مصطفیٰ صادق ، بانی روزنامہ وفاق ، سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی، خود ان کی زبانی( 1 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی داستان حیات

ایک صحافی خاندان، ایں خانہ تمام آفتاب است کے عنوان سے ہم ’ بادبان ڈاٹ کام ‘ میں جناب مصطفیٰ صادق، قربان انجم اور انور جاوید ڈوگر کے متعلق یادداشتیں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ اس خاندان کے سرخیل مصطفیٰ صادق ایک نامور اور منفرد صحافی ہی نہیں ، اپنے دور میں سیاست دان اور دانشور کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات دیتے رہے ہیں۔

آنے والی سطور میں ان کا ایک انٹرویو پیش خدمت ہے جسے یادگار انٹرویو قرار دینا کسی بھی طور بے جا نہ ہوگا۔ اس میں پاکستان کے ممتاز صحافی نے جو لرزہ خیز انکشافات کئے ہیں ان میں ان کا اپنا کردار بالخصوص مختلف بلکہ متضاد خیالات کی حامل شخصیات کو ہم آہنگ کرنے کی عظیم خدمات لائق مطالعہ ہیں۔

جناب مصطفیٰ صادق ایک راسخ العقیدہ مسلمان، بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح، بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کے پیرو اور مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے خوشہ چیں تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت کریں اور ہمارے صحافی بھائیوں کو سچے، کھرے نظریاتی طرزعمل اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (ادارہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

س:خاندانی پس منظر، والدین، تعلیم و تربیت، اساتذہ، بہن بھائی، دوست مختصر مختصر یادیں؟

ج: میں انتہائی بے تکلفی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں خالصتاً ایک ایسے دیہاتی ماحول میں پرورش پاتا رہا ہوں جہاں میرے اسلاف کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ چنانچہ میں خود بھی جونہی آٹھ دس سال کی عمر کوپہنچا کاشت کاری سے متعلق کاموں میں حصہ لیتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں جب ہل چلانے کے قابل ہوا تو میں نے ہل بھی چلایا، فصل کاشت کرنے، تلائی کرنے اورفصل بالخصوص گندم کی کٹائی میں بھی حصہ لیا۔

زندگی کی اہم ترین داستان ہماری زندگی کے وہ انتہائی ہولناک لمحات ہیں جب ہم اور ہمارے یہ بزرگ 1947ء کے فسادات میں پہلو بہ پہلو مسلح حملہ آوروں کا مقابلہ کررہے تھے۔

بچپن کی یادوں سے 1947ء کے دل خراش واقعات کا تذکرہ اتفاق سے نوک زبان پر آگیا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ ذکر ایک ایسے بزرگ کا چھڑ گیا تھا جن کے ساتھ چودہ پندرہ سال کی عمر میں فصل کی کٹائی کررہا تھا اور جیسا کہ عرض کیا 1947ء کے فسادات میں انہی بزرگوں کی معیت میں حملہ آوروں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بتوفیق ایزدی دو حملہ آوروں کی گردن کاٹنے کااعزازحاصل کررہا تھا۔

اس مرحلے پریہ بھی عرض کردوں کہ قیام پاکستان کے مراحل سے گزرتے ہوئے مجھے جن حوادث سے دو چار ہونا پڑا اور قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلم لیگ کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے جو خدمات سرانجام دینے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی۔ ان واقعات کی تفصیلات چند سال پہلے میں اپنے مضامین میں تحریر کر چکا ہوں۔ جن کے مطالعے کے بعد ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ان مضامین کی نقل نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کے دفتر میں بھجوادیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحریریں آپ کے لئے تحریک پاکستان گولڈ میڈلسٹ کا اعزاز حاصل کرنے کاذریعہ بن جائیں۔

چنانچہ 2003ء میں …… میں اسے اپنی خوش قسمتی قرار دوں گا……مجھے یہ پیغام موصول ہوا کہ آپ کے لئے متعلقہ گولڈ میڈل منظور کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ 2003ء میں ایک انتہائی باوقار تقریب میں گورنر پنجاب جناب خالد مقبول نے ان الفاظ کے ساتھ مجھے ایک تاریخی سند سے نوازا اور اپنے ہاتھوں سے گولڈ میڈل بھی پہنایا کہ

” تحریک پاکستان کے سلسلے میں قوم کی طرف سے یہ آپ کی خدمات کا اعتراف ہے “۔

اب مجھے اپنے بچپن کی طرف واپسی کے سفر کی اجازت دیجئے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کرچکا ہوں میں ایک کاشت کار فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرا شماران بچوں میں تو کسی طرح بھی نہیں ہوسکتا جو سونے کاچمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم مجھے اپنے گاؤں موضع بیرچھا تحصیل دسوہا ( ضلع ہوشیار پور ) کے انتہائی صاف ستھرے ماحول میں گھی کا چمچہ شروع سے ہی نصیب ہوتا رہا ہے۔ بلکہ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ میری والدہ محترمہ اوس پڑوس کے چند ایسے گھروں میں زندگی بھر دودھ لسی اور کبھی کبھی مکھن بھی بھجواتی رہی ہیں جنہیں یہ نعمتیں نصیب نہیں ہوتی تھیں۔

والدہ مرحومہ کا ذکر آیا تو میں اپنے بچپن کی اس انتہائی خوشگوار یاد کا حوالہ دینے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے ” اماں جی “ کا سب سے زیادہ لاڈلا بیٹا تھا۔” اماں جی “ جب فجر کی نماز سے پہلے چکی پیستی تھیں۔ وہ چکی جس کی آواز سے زیادہ سوزوگداز پر مبنی سریلی آواز کے لئے میں آج تک ترستا ہوں۔

اماں جی ورد کرتی ہوتی تھیں ۔ بالعموم سوہنے اللہ، سبحان اللہ کے کلمات آپ کی زبان پر جاری رہتے تھے۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرتیں اور پیار بھرے انداز میں آواز دیتیں: بیٹے ! اٹھو، نماز کا وقت ہونے والا ہے“ اپنی اماں جی کے بارے میں چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ 1947ء کے فسادات میں جب ہمارے اپنے گاؤں اور دوسرے قریبی دیہات پر ریاست پٹیالہ کی فوجوں کے تعاون سے حملے ہورہے تھے تو امانت کے طورپر بلامبالغہ سیروں کے حساب سے سونا ، چاندی اور دوسرے زیورات ہمارے گھر میں جمع ہوچکے تھے۔

ایک اس وجہ سے کہ بفضلہ تعالیٰ والدہ مرحومہ کی امانت و دیانت کی دھوم علاقہ بھر میں مچی ہوئی تھی اور دوسرے ہمارا گھر بھی مرکزی جگہ پر ہونے کے باعث بظاہر محفوظ ترین گھر تصور کیا جاتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے کردار میں جو بھی خوبی موجود ہے اور بچپن سے چلی آرہی ہے اس کا سو فیصد انحصار والدہ مرحومہ کی تربیت ہی کا مرہون منت ہے۔

بچپن کی یادوں میں سے یہ بات بھی ذہن میں پوری طرح محفوظ ہے کہ جب پہلے دن میں داخلے کے لئے گیا تو میرے بڑے بھائی چودھری قدرت علیؒ میری انگلی پکڑے ہوئے اس حالت میں اسکول لے جارہے تھے کہ میرے سر پر موتیوں والی ٹوپی تھی۔ دیہاتی رواج کے مطابق کندھے پر تولیہ اور ایک ہاتھ میں بتاشوں کا بنڈل۔ میرا بستہ۔ اور تختی بھائی صاحب نے اٹھا رکھے تھے۔

جاتے ہی جب اسکول کے اول مدرس ( ہیڈ ماسٹر ) ماسٹر نواب علی سے میرا تعارف کرایا گیا اور میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی تختی پر محترم ماسٹر صاحب کی نظر پڑی تو مجھے دوسرے ماسٹر صاحب کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ بچہ کچی پہلی والا تو نہیں ہے۔ اسے ابھی سے پکی پہلی میں داخل کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے قاعدہ سنا۔ جب میں نے فرفر الف سے ی تک پڑھ کر سنا دیا تو انہوں نے میرے بھائی کی موجودگی میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو گھر سے پڑھ کرآیا ہے۔ بس پہلے دن کی کارروائی اسی پر ختم ہوگئی۔

مجھے اسکول میں داخل کرلیا گیا۔ گویا میرے نام کا اندراج پہلی پکی کے رجسٹر میں ہوگیا اور میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ واپس آگیا۔ میں ہر روز تقاضا کرتا تھا کہ بھائی صاحب مجھے سکول چھوڑنے جائیں اور لے کر آئیں لیکن لاڈ پیار کی باتیں اپنی جگہ رفتار رفتہ میں اسکول جانے کا عادی ہوگیا۔ اسکول کی دیوار سے بالکل متصل میرے ماموں کا گھر تھا جہاں میں آدھی چھٹی کے وقت روزانہ جاتا اور کچھ کھا پی کر واپس آجاتا۔

اسی طرح دن گزرتے گئے اور میں نے پرائمری کا امتحان پاس کرلیا۔ اب سوچتا ہوں تو خود بھی حیران ہوتا ہوں کہ چوتھی جماعت پاس کرنے تک میں قرآن پاک ناظرہ بھی ختم کرچکا تھا۔ جس پارے میں میرا سبق ہوتا تھا وہ پارہ ہر وقت میرے ساتھ رہتا۔ بڑے بھائی، والد صاحب، جو بھی دوسرے رشتہ دار راستے میں ملتے ان کو اپنا پہلا سبق سنا کر نیا سبق لے لیتا تھا۔

اس دوران میں گاؤں کی مسجد میں میری حاضری اتنی باقاعدہ تھی کہ فارغ اوقات میں اذان بھی میں ہی دیتا تھا۔ مسجد کے میاں جی ( امام صاحب ) آتے تو مجھے شاباش بھی دیتے اور مجھ سے تکبیر بھی پڑھواتے۔ ان امام صاحب کی ہر نماز کے بعد مستقل دعا یہ ہوتی تھی۔ یا اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔ ہماری عزت کی حفاظت فرما اورہماری صحت کی حفاظت فرما۔ ان کے اسماء گرامی آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے ایک تو ایسے بزرگ تھے جو صرف ” باوا جی “ کے نام سے معروف تھے۔

ان کے خاندان میں سے جسٹس محمد عارف آج کل افریقہ کے کسی ملک میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔ جسٹس عارف کے بڑے بھائی ڈاکٹر شفیق ( غالباً انہیں ستارہ امتیاز کا تمغہ بھی ملا تھا ) پی سی ایس آئی آر کے چیئرمین رہے ہیں۔

ڈاکٹر شفیق صاحب کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ یاد آگیا۔ ان کے والد چودھری محمد اقبال مرحوم کی تعزیت کے لئے میں اور میری اہلیہ مرحومہ جب ان کے گھر گئے تو شفیق صاحب نے میری اہلیہ کا خیر مقدم کچھ ایسی عقیدت اور احترام کے ساتھ کیا کہ میں نے واپسی پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے اپنی اہلیہ سے استفسار کیا تو مجھے بتایا کہ 1947ء کے فسادات میں حملہ آوروں نے ان کی والدہ کو بری طرح زخمی کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ خود اپنے قدموں پر چلنے کے قابل بھی نہ رہی تھیں۔

میں نے انہیں کافی دیر تک اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا۔ ڈاکٹر شفیق نے ان الفاظ سے میری اہلیہ کا خیر مقدم کیا تھا I owe Too much to this great lady شاید اسی وجہ سے ڈاکٹر شفیق نے میری اہلیہ کا استقبال ان الفاظ سے کیا تھا۔ میری اہلیہ نے جہاں اس قسم کی اور بھی خدمات انجام دیں ، حملہ آوروں کے مقابلے کے لئے میری تیاری میں بھی انہوں نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ میرے سینے پر ترازو کا جو پلڑ زرہ کا کام دے رہا تھا اسے میری پشت پر رسیوں کے ساتھ میری اہلیہ ہی نے باندھا تھا اور سر پر لوہے کا خود پہنایا تھا۔ میرے کندھے پر ایک ڈول میں دیسی پٹاخوں ( دیسی بموں ) کا بنڈل تھا اور دوسرے کندھے پر سات سیل والی بڑی بیٹری۔

چنانچہ جب میں خطرہ کے وسل پر گھر سے نکلا ہوں تو میری والدہ نے دودھ کا کٹورا ہاتھ میں تھماتے ہوئے تھپکی دی اورا ن ایمان افروز الفاظ کے ساتھ مجھے رخصت کیا کہ بیٹا ! عزت اور ایمان کی خاطر جان کی پروانہ کرنا۔ چنانچہ جب درپیش معرکہ سے واپسی ہوئی تو میری برچھی کے پھل پر اس حملہ آور کے گوشت کا لوتھڑا تھا جسے جہنم واصل کرنے کی اللہ نے مجھے توفیق دی تھی۔

یہ حملہ آور ایسے ظالم تھے کہ انہوں نے دوسری خواتین کے علاوہ میری اہلیہ کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی ۔ میرے سسر جو میرے ماموں بھی ہیں للکارتے ہوئے آگے بڑھے اورحملہ آور جو گھوڑے پر سوار میری اہلیہ کو بازو سے پکڑ کر کھینچ رہا تھا اس کے گھوڑے کی ایک ٹانگ پر ایسے زور سے برچھے سے حملہ کیا کہ گھوڑا اپنے سوار سمیت کچھ ایسے لڑکھڑایا کہ حملہ آور کو بھاگتے ہی بنی اور میری اہلیہ کو اللہ تعالیٰ نے حملہ آور کے شر سے محفوظ رکھا ۔ اگرچہ اس کی ران پر برچھے کے حملے سے بہت گہرا زخم آچکا تھا جس کے اثرات اہلیہ کی وفات تک باقی رہے۔

آج میں یہ الفاظ کس حوصلے سے لکھ رہا تھا یہ میرا خالق و مالک ہی جانتا ہے۔ ان چاروں بزرگوں کے حوالے سے یہ بھی عرض کردوں کہ ایک مرتبہ مسجد کے امام صاحب کی آمد میں تاخیر ہوگئی تو مجھے نماز پڑھانے کے لئے کہا گیا ۔ میں نے یہ کہہ کر معذرت بھی کی کہ میں تو ابھی بہت کم سن ہوں اور ابھی تو میری داڑھی بھی نہیں آئی لیکن ایک کے بعد دوسرے بزرگ نے اصرار کیا کہ نماز آپ ہی پڑھائیں گے۔ میرے اس جواب کے باوجود کہ میری امامت میں آپ کی نماز کیسے ہوگی جواب ملا کہ اس کی آپ فکر نہ کریں ہماری نماز ہو جائے گی۔

خدا کی شان دیکھئے کہ یہ پہلی نماز تھی جس کی میں نے امامت کرائی۔ جیسا کہ خاندان سادات سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ بزرگ میرے بیٹے وقار مصطفیٰ کے سسر چودھری عبدالرشید کے دادا جان تھے۔ چودھری عبدالرشید کسی دور میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس رہے ہیں۔ تیسرے بزرگ لالہ نور محمد تھے۔

ہماری گاؤں کے ایک سابق فوجی حوالدار عبدالحق نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے اور ان سے بچاؤ کے لئے ہمیں کچھ ایسی تربیت دے رکھی تھی کہ گتکا کے ماہروں کی طرح تلوار کا استعمال اور برچھی کے وار سے اپنا تحفظ اور حملہ آور کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔

چنانچہ اپنے گاؤں پر حملے کے دوران اور ایک دن قبل اپنے گاؤں کے قریب واقع موضع ” دوا کھری“ پر حملہ آوروں سے اس گاؤں کے باشندوں کو کمک پہنچانے کے لئے اس ناچیز نے کمپنی کے کمانڈر کے طورپر اپنے جانباز ساتھیوں کے ہمراہ اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حق تعالیٰ کی توفیق سے اللہ اکبر کے نعروں کی ایمان افروز فضا میں دشمن کے ساتھ وہی کچھ کیا جس کا وہ مستحق تھا۔ لیکن ہم اپنے اس حفاظتی کردار کا جارحانہ مظاہرہ کہاں تک کرسکتے تھے۔

ہمارے پاس دیسی پٹاخے، گاؤں کے لوہار کی بنی ہوئی برچھی اور دیسی ساخت کی تلوار کے علاوہ اگر کچھ تھا تو وہ جذبہ ایمان تھا جس کے بل بوتے پر جو کچھ ممکن تھا کیا گیا۔ لیکن دشمن ایک تو جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں ، پٹیالہ کی فوج کے مسلح سپاہیوں کے تعاون سے پے در پے حملے کررہا تھا اور خود حملہ آور بھی جدید اسلحہ سے پوری طرح لیس تھے اور جس کے پاس اور کچھ بھی نہ تھا ، اس کے ہاتھ میں بھی ایک تھری ناٹ تھری کی گن ضروری تھی جو دور دور تک مار کرتی تھی۔

ہمارے نوجوان ساتھیوں کے پاس جو اچھے سے اچھا اسلحہ تھا وہ دو نالی بندوق تھی جس سے جب تڑاخ تڑاخ گولیوں کی آواز نکلتی تو دشمن خوفزدہ ہو کر یا تو بھاگ کھڑے ہوتے اوربعض اوقات دہشت کے مارے زمین پر گر جاتے۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں