ابلے ہوئے سفید باسمتی چاول ، اچار، سبز مرچ ، دھنیا

” کہاں تک سنو گے؟ "

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آصفہ عنبرین قاضی

دو دن پہلے شہر کے دوسرے کونے سے میری کزن نے لنچ کی دعوت دی اور صاحب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یار گرمی بہت ہے پھر کسی دن چلیں گے۔ ہم صلح جو بیویوں کی طرح مان گئے کہ واقعی گرمی بہت ہے ۔ لیکن آج صبح جیسے انہوں نے ناشتے کی میز پر کہا” شام کو علی کے گھر دعوت ہے، سات بجے نکلنا ہوگا ، باربی کیو ہے ” میں نے سر ہلا دیا ۔ میرے ذہن پچھلے تمام سین پرانی فلموں کی طرح گول گول شیشوں میں آس پاس گھومنے لگے ۔


برتن سمیٹتے ہوئے ارادہ کیا کہ بھئی ہم تو کچھ جتا کے ہی جاویں گے۔ اور ساتھ ایک تقریر بھی رٹ لی پھر جیسے ہی وہ منتوں ترلوں پر اتریں گے اور کہیں گے کہ دوست کی فیملی کیا کہے گی تب ہم اپنی بھڑاس نکال کے ساتھ چل پڑیں گے۔ ” مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” سارا دن ذہن میں بجتا رہا۔


اپنا اور ان کا سوٹ پریس کرکے لٹکایااور شام کا انتظار کرنے لگی ۔ ساتھ ساتھ وہ جملے پھر سے ذہن میں دہرائے جو شام کو ” چلیں؟ ” کا لفظ سن کر کہنے تھے ۔


"دیکھیے آپ کے اور میرے رشتہ دار برابر ہیں نا تو ان کا بھی حق بنتا ہے۔””آپ سارہ کی دعوت پر نہیں گئے تو میں کیوں جاوں بھئی ؟”
علی کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں اور سارہ کو کیڑے ہڑے ہوئے تھے ؟


ناں۔۔نا۔۔۔ میں نہیں جارہی ، آپ خود ہی جائیں , آپ کو بھی احساس ہو "


ان میں دو تین جذباتی جملے احتیاطا شامل کر لیے جو بغیر آنسووں کے بھی ایموشنل ایفیکٹ دے سکتے تھے مثلا ” کہاں گئی آپ کی محبت ، کیا مجھ پر ہی فرض ہے کہ آپ جہاں حکم دیں چل پڑوں، پہلے تو آپ بات نہیں ٹالتے تھے ، آپ دس سالوں میں اتنا بدل گِئے ؟” وغیرہ وغیرہ


شام پانچ بجے وہ قیلولہ فرما کر اٹھے ، تھوڑی گپ شپ لگائی ، چھ بجے کپڑے مانگے اور نہا دھو کر تیاری کرنے لگے ۔ میں بھی چوری چوری منہ ہاتھ دھو کے پھر رہی تھی ۔ بھوک بھی سخت لگی تھی کہ دعوت کا سن کر لنچ نہیں کیا تھا ۔نظر گھڑی پہ پڑی سات ہونے والے تھے ، اب اگر عین وقت پر نکلنے کا کہا تو میرے جھگڑے کے سین کا کیا ہوگا ، وقت کم اور جملے زیادہ ہیں۔

وہ پرفیوم لگا رہے تھے اور میں کن انکھیوں سے دیکھ کر سوچ رہی تھی اب یہ جیسے ہی کہیں گے ” بھئی تم نے کب تیار ہونا ہے ؟ ” تب میں شروع ہو جائوں گی۔

” میں انشاءاللہ گیارہ بجے تک آ جاوں گا” انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی


"میں نہیں جا رہی کیا ؟؟” میں نے اوپر دیکھا ۔


"نہیں! اس بار صرف مرد حضرات کی دعوت ہے ، بیگمات کی نہیں”


سوچ رہی ہوں دوپہر کے بچے ہوئے چاولوں پر اچار ڈال کے کھا لوں ۔۔۔ لیکن دعوت سے انکار والی تقریر کا کیا کروں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں