مصطفیٰ صادق، بانی روزنامہ وفاق ، سابق پاکستانی وفاقی وزیراطلاعات و نشریات

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی ، خود ان کی زبانی ( 4 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی آپ بیتی

اینٹی قادیانی تحریک کے سلسلے میں اس امر کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک 53ء میں یکایک شروع ہوئی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ عامتہ المسلمین کے جذبات بعض اہم واقعات کی بنیاد پر یکدم بھڑک اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے مختلف علاقوں بالخصوص لاہور میں وسیع پیمانے پر ہنگامے شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا مارشل لاء تھا جس کا تذکرہ شاید اس لئے نہیں کیا جاتا کہ اس مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مرکزی یا کسی صوبائی حکومت کا تختہ نہیں الٹا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اورپرویز مشرف کے نافذ کردہ مارشل لاء کے ساتھ ساتھ جنرل اعظم خاں کے نافذ کردہ اس مارشل لاء کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ یہ مارشل لاء امن وامان کی بحالی کے نقطہ نظر سے دوسرے مارشل لاؤں کے مقابلے میں زیادہ سخت تھا۔

شاید اس لئے کہ اسے شدید ترین نوعیت کی ایجی ٹیشن کا سامنا تھا جو عامۃ المسلمین کے عقیدہ وایمان سے تعلق رکھتی تھی۔ چنانچہ مجھے ذاتی طورپر جماعت اسلامی کے کارکن اورخصوصیت کے ساتھ جماعت کے مقامی نظم میں ذمہ داری کے منصب پر فائز ہونے کے باعث شبانہ روز ایسے زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچانے کی خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی جو لاٹھیاں ڈنڈے کھا کر ہی نہیں گولیوں سے زخمی ہو کر بھی انتہائی مجنونانہ انداز میں ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگایا کرتے تھے۔

میں اس دور میں جماعت اسلامی لاہور میں ” قیم “ ( سیکرٹری) کے منصب پر فائز تھا اور جناب صدر حسن صدیقی امارت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہورہے تھے۔ جماعت اسلامی کی ایمبولینس کی ذمہ داری انجام دینے والی ویگن جو گشتی شفاخانے کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھی، ہماری تحویل میں تھی۔ صفدر صاحب مستقل طورپر اس کے ڈرائیور کی ڈیوٹی بھی انجام دیتے تھے اور ان کے ہم سفر کی حیثیت سے صحیح معنوں میں ان کے شانہ بشانہ سرگرم عمل رہتا تھا۔

قادیانی مسئلے پر عام شہریوں کے جذبات کا اندازہ یکی دروازے میں منعقد ہونے والے ایک جلسہ عام کی یادگار جھلکیوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ قادیانی مسئلے کے موضوع پر عوامی سطح پر اہم ترین قومی شخصیات میں جن بزرگوں کا نام سرفہرست قرار دینے میں کسی بھی قسم کا تردد یا تکلف نہیں ہونا چاہیے وہ تھے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، جو ختم نبوت کے مسئلے پر ایک مستند اتھارٹی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمہ طورپر خطابت کے شہنشاہ بھی قرار دیئے جاتے تھے۔

معروف معنوں میں عام لوگ انہیں ” شاہ جی “ ایسے پیارے اور محبوب نام سے یاد کرتے تھے۔ جس جلسہ عام کا میں نے ذکر کیا ہے اس کی صدارت شاہ جی فرما رہے تھے۔ اور جلسہ عام کے اہم ترین مقرر اس دور کے ممتاز ترین شیعہ لیڈر سید کفایت حسین تھے۔ سید صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں جب منطقی طورپر نباتات سے لے کر مخلوقات میں سے انبیاء و رسل کا حوالہ دینے کے ساتھ ہی بازو فضا میں لہراتے ہوئے” خاتم النبین “ کے الفاظ پکارے تو صدر جلسہ ” شاہ جی “ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، کرسی چھوڑ کر کھڑے ہوگئے اور سٹیج پر کچھ ایسے والہانہ انداز میں ” واہ شاہ جی واہ “ ” واہ شاہ جی واہ “ پکارتے ہوئے جھومنے لگے کہ ہزاروں افراد پر مشتمل جلسہ عام کے تمام شرکاء اپنی اپنی جگہ پر اٹھ کھڑے ہوئے اور کبھی اس دور کے معروف ترین نعرے ” تاجدار ختم نبوت “ سے فضا گونج اٹھتی اور کبھی شاہ جی کے الفاظ ” واہ شاہ جی واہ “ کے الفاظ پکارتے پکارتے شاہ جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یوں سمجھیے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مبتلا سرمستی و جانفروشی پر مبنی احساسات و جذبات کا انتہائی غیر معمولی منظر تھا۔ جو اس سے پہلے یا اس کے بعدشاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔

اس تاریخی جلسہ کا ذکر اس بنیاد پر ضروری محسوس ہوا کہ ختم نبوت کے جن شیدائیوں نے 53ء کے سخت ترین مارشل لاء کا سامنا کیا۔ان جذبات کا حقیقی اور تاریخی پس منظر واضح کیا جاسکے۔ بہرحال 53ء کا مارشل لاء آیا اور گزر گیا لیکن ایک طرف قادیانی مسئلے کے حل کے سلسلے میں یہ دور انتہائی اہم بنیاد ثابت ہوااور دوسرے اہل سنت ہوں یا اہل تشیع، اس موضوع پر تاریخی اعتبار سے باہمی اتحاد کا بے مثل مظاہرہ سامنے آیا۔

اس مارشل لاء کی عدالتی تحقیقات کے لئے ہائی کورٹ کا ایک عدالتی بنچ بھی قائم کیا گیا لیکن اس بنچ کی کارروائی کا ذکر کرنے سے پہلے اس امر واقعہ کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی دوسری اہم ترین دینی شخصیات کی گرفتاری کے علاوہ جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دینے کے بعد اس جماعت کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔

یہ مارچ 1953ء کا واقعہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے ان گرفتاریوں کے خلاف ایک احتجاجی بیان پر سرکردہ سیاسی اور دینی شخصیات کے دستخط لینے کی مہم شروع کی، جس کاغذ پر دستخط حاصل کئے جارہے تھے اسے مقامی پولیس نے خلاف قانون قرار دے کر جماعت کے لاہور آفس پر چھاپا مارا، جس کے کچھ ہی دنوں بعد مجھے 18 پریس آرڈیننس کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

مجھے یاد ہے کہ میری گرفتاری 22 مئی 1953ء کو میری قیام گاہ واقع قلعہ لچھمن سنگھ سے عمل میں آئی۔ تھانہ ٹبی کے انچارج شیخ صفدر نے غیر ضروری حد تک دہشت انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس پارٹی کے ذریعے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا اور مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر تھانے لے گیا جہاں مجھے حوالات میں بند کردیا گیا ۔

حالانکہ میرا قصور جوبھی تھا اس کی ضمانت گھر پر ہی لی جاسکتی تھی لیکن تھانے دار نے مجھے حوالات میں نظر بند کرنا ضروری سمجھا، جہاں سے اسی شام مجھے ضمانت پر رہا کردیا گیا تاہم حوالات کی چند گھنٹوں کی زندگی جہاں بہت سی تلخ یادگاریں چھوڑنے کاذریعہ بنی، اس کے ساتھ ہی اس کی افادیت کا یہ پہلو بھی بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کمرے میں دو حوالاتی پہلے سے موجود تھے۔

انہوں نے مجھے دیکھ کر ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں پوچھا:” مولوی جی ! تسی کدھر؟ “خیر میں نے اپنی کہانی تو سنانا ہی تھی جو سنا دی گئی۔ لیکن جب ان سے حوالات میں آنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بلاجھجک بیان کیا کہ ہمیں تو ویسے ہی پکڑنے کا بہانہ بنالیا گیا۔ ہمارے چھوٹے بڑے لڑائی جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آج ایسے ہی ایک جھگڑے کو بنیاد بنا کر حوالات میں بند کردیا گیا اور اب کل ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

جہاں تک مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں مصالحانہ کردارادا کرنے کی پہلی کوشش کے نتیجے میں ان دونوں حوالاتیوں کو صلح صفائی کے ساتھ عدالت میں یہ بیان دینے پر آمادہ کرلیا کہ ہمارے درمیان معمولی سا جھگڑا ہوا تھا جو ختم ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس کوشش کے نتیجے میں اگلے دن یہ دونوں حوالاتی بھی آزاد ہوگئے۔

جنرل اعظم کے اس مارشل لاء کے دور میں جہاں بہت سے شہری شہید اور زخمی ہوئے وہاں جماعت اسلامی کو پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر خدمت خلق کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں ایک تو گشتی شفاخانے کے ذریعے سے زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اور دوسرے لاہور کی مسجد وزیر خاں میں ایک کیمپ بھی لگادیاگیا۔ ان دنوں اس مسجد میں تحریک ختم نبوت کے راہنماؤں اور کارکنوں کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔

یہاں بالعموم مولانا عبدالستار خاں نیازی ختم نبوت کے موضوع پر تقرریں کیا کرتے تھے۔ مقامی پولیس ان کو گرفتار کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً اس مسجد کا رخ کرتی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کارکنوں کے غیظ و غضب اور مزاحمتی کوششوں کے اندیشے کے پیش نظر پولیس انہیں یہاں سے گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

ایک مرحلے پر یہ بھی سننے میں آیا کہ مولانا نیازی مسجد وزیر خاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے تھے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے ساتھ ہی ” زمیندار “ کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنی جماعت کے دوسرے راہنماؤں کے ساتھ گرفتار تو پہلے روز ہی کرلیا گیا تھا لیکن بعد میں ” قادیانی مسئلہ “ کے نام سے ایک پمفلٹ لکھنے کے الزام میں ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کردیاگیا۔

اس مقدمے کی سماعت سنٹرل جیل لاہور کی عمارت کے اندر ہی فوجی عدالت جیل کے ایک احاطے میں کیا کرتی تھی۔ میں یہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا کہ مولانا مودودیؒ اپنے معمول کے لباس شیروانی، ٹوپی اور پاجامہ میں ملبوس جب جیل کے مین گیٹ سے نکل کر فوجی عدالت میں پیش ہونے کے لئے مخصوص احاطے میں جاتے تو جماعت کے کارکن دو رویہ کھڑے ہو کر کسی بھی قسم کی نعرہ بازی کے بغیر صبرو تحمل کا بھرپور مظاہرہ کرتے۔

بالآخر جو ہونا تھا وہی ہوا۔ مولانا کے لئے سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ میں اس وقت کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ فیصلہ سننے کے بعد مولانا کی زیر لب مسکراہٹ دیدنی تھی۔ اس مسکراہٹ کو خندہ استہزاء ہی کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مولانا کے پھانسی کی کوٹھڑی میں منتقل ہونے اور اس کوٹھڑی کا مخصوص لباس پہنچنے کا تعلق ہے۔اس پر مولانا کے رفقاء خاص، بالخصوص میاں طفیل محمد اور مولانا امین احسن اصلاحی کی تحریریں معروف قومی اخبارات کے صفحات میں شائع ہوچکی ہیں۔

تاہم مولانا نے اپنے بڑے بیٹے عمر فاروق کو جن الفاظ سے خطاب کیا انہیں میں یہاں نقل کرنا ضروری بھی سمجھتا ہوں اور ایک اہم فریضہ بھی ” اگر اللہ تعالیٰ کو میری زندگی مطلوب ہے تو یہ لوگ الٹے بھی لٹک جائیں مجھے نہیں لٹکا سکتے ۔“

سوفیصد صحیح الفاظ تو اس وقت سامنے نہیں تاہم مفہوم ان کا یہی تھا۔ حکومت کی طرف سے معافی کی درخواست کا تقاضا کیا جارہا تھا جس پر مولانا کا ردعمل نفرت اور بیزاری پر مبنی تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مولانا کی سزائے موت کے فیصلے پر صرف پاکستان ہی میں نہیں، پورے عالم اسلام میں بھرپوراحتجاج کیا گیا جس کے بعد حکومت مولانا مودودی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں