کورونا وبا خوف اور پابندیوں کی شکار خاتون کارٹون

کورونا وبا :غیر مسلم کیوں زیادہ مر رہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ظفر سلطان :

کورونا وائرس جس قدر مہلک ہے اس سے کہیں زیادہ اس کا خوف پھیلایا گیا ہے۔ طبی ماہرین کی متفقہ رائے کے مطابق کورونا وائرس قوت مدافعت کو کمزور کر دیتا ہے اور جب کسی شخص کی قوت مدافعت کا لیول بہت حد تک گر جاتا ہے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

طبی ماہرین کورونا کے مریض کو تسلی دے کر اس کی ہمت بندہاتے ہیں تاکہ اس کی قوت مدافعت کمزور نہ ہو، لیکن اس کے باوجود بلاشبہ لاکھوں لوگ کورونا کا شکار ہو کر موت کی ابدی نیند سو چکے ہیں جن میں اکثریت غیر مسلم ممالک کے شہریوں کی ہے۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ وسائل اور ٹیکنالوجی میں آگے ہونے کے باوجود کورونا کا شکار کیوں ہو رہے ہیں اور اب جبکہ کورونا کی ویکسین تیار کر لی گئی ہے تو ہلاکتوں کا سلسلہ جاری کیوں ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن ممالک کے پاس وسائل کی بہتات ہے یا جن کا شعبہ صحت مضبوط ہے وہاں پر کورونا کے کیسز کی شرح میں کمی ہوتی مگر صورتحال اس کے برعکس ہے، تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ موت کا خوف ہی اصل بیماری ہے جو لوگوں کو قبر کے پاتال میں اتار رہا ہے۔

یہ خوف مسلمانوں کی نسبت غیر مسلموں میں کسی قدر زیادہ پایا جاتا ہے، چونکہ غیر مسلموں نے دنیا کو ہی اصل زندگی سمجھ لیا ہے، وہ مرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے اس لیے وہ اس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا دارالامتحان ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اس لیے وہ موت کیلیے ہر لحظہ تیار رہتے ہیں کہ جب موت آئے گی تو کلمہ پڑھتے ہوئے چلے جائیں گے جس کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت زیادہ کمزور نہیں ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی غیر مسلم ممالک کی نسبت کم ہے۔

طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ناک یا گلے کے ذریعے انسان کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگر انفیکشن لیول کم ہو تو بچنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں جبکہ انفیکشن لیول زیادہ ہونے کی صورت میں ریکوری کے امکانات محدود ہوتے ہیں۔

دوسری طرف کورونا کی جو ویکسین تیار ہوئی ہے وہ انفیکشن کو ختم کرنے کیلیے کام نہیں کرتی ہے بلکہ قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے کہ اگر کورونا وائرس کسی شخص کو متاثر کرتا ہے تو اس کے خلاف لڑنے کی قوت موجود ہو اس کا مطب یہ ہوا کہ تاحال کورونا کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔

کورونا وائرس کا شافی علاج دریافت کرنے کی بجائے اکثر معالجین اور حکومتیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیتی ہیں، لاک ڈائون سمیت سخت پابندیاں حتی کہ ماسک کا استعمال نہ کرنے پر جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا یے لیکن کیا ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں کورونا سے متاثر نہیں ہو رہے ہیں؟

جب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو اس کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ لوگ کس طرح کی احتیاط اختیار کریں، لاک ڈائون، گھروں سے باہر کم نکلنا اور ماسک کا استعمال ہی اگر احتیاطی تدابیر ہیں تو جن لوگوں نے ان تدابیر پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کیا تو پھر وہ کورونا سے متاثر کیوں ہوئے؟

اکثر ممالک میں ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہا گیا ہے کہ ماسک کو اپنے لباس کا لازمی حصہ بنا لیں، لیکن دوسری طرف طبی ماہرین کا خیال ہے کہ آدھے گھنٹے کے استعمال کے بعد انسان کے اپنے سانس کی وجہ سے ماسک ایکسپائر و آلودہ ہوجاتا ہے اور اگر ایکسپائر ماسک کو استعمال کیا گیا تو اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا کیونکہ آلودہ ماسک کی وجہ آلودہ آکسیجن اندر جائے گی، حالانکہ انسان کو تازہ آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آپ کھلی فضا میں ہوں تو ماسک کا استعمال نہ کریں کیونکہ یہ تازہ آکسیجن کی راہ میں رکاوٹ ہے، اسی طرح ماسک کا مسلسل استعمال سانس لینے میں دشواری کا سبب بھی ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس لوگوں سے ملنے سے نہیں پھیلتا بلکہ یہ فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور یہ ہر شخص کو متاثر بھی نہیں کرتا ہے بلکہ پولن الرجی یا کسی بھی موسمی بیماری کی طرح ایک مہلک بیماری ہے جب پولن الرجی کا موسم آتا ہے تو بیک وقت کئی لوگ اس میں صحت وعافیت کے ساتھ گزر بسر کر رہے رہے ہوتے ہیں جبکہ کئی لوگوں کیلیے یہ سیزن کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے،

سو کورونا وائرس کے بارے بھی ایسی ہی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے، یہ پوائنٹ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح موسمی بیماری یا پولن الرجی کے پیش نظر صرف متاثرہ افراد کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے کہا جاتا ہے سبھی لوگوں کو مجبور نہیں کیا جاتا اسی طرح کورونا کے معاملے میں بھی صرف متاثر افراد کو احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے،

کئی ممالک میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے اور طبی ماہرین کا خیال ہے کہ تین سال کے بعد کورونا وائرس محض موسمی بیماری بن کر رہ جائے گی، اس وقت کورونا وائرس کے حوالے سے مجموعی طور پرجو خوف کی فضا قائم کر دی گئی ہے اگر مسلمانوں نے بھی اس خوف کو اپنے ذہنوں پر سوار کر لیا تو ہمارے ہاں بھی قوت مدافعت کم ہونے کے باعث شرح اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ موت کا خوف ہی اصل بیماری ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں