مکڑے کا جالا

اکہتر بہتر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف کا نیا اردو علامتی افسانہ

وہ بس ایک تھی گنتی میں .

میری زندگی میں نہ بھی رہی تو اکہتر اور تھیں . مجھے ان میں دل لگا لینا چاہیے تھا ، لیکن ایسا ہوا نہیں .

اس کے جانے کے بعد اس کی یاد میرے اندر بہت ہی خاموشی سے قبضہ کر کے بیٹھ گئی . اندر آتے آہٹ بھی ہوتی تو شاید میں چونک جاتا لیکن اکہتر کے ہوتے آہٹ کا پتہ بھی کیا چلتا، جب قبضہ ہوچکا تو پھر یکایک اس ایک نے سب کو جیسے چُھو کرکے غائب کردیا اور میں بے بس سا ہوگیا. مجھے وہ پسند تھی تو ایسا کیا تھا، پسند تو اور بھی بہت تھیں، کوئی صندل تھی تو کوئی سحر، کوئی مرجان تھی تو کوئی کنول. میری اس فہرست کا ہر وجود اہم تھا کیونکہ میں ان کے ساتھ خوش رہتا تھا، کوئی کسی کو پابند نہ رکھتا تھا.

ہم میں سے ہر ایک فطری ضرورت کو پابندی میں قید کرنا غیر فطری سمجھتا تھا سو سب ہی آزاد تھے ، ایک وہ تھی جو نہ جانے کیسے میری فہرست میں بھٹکتی آگئی شاید میرے اس دوسرے چہرے کی بدولت جسے دنیا "اچھے آدمی” کے نام سے پکارتی تھی.

وہ ہر وقت پاپندیاں تلے رہتی ، میں سوچتا بھٹک کر آگئی ہے، جلد چلی جاۓ گی . اس کا اور میرا تو کوئی تال میل ہی نہیں بنتا لیکن وہ جانے بجاۓ یہ اعتراف کربیٹھی کہ اسے مجھ سے محبت ہے ، میں نہ جانے کیوں چپ ہوگیا، یہ لوگ محبت کے نام پر بیڑیاں پہناتے ہیں، آزادی ختم کردیتے ہیں، نت نئ دنیائیں کھوجنے کی آزادی ، دنیا میں جنت کی سی آزادی ، حسن اور خوشی پانے کی آزادی غرض شرابا طہورا بس سناتے ہیں چکھاتے نہیں ، وعدے کرتےہیں بس” ملے گا، سب ملے گا”

ایسے میں وہ یہ کہہ رہی تھی مجھ سے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے تو مجھے لگا کہ وہ اپنے حبس خانہ جیسی زندگی سے نکل کر میرے جانب بڑھ رہی ہے جو جنگ اور محبت میں سب جائز جانتے ہیں ، دین اور اخلاق کو فطری طلب کا حریف سمجھتے ہیں. سوال یہ تھا کیا وہ اپنے گوہر آبدار تک مجھے رسائی دے گی کہ اب تو وہ مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے..

سچ پوچھیں تو اس کا میرے جیسے کے ساتھ ہونا عجب ہی تھا، اس لیے ممکن بنا کہ میں نے اپنے بہت سے پرت اس کو دکھاۓ ہی نہ تھے ، اور وہ مکڑی کے جالے میں چپک گئی لیکن اس کا چپکنا میرے ہی گلے پڑگیا ، زبردستی میرا شیوہ نہ تھا میں اس کو مسحور کرکے اس کو محبت کے نام پر اس آخری سطح پر لے جانا چاہتا تھا جہاں پتھر برسانے کا حکم آسمان سے اترا.

اور پھر نہ سپر مین آیا اور نہ کوئی بجلی چمکی لیکن وہ جالے سے آزاد ہوگئی …
کیسے؟
کون اترا؟
کئی دنوں بعد اپنے خیال میں اس کو جذباتی زخمی کرنے کے بعد فاتحانہ احساس سے اس کی خیر خبر لینے پہنچا تو وہ نہ تھی .
وہ جالے میں نہ تھی،
آزاد تھی،
کمزور تھی قید کے بعد لیکن لگتا تھا روح طاقتور ہوچکی ہے، اجنبیت اس کے وجود پر میرے لیے مجسم ہے.
آشنائی کی معدوم لو
کمان دار نگاہ
دشت سا لہجہ
اور بس اس دن کے بعد سے میں جالے میں قید ہوں ، اپنے ہی جالے میں اس کی یادوں کے ساتھ.
اب میری آنکھ بھی پرُآب ہو جاتی ہے اور دل بھی سر شام جل اٹھتا ہے، وہ کوئ ضروری تو نہ تھی لیکن میرے لیے چبھن بن گئی.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “اکہتر بہتر” جوابات

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    ھوں!!! اچھا ھے نیم علامتی مختصر افسانہ ۔ اسے پڑھ کر بے اختیار رئیس امروہوی کا مصرعہ یا آگیا
    "”پا کے اگر کھو دوں تو قلب مضطرب کا کیا کروں””

  2. تزٸین حسن Avatar
    تزٸین حسن

    افسانہ نصرت یوسف کا لاجواب ہوتا ہے۔ تحریر کی پختگی، کرداروں کی باریک پرتیں اور علامتی جملے انکا خاصہ ہیں۔