وینٹی لیٹر تجویز کیا جاتا ہے۔

اب مسئلہ یہ کہ ہسپتال جائیں تو لاکھوں کا بل منتظر ہوتا ہے جو ہسپتال جانے سے روک دیتا ہے۔ اس کے لیےایک حل تو یہ کہ آپ سندھ گورنمنٹ کے دیئے گئے نمبر پر رابطہ کریں وہ ہسپتال خود ارینج کر کے دیں گے۔

دوسرا حل یہ ہے کہ آپ امن ایمبولنس کی سروس کو فون کریں ، مریض کی حالت بتائیں، ہسپتال کا بتائیں وہ آپ کے قریبی ترین سرکاری ہسپتال میں جگہ کا معلوم کر کے لے جائیں گے۔

کراچی میں سول ہسپتال ، بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر جو سول ہسپتال سے ملحق ہے، جناح ہسپتال، ایکسپو سینٹر،نیپا ڈاو اور سندھ گورنمنٹ کے تمام ہسپتالوں میں کورونا وارڈ آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی سہولت کے ساتھ موجود ہے۔ صدر میں واقع سندھ گورنمنٹ ہسپتال اور جناح ہسپتال میں میری ایک دوست کا تجربہ ، نیوکراچی کا سندھ گورنمنٹ ہسپتال، سول ہسپتال کا تجربہ میرا خود کا ہے اور بہت اچھا رہا ہے۔ اسی طرح نیپا ڈاو میں ایک قریبی رشتہ دار کا علاج ہوتا رہا ان کا تجربہ بھی بہترین رہا ہے۔ ایکسپو سینٹر میں بھی کئی جاننے والے زیر علاج رہے اور مطمئن رہے۔

ان تمام ہسپتالوں کی اچھی بات یہ ہے کہ ٹیسٹ، ادویات،علاج سب فری ہے۔ بس ! سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین کی مٹھی گرم کرنے میں پیسہ خرچ ہوتا ہے جو ہر سرکاری ادارے میں ہی ہوتا ہے اور یہ خرچہ لاکھوں کے خرچ سے بہت کم ہے۔

امن ایمبولینس
پورے سندھ میں ایک ہی لائف سیونگ ایمبولنس سروس ہے جو کہ امن ایمبولینس سروس ہے اور اب سندھ حکومت کے ماتحت فری ہے۔ ایمبولنس زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں آپ کے گھر پر ہوتی ہے۔ اس میں پروفیشنل ٹرینڈ ہیلتھ کئیر ورکر ہوتے ہیں جو مریض کو پروفیشنلی انداز میں منتقل کرتے ہیں ، ایمبولنس میں، بی پی مانیٹرنگ اور آکسیجن مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر کا انتظام ہوتا ہے اگر ضرورت ہوتو آکسیجن بھی مہیا کرتے ہیں۔

اسی طرح ہسپتال لے جاکر ایڈمیشن تک کے معاملات میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ جیسے ایمرجنسی میں آکسیجن سپلائی سے کنیکٹ کرنا۔ چیسٹ ایکسرے اور اے بی جیز کے ٹیسٹ کروانا کیونکہ سرکاری ہسپتال میں ایڈمیشن سے پہلے یہ ٹیسٹ ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر مریض کو کورونا وارڈ میں منتقل کرنا ہے یا آئی سی یو میں یہ طے ہوتا ہے۔

آپ کا مریض ہسپتال میں داخل ہوگیا تو آپ فون پر اس سے رابطہ میں رہیے اور روز، ہوسکے تو دن میں دو بار ڈیوٹی ڈاکٹر سے مریض کی کنڈیشن پوچھتے رہیے۔ چیسٹ ایکسرے کا کمپریزن، abgs کی ویلیوز اور آکسیجن سیچوریشن، آکسیجن سپورٹ کتنی دی گئی ہے یہ سب معلومات لیتے رہیے۔

آئسولیشن
ہمارے ہاں آئسولیشن کو ایک سزا تصور کیا جاتا ہے جو کہ قید تنہائی جیسی ہے۔ جب کہ حقیقتاً یہ آئسولیشن ایک نعمت ہے مریض کے لئے بھی اور مریض کے لواحقین کے لئے بھی۔ اگر مریض آئسولیشن میں نہیں تو اس کے بار بار وائرس سے ایکسپوز ہونے اور انفیکشن بڑھنے کے چانسز میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح دیگر لوگوں کے بھی انفیکٹ ہونے کے چانسز پیدا ہوتے ہیں۔

اب آئسولیشن قید تنہائی ہرگز نہیں ہے۔ آپ مریض سے چھ فٹ کے فاصلے پر رہ کر اس سے باتیں کر سکتے ہیں، اس کے پاس بیٹھ کر اخبار، کتاب پڑھ لیں، گپ شپ کرلیں کوئی حرج نہیں ۔ بس آپ نے اور مریض دونوں نے ماسک کا استعمال کرنا ہے۔ کھانا کھلانا ہے، صفائی کرنی ہے، دوا دینی ہے یا کوئی بھی کام مریض کا کرنا ہے تو ماسک اور گلووز کا استعمال کریں۔ گلووز استعمال کرکے موزوں انداز میں اسے تلف کریں۔ اگر بہت قریب ہیں مریض کے تو بہتر ہے نہا کر کپڑے بھی تبدیل کرلیں۔ اس طرح آپ مریض کی دیکھ بھال بھی کر سکیں گے اور خود کو اور دوسروں کو محفوظ بھی رکھ سکیں گے۔

میرے گھر میں مجھ سمیت تمام لوگوں نے امی کی دیکھ بھال اسی طرح کی تھی۔ امی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا، دوا دینا، بال بنانا، کپڑے تبدیل کروانا سب شامل تھا اور کورونا کا شکار صرف میں ہوئی وہ بھی اندازہ یہ ہے کہ میں پہلے ہی انفیکٹ ہوچکی تھی لیکن میری علامات نہیں تھیں تو پتا نہیں چل سکا۔ باقی بھائی ، بہن اور بھابھی اس سے محفوظ رہے۔

اگر مریض ہسپتال میں آئسولیشن میں ہے اور ہوش میں ہے فون کا استعمال کرسکتا ہے تو آپ انہیں ایک فون دے دیں اور فون پر مریض سے رابطہ میں رہیں، ویڈیو کال پر بھی رابطہ میں رہ سکتے ہیں۔

آئسولیشن کا دورانیہ پہلی علامت آنے کے بعد بیس دن تک ہے۔ بیس دن بعد آپ آئسولیشن ختم کرسکتے ہیں۔ کھانسی، کمزوری، سر درد، چکر یہ سب علامات بیس دن کے بعد بھی برقرار رہ سکتی ہیں لیکن آپ خطرے کی زد سے باہر آچکے ہوتے ہیں۔

WHO کی گائیڈ لائنز کے مطابق دوبارہ ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں۔ چیسٹ ایکسرے ٹھیک آنے میں تین مہینہ تک کا وقت بھی لگ سکتا ہے اس کا انحصار آپ کے پھپیڑوں کی حالت پر ہے کہ ان میں کتنے lesions بنے تھے۔

کورونا کی ادویات
سیلف میڈیکیشن سے پرہیز کریں۔ ڈاکٹر کو دکھائیں اور اس کے مطابق ہی دوا لیں۔ اسٹیم بہت کارآمد ہے اسٹیم کا استعمال کریں۔ اگر مریض کو دمہ کا مسئلہ نہیں تو nebulize ہرگز نہ کریں۔ nebulizing وائرس کو spread کرتا ہے اور مریض زیادہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
غذا: ہائی پروٹین ڈائیٹ

پوسٹ کورونا احتیاط
آپ کا آئسولیشن پیریڈ ختم ہوگیا۔ بڑی علامات ختم ہوگئیں لیکن سر درد، کمزوری، سینے پر دبائو، چکر، تھکاوٹ یہ سب کافی دنوں تک اور کچھ شدید کیسز میں مہینوں تک ساتھ رہ سکتا ہے۔ اس کے پہلی احتیاط تو یہ کہ شدید تھکاوٹ والے کام نہیں کرنے۔ سانس پھولنے لگےتو فورا لیٹ جائیں، کروٹ کے بل لیٹیں، غذا اچھی رکھیں۔ یخنی، سبزیاں، پھل، جو کا دلیہ، میٹھے کا کم استعمال، پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ، گوشت، مچھلی، انڈہ یہ سب طویل عرصہ تک آپ کی غذا کا حصہ رہیں گے۔ جنک فوڈ سے پرہیز کرنا ہوگا۔

امید ہے اس مضمون سے کچھ لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچے گا خاص طور پر اہل کراچی کو کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت خاص طور پر کورنا وارڈز کی بہت بہتر ہے۔ ان پر ان کی اوقات سے زیادہ بوجھ ہے لیکن نجی ہسپتالوں کے مقابلے میں بہت سی آسانی اور بہتر علاج میسر ہے۔

یاد رکھیں اس بیماری میں سب اہم چیز ” وقت “ ہے۔ آپ نے ” وقت “ پر فیصلہ کرنا ہے۔ ڈاکٹر سے اور ہسپتال سے نہ گبھرائیں۔ اگر ایک ڈاکٹر سے مطمئن نہیں تو آپ دوسرے، تیسرے ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور بروقت علاج شروع کریں۔ کورونا سے لڑ کر بچنے والوں کی شرح مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ نے بیماری سے نظریں نہیں چرانی ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں