ترکی سفرنامہ

ترک قوم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (تیسری اور آخری قسط)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ترک معاشرے میں اسلام پسند اور سیکولرز ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے ہیں ، کوئی دوسری کی آزادی میں دخل نہیں دیتا

شبانہ ایاز

پہلے یہ پڑھیے
ترک قوم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (پہلی قسط)
ترک قوم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (دوسری قسط)

ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں جانا ہوا . یہاں میرا قیام تین ہفتے کا تھا اس لیے نہایت تسلی سے مختلف جگہوں کے دورے کئے۔ استنبول میں بے شمارتاریخی جگہیں موجود ہیں جن میں سرفہرست حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار ، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت ابو درداء کا مزار، آیاصوفیہ ، نیلی مسجد ، دولما باغیچہ ، توپ کاپی سرائے، سلطان محمد فاتح کا مزار ،آبنائے باسفورس کا پل جو ایشیا اور یورپ کو ملاتا ہے اور صدر طیب اردگان کی بنائی گئی ترکیہ کی سب سے بڑی مسجد۔ . ان سب مشہور تاریخی جگہوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ میری توجہ اس ملک کے لوگوں کے رویے ، ان کے بازار ، طرز زندگی ، صفائی ستھرائی ،اور ان کے نظام تعلیم وغیرہ کو سمجھنے پر تھی۔

مضمون نگار ، فیری پر سفر کرتے ہوئے ۔ استنبول ، ترکی

استنبول کی حیثیت ترکیہ میں اس لیے ممتاز ہے کہ یہ شہر ایشیا اور یورپ ، دو براعظموں میں واقع ہے۔ یہاں کی ٹرانسپورٹ میں ٹرین ، آٹو بس ٹرام اور فیری وغیرہ شامل ہیں ۔ فیری کو لاکھوں لوگ روزانہ سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ایک اور بات جو میرے لئے قابل غور تھی، یہ کہ یہاں پر کسی بھی طرح کا سفر کرنے کے لئے( سوائے ٹیکسی کے ) بنک سے کارڈ لینا پڑتا ہے ۔ آپ حکومت کے اکائونٹ میں کارڈ کے ذریعہ 100 لیرا ، 200 لیرا جمع کروانے کے بعد ہی بس، ٹرین اور فیری وغیرہ پر سفر کرسکتے ہیں ۔ اور تینوں کا ایک جیسا ہی کرایہ ہے یعنی آٹھ لیرا ۔ کارڈ کوئی بھی لے سکتا ہے اس کے لئے بنک میں اکائونٹ ہونا ضروری نہیں۔

مضمون نگار ، اپنی بیٹی کے ساتھ فیری پر سفر کرتے ہوئے ۔ استنبول ، ترکی

’ مسجدوں کا شہر ‘ کہلانے والے استنبول میں16 لاکھ عمارات ہیں جو آسمان کو چھوتی ہیں۔ ان میں سے نصف غیر محفوظ / غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ عمارات ہیں ۔ یہاں کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے ۔ میں نے ترکیہ کے مختلف شہر دیکھے ۔ تاہم استنبول میں دو مختلف رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

استنبول میں جہاں عبایہ اور حجاب دیکھنے کو ملے گا ، وہیں منی اسکرٹ اور بکنی بھی نظر آئے گی ۔ دونوں طرز لباس کی حامل لڑکیوں اور خواتین کی تعداد ایک جتنی ہے یعنی پچاس ، پچاس فیصد ۔ بورصہ کی خواتین پر یورپی اثرات بہت زیادہ ہیں ۔ پانچ فیصد ہی حجاب نظر آیا ، وہ بھی بڑی عمر کی خواتین میں ۔ نوجوان لڑکیاں ساتر لباس میں نہیں تھیں ۔

مضمون نگار دو ترک دوستوں کے ساتھ

میں نے نوٹ کیا کہ اسلام پسند یعنی باحجاب خواتین ہوں یا سیکولر، کوئی ایک دوسرے کے بارے میں منفی انداز میں نہیں سوچتا ، جیسا کہ ہمارے ہاں سیکولرز اسلام پسندوں کو انسان ہی شمار نہیں کرتے جبکہ اسلام پسند خواتین بغیر حجاب والی خواتین کو فٹافٹ دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے چکر میں پڑ جاتی ہیں ۔ ترکیہ میں سب اپنی زندگی میں آزاد ہیں ۔ جو جیسا بھی حلیہ اختیار کرنا چاہے، اسے پوری آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ کوئی کسی پر فتویٰ صادر نہیں کرتا حتیٰ کہ تنقید بھی نہیں کرتا۔ یہاں ہر انسان کا احترام کیا جاتا ہے ۔ سڑک کنارے یا کسی ریسٹورنٹ یا پھر کسی بھی عام مقام پر لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے رومانس میں مصروف ہوں تو یہ کسی کے لئے اچنبھے کی بات نہیں ہوتی ۔ اور رومانس کرنے والے بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔

استنبول ترکیہ کا وہ شہر ہے جو دیگر شہروں کی نسبت زیادہ لبرل ہے ۔ شراب عام ہے مگر سور کا گوشت نہیں کھایا جاتا ۔ ہر کھانا حلال اور صحت مند ہے ۔ ایک طرف یہاں یورپ کی طرح کا انفراسٹرکچر، سڑکیں ، ریل ، جہاز وغیرہ ہیں تو دوسری طرف ایشیائی طرز کی روایات بھی ہیں ۔ مغربی دھنوں پر تھرکتے جسموں والے نائٹ کلب بھی ہیں اور مسجد میں عوام کا ہجوم بھی دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں پر مولانا رومی کے نام اور افکار بہت احترام سے لیے جاتے ہیں تاہم سیکولر نظریات کے حامل ، اسلام بیزار مصطفیٰ کمال اتا ترک بھی مقبول ترین شخصیت ہیں۔

شیخ محمود آفندی

یہاں پر داڑھی ، ٹوپی اور برقعہ کا کریڈٹ شیخ محمود آفندی کو جاتا ہے ۔ استنبول میں فاتح ڈسٹرکٹ میں اسماعیل آغا مسجد کے قرب و جوار کا ماحول مکمل شرعی ہے ۔ اس ضلع میں شامی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ شامی پناہ گزین یہاں پر ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں افغان مہاجرین ۔ وہ کرایہ کے مکان میں رہ سکتے ہیں لیکن اپنا گھر نہیں خرید سکتے ۔ ہاں ! اپنا کاروبار ، نوکری اور تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ شامی کم اجرت پر کام کرنے والے مگر انہیں مقامی ترک سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ اس لئے انھیں آزادانہ طور پر ترکی میں گھومنے کی اجازت نہیں ہے۔ انھیں ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے کے لئے پولیس اسٹیشن سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ یہ سختی صرف شامی پناہ گزینوں کے لئے ہے ۔ عام غیرملکی سیاحوں کا پاسپورٹ ہی دیکھا جاتا ہے۔

اس سارے سفر میں میرا ترکیہ کے مختلف لوگوں کے ساتھ معاملہ رہا ۔ ان کے گھروں میں آنا جانا ، خوشیوں میں شرکت ، لین دین وغیرہ۔ جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر ان ترک مسلمانوں میں ایسی کیا خوبی ہے کہ انھوں نے تقریباً 650 سال تین براعظموں پر عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی اور اب بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میں ممتاز ہیں ۔ مجھے ان ترکوں کے ساتھ مختلف مقامات جا کر جوابات ملنا شروع ہوگئے ۔ اور وہ یہ کہ یہ لوگ اپنی زبان ، اپنی سرزمین ، اپنی چیزوں پر فخر کرتے ہیں ، بے حد صفائی پسند ہیں۔

استنبول میں ہم جس اپارٹمنٹ میں قیام پذیر تھے ، وہ دیگر مسلم ممالک سے آنے لوگوں کے تھے ، جہاں صفائی کا نظام کم ہی نظر آیا ۔ اس کے برعکس انقرہ میں ترک شہریوں کی رہائش گاہیں ، گلیاں ، لفٹس صفائی سے چمکتی نظر آئیں ۔ مجھے ترک قوم پاکستانی قوم سے اخلاقی ، مذہبی ، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے حد درجہ بہتر لگی ۔

اگرچہ نئی ترک نسل پر یورپی ثقافت کے اثرات نمایاں ہیں تاہم وہ مغرب کی تقلید کے بجائے اپنی زبان اپنی ثقافت کو دنیا میں متعارف کروا رہی ہے ۔ یہاں بچوں کی صحت اور تعلیم پر بھرپور توجہ کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے جو دنیا میں ایک مثال بنتی جا رہی ہے ۔

طویل سیکولر نظام کے اثرات ختم کرنے کے لئے نفسیات شناسی اور معاملہ فہمی کے ساتھ نئی نسل کی اسلامی تربیت کی جا رہی ہے۔ ابھی گرمیوں کی چھٹیاں ہیں ، ہم نے دیکھا کہ مساجد میں حفظ القرآن کے لئے سمر کیمپ لگائے گئے ہیں ۔ بعض مساجد کی شان و شوکت ، وہاں موجود بہترین سہولتیں ، کچھ پڑھانے والوں کا رویہ ، انعامات اور حوصلہ افزائی سے بچے پوری لگن سے قرآن کریم یاد کرتے ہیں۔

گرمی کی چھٹیوں میں ہر سال بچوں کو قرآن کریم کا اس قدر منتخب نصاب یاد ہو جاتا ہے جو عمر بھر کے لئے ان کے لئے رحمت اور برکت کا ذریعہ بنتا ہے ۔ جو بچہ پورا قرآن کریم حفظ کر لیتا ہے ،اسے عمرہ پر بھیجا جاتا ہے ۔ بچوں کو خطاطی اور تزئین کا فن سکھائے کے ادارے جگہ جگہ ہیں۔

’ امام خطیب اسکول ‘ ترکیہ میں اسلام زندہ رکھنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں ۔ اگرچہ یہ سکول یہاں کے تعلیمی نظام کا تین فیصد بھی نہیں تھے مگر انہی اسکولوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خفیہ طریقے سے دین کا کام جاری رکھا ۔ یہ بھیس بدل کر تعلیمی دینی سلسلہ چلاتے رہے ، کبھی فوج کے لوگ آتے تو فوراً کوئی کسان بن جاتا اور کوئی مزدور۔

ایک عرصہ تک فوج کی نظروں سے بچنے کے لیے دینی تعلیم اشاروں سے دی جاتی رہی ، یوں سیکولر ترک فوج کو شک نہ ہوتا۔ اس ادارے کو ترقی دینے والے ’ پیر محمود آفندی‘ تھے جو کہ صدر رجب طیب اردوان کے روحانی مرشد بھی تھے ۔ طیب اردوان نے امام خطیب اسکول ہی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اب طیب اردوان حکومت نے سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں دینی تعلیمی ادارے ترکی میں قائم کردئیے ہیں۔

ترکیہ میں یکساں نظام تعلیم ہے اور ترک زبان میں یونیورسٹی لیول تک تعلیم دی جاتی ہے ۔ غیرملکی طلبہ جو ترکی کی یونیورسٹیز میں پڑھنا چاہتے ہیں ، ان کے لیے ایک سال تک ترک زبان سیکھنا اور اس میں سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اسے ’ ٹومر ‘کہتے ہیں۔ یہاں کا اعلیٰ تعلیمی نظام واقعی ایک ترقی یافتہ سطح پر پہنچ چکا ہے ۔ صدر طیب اردوان کی قیادت میں پچھلے19 برسوں میں ترکیہ کی یونیورسٹیوں کی تعداد 76 سے 207 جبکہ یونیورسٹی طلباء کی تعداد 16 لاکھ سے 84 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ 2022ء میں تقریباً 3 لاکھ غیر ملکی طلبہ نے تعلیم کے لیے ترکیہ کو ترجیح دی تھی، جو ایک بڑی کامیابی تصور کی جارہی ہے ۔

آئیے ! اب یہاں کے سیاسی نظام کی بات کرتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں جہاں جمہوریت ہو یا کوئی دوسرا نظام ہو ، وہاں بنیادی طور پر حکومت کی تین انتظامی برانچز ہوتی ہیں ، جیسے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور بلدیاتی یعنی شہری حکومت۔ ان تینوں حکومتوں کے اپنے اپنے کام ہوتے ہیں اور انہیں کاموں اور مختلف محکموں کو چلانے کے لئے سالانہ بجٹ میں سے پیسے ملتے ہیں۔

آپ حیران ہوں گے کہ ترکیہ میں انتظامی اختیارات اور بجٹ کے حوالے سے پہلے نمبر پر بلدیاتی یعنی شہری حکومت ہوتی ہے ۔ دوسرا نمبر صوبائی حکومت کا ہوتا ہے اور سب سے کمزور حکومت وفاقی حکومت ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس بہت محدود اختیارات ہوتے ہیں اور بجٹ بھی بہت کم بچتا ہے ۔ پاکستان میں سسٹم اس کے برعکس ہے، یہاں بلدیاتی حکومت کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔

ترکیہ میں81 صوبے ہیں اور تقریباً 150 شہر ، جن میں ایک استنبول ہے ۔ ترکیہ کے ہر شہر میں سن 1880 سے باقاعدہ ہر پانچ سال بعد شہری حکومت کے انتخابات ہوتے ہیں ۔ جب تک نئی شہری حکومت منتخب ہوکر نہیں آتی تب تک پرانی حکومت کام کرتی ہے۔کبھی کوئی شہر کسی ایڈمنسٹریٹر یا صوبائی حکومت کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ اس لئے جب آپ ترکیہ جائیں گے تو آپ کو ہر شہر دلہن کی طرح سجا ہوا ملے گا اور تقریباً ہر شہر میں ورلڈ کلاس ٹرانسپورٹ سسٹم ، صفائی کا نظام ، پارکس ، جدید سڑکیں ، فٹ پاتھ ، اور تو اور وہاں پر جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ ایک ادارہ موجود ملے گا۔

استنبول کا مئیر ، یعنی ایک شہر کا مئیر ترکیہ کے صدر جتنا طاقت ور ہوتا ہے ، وہ پورے شہر کے تقریباً تمام معاملات پر مکمل اختیارات رکھتا ہے ۔ اسے سالانہ 16 ارب ڈالر کا بجٹ ملتا ہے ۔ واضح رہے کہ دنیا میں بلدیاتی حکومت سب سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے کیونکہ عوام کے90 فیصد کاموں کا تعلق شہری حکومت سے ہوتا ہے ۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا جہاں لوگوں میں اتنا شعور بھی نہیں ہے کہ بلدیاتی حکومت کس بلا کا نام ہے ۔ اسی لئے پاکستانی لوگ اکثر بنیادی چیزوں کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔

طیب رجب اردوان کی سیاسی جماعت ’ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( اے کے پارٹی ) میں اگرچہ کافی سارے مذہبی افراد موجود ہیں ، تاہم یہ کوئی مذہبی و انقلابی جماعت نہیں ۔ یہ خالصتاً ایک سیاسی جماعت ہے جو ترقیاتی پروگراموں اور ترک قومی وقار کی سر بلندی کے نعرے کے ساتھ سیاسی عمل کی قیادت کر رہی ہے ۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں نظریاتی ووٹ پانچ سات فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے ۔ دانش مند قیادت کامیاب حکمتِ عملی اوراپنی مہارت سے عام لوگوں کو شریک اقتدار کرکے آگے بڑھتی ہے۔ رائے عامہ کا ایک جائزہ بتاتا ہے کہ ترک معاشرے میں نظریاتی، مذہبی ووٹ صرف چھ فیصد تک ہے ۔ اِس کی بنیاد پر انتخاب جیت کر حکومت قائم کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ۔ لہذا ’ اے کے پارٹی‘ دائیں بازو کے آزاد خیال گروپوں کے تعاون سے پچاس فیصد ووٹوں کی حد عبور کرتی ہے اور شراکتِ اقتدار کے ذریعے ملک کی قیادت کرتی ہے ۔

اس کے لوگ شراکتِ اقتدار کے ذریعے نیکی کے راستے میں بچھائے گئے کانٹے تو چنتے ہیں مگر دینی و شرعی قانون سازی نہیں کر سکتے ۔ وہ تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے لئے الگ ادارے اور فورم بناتے ہیں اور ان کی سہولت کاری کا الگ سے نظام قائم کرتے ہیں۔ علمائ، طلبہ، تاجروں، مزدوروں اور کسانوں میں بھی وہ اپنے باقاعدہ ونگ نہیں بناتے ۔ ایک ڈھیلے ڈھالے نظام کے تحت ان سے خاموش تعلق رکھتے ہیں ۔ پارٹی ممبر شپ ہر ایک کے لئے کھلی ہوتی ہے جبکہ پارٹی لیڈرشپ کا چنائو انتخاب کی بجائے مشاورت سے کیا جاتا ہے۔

جس طریقے سے ترکیہ نے اپنے تاریخی ورثے کو پچھلے ہزار سال سے سنبھال کے رکھا ہوا ہے ، قابل تعریف ہے ۔ ترک معاشرہ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ یہاں عدالتوں میں انصاف کیا جاتا ہے ۔ قاضی/ جج انصاف پر مبنی فیصلہ دیتے ہیں ۔ ان کے فیصلے اس قدر صاف ، شفاف اور عدل کے مطابق ہوتے ہیں کہ کوئی فریق اس پر چیختا چلاتا نہیں ہے ۔

کسی بھی معاشرے میں محکمہ انصاف سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ معاشرے میں جرائم کے خاتمے اور شہریوں کو انصاف دینے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے ۔ جب معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے تو پھر ہر شعبہ ٹھیک کام کرتا ہے ۔ اور قوم خوشحالی کی منزلیں طے کرتی ہے جیسا کہ ہمیں ترکیہ میں نظر آتا ہے۔

ترک قوم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ میں نے کہیں بھی کسی سیاسی پارٹی ، مذہبی پارٹی کا جھنڈا لہراتے نہیں دیکھا ۔ گھروں ، چوراہوں ، پہاڑوں ، سمندر ، مسجدوں الغرض ہر جگہ ترکی کا قومی پرچم لہرا رہا تھا ۔

اس قوم کی نبی پاک ﷺ سے محبت ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی ایک جھلک ’ ارطغرل غازی‘ ڈرامہ سیریز اور ’ کرلوش عثمان ‘ میں جابجا نظر آتی ہے ۔ اب ترکی کے 2023 ء تک تین اہداف ہیں ۔ اس میں سے ایک دنیا کی 10 بڑی معیشتوں میں شامل ہونا ہے ۔ دوسرا خلا میں جانا ، اور تیسرا علاقائی اور عالمی رہنما بننا۔ آزادی ترکوں کے خون میں شامل ہے ، انھیں غلام نہیں بنایا جا سکتا۔

استنبول اور دیگر شہر جہاں قدرتی طور پر خوبصورت ہیں، وہاں صفائی کا نظام اس قدر شاندار ہے کہ اس قدر زیادہ آبادی کے باوجود ہمیں کہیں بھی گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر نہ آئے ۔ یورپ سے آنے والوں کی کثیر تعداد آپ کو عام مقامات پر گھومتی نظر آئے گی مگر مجال ہے کہ کہیں پر گندگی اور کوڑا کرکٹ نظر آ جائے ۔ بازاروں کی سجاوٹ بھی کوئی ترکوں سے سیکھے ۔

استنبول میں ایک امبریلا اسٹریٹ ہے جہاں پر دھوپ کی شدت کو کم کرنے اور خوبصورت بنانے کے لیے ہزاروں رنگ برنگی چھتریاں لگائی گئی ہیں ۔ اس نئے ڈیزائن کے باعث بازار کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس طرح کی اسٹریٹ انقرہ میں بس اسٹیشن کی بھی ہے۔

ترکیہ کی خاص بات یہ ہے کہ مقامی لوگ انگلش نہیں سیکھتے ، نہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی پڑھاتے ہیں بلکہ ترک زبان بولتے ہیں ۔ آپ کو کہیں بھی انگریزی زبان نظر نہیں آئے گی ۔ بالکل بھی نہیں ۔ کہیں کوئی سائن بورڈ ، موٹر ویز، دکانیں وغیرہ پر بھی انگریزی نہیں ہوتی ، سب کچھ ترک زبان میں ۔ شاپنگ مالز، بازار،سڑکیں یہاں تک کہ اشیائے ضروریہ پر ترک زبان میں نام اور باقی تفصیل لکھی ہوتی ہے ۔

اگر کسی غیر ترک کو بازار میں خریداری کرنا ہو تو اسے گوگل ٹرانسلیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے ، سیلز گرل کو چیز کا نام گوگل ٹرانسلیٹر سے ترک زبان میں ترجمہ کرکے پوچھنا پڑتا ہے ۔ ترک لوگ نہ انگلش سیکھتے ہیں ، نہ بولتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک جانے کے لئے پاسپورٹ بنواتے ہیں ، وہ اپنے ملک، اپنے کلچر پر فخر کرتے ہیں۔

ترک جنگجو ، اصول پسند اور باشعور قوم ہے ۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے مغل خاندان بھی بنیادی طور پر ترک نسل سے ہیں ۔ الحمدللہ میں بھی’ مغل ‘ ہوں ۔ اس اعتبار سے ہمارا بھی ترکوں سے دور پار کا رشتہ بنتا ہے ۔ یہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا۔ آئیے ! ایک بار پھر ترکیہ کی بات کرتے ہیں۔

یہاں کی آبادی صحت مند لوگوں پر مشتمل ہے ۔ نہ بہت موٹے اور نہ بہت کمزور ۔ یہاں لوگوں میں بہت ڈسپلن ہے ۔ جو وقت دیتے ہیں ، ٹھیک اسی وقت پہنچ جاتے ہیں ۔ ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ بعد ۔ سڑک پر پیدل چلنے والے کو ہٹانے کے لیے ہارن نہیں بجایا جاتا بلکہ گاڑی روک لی جاتی ہے۔ ہارن بجانا پیدل چلنے والے کی توہین سمجھی جاتی ہے۔

میرے ترکی میں قیام کے دوران میں یوم عاشور بھی گزرا ۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہاں یہ دن کس انداز میں منایا جاتا ہے؟ میں نے نوٹ کیا کہ وہاں یوم عاشور کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی ، نہ ہی سڑکوں پرکوئی جلوس نکلتا ہے اور نہ ہی ماتم ہوتا ہے ۔ نہ ہی سڑکیں اور علاقے بلاک کیے جاتے ہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کی جاتی ہے ۔ حالانکہ ترکیہ میں شیعہ مکتب فکر والے کل آبادی کا 10فیصد ہیں ۔ ہاں ! انھیں مکمل مسلکی آزادی حاصل ہے۔ وہ مخصوص مقامات پر اپنی رسومات ادا کرتے ہیں۔

ترک قوم سے ہمیں یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ضرورت مندوں کی باعزت طریقے سے کیسے مدد کی جائے؟

ویسے تو ترک عوام کی اکثریت خوش حال ہے مگر عراق ، شام ، یمن اور دیگر جنگ زدہ ملکوں سے آئے لوگ بہت غریب ہیں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ ماضی میں یعنی خلافت عثمانیہ کے دور میں رائج فلاحی پتھر پر لوگ اپنی مرضی کے مطابق رقم رکھ جایا کرتے تھے ۔ ضرورت مند وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق رقم اٹھا کر باقی رقم دوسروں کے لئے چھوڑ دیتے تھے ۔ اب مسجدوں میں ضرورت مند افراد کی مدد کا ایک سسٹم موجود ہے ۔ مسجدوں میں ضرورت مند لوگ آویزاں فہرست میں نام اور فون نمبر لکھ جاتے ہیں۔

امام مسجد اس فہرست کو مقامی انتظامیہ کے پاس بھجواتے ہیں ، جو جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ کیا وہ واقعی ضرورت مند ہے۔ تصدیق کے بعد انھیں دئیے گئے نمبر پر میسج بھیجا جاتا ہے کہ وہ مسجد آکر اپنی ضرورت کی اشیاء لے جاسکتے ہیں۔ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ دو افراد مسجد میں داخل ہوتے ہیں، جبکہ باقی باہر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ کرونا کے دوران میں اور اب بھی عید قربان پر یہ سسٹم نہایت کامیابی سے ضرورت مند لوگوں تک ضروری اشیاءاورگوشت پہنچانے کا سبب بنا۔

میں بازار میں شاپنگ کرنے کے لئے اپنے بیٹے کے ساتھ ہی جاتی تھی ، وہ بغرض تعلیم یہاں آیا ہوا تھا اور اسے ترک زبان بولنا آتی تھی۔ یا پھر ترک دوست خواتین خود گاڑی ڈرائیو کرکے مجھے شاپنگ کروانے لے جاتی رہیں ۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جہاں اچھی اور مناسب قیمت میں چیزیں ملتی ہوں ، وہاں لے کر جائیں ۔

مضمون نگار ترک دوست خاندان کے ساتھ

ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لئے میرے حجاب کی وجہ سے وہ جگہ منتخب کرتیں جہاں مرد نہ آتے ہوں ۔ ایک روز ہم پارک گئے ، آئس کریم خریدی تو وہ پریشان ہوئیں کہ یہاں مردوں کی موجودگی میں ، میں آئس کریم کیسے کھائوں گی ۔ ایک ترک دوست برجیس اپنے عبایہ کے فرنٹ بٹن کھول کر عبایہ پھیلا کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی تاکہ میں آئس کریم کھا سکوں ۔

میں نے اسے بتایا کہ میں آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوں لیکن یہ اللہ کا حکم ہے کہ نا محرم مردوں سے پردہ کیا جائے ۔ مجھ سے میری ترک دوستوں نے اتفاق کیا ۔ واضح رہے کہ ترکی میں صرف شامی خواتین ہی چہرے کا پردہ کرتی ہیں ۔ مجھے بطور سیاح چہرے کے نقاب کی وجہ سے شامی سمجھا جاتا تھا۔ ویسے شامی خواتین صرف سیاہ رنگ کا حجاب پہنتی ہیں ۔ میرے کلر فل اسکارف دیکھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتے کہ یہ خاتون شامی نہیں ہے تو پھرکہاں کی ہے؟؟؟

ترک دوست خاندان کے دو ارکان

بورصہ میں علو مسجد کے باہر ایک کافی شاپ کے سامنے ہم ایک گھنٹہ مردوں کے مسجد سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے ۔ جب میں جانے لگی تو ایک سیلز مین نے مجھ سے انگلش میں بے صبری سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ افغانستان؟ ایران؟ یا پاکستان سے؟ میں نے بتایا : ” ہاں میں پاکستانی ہوں“۔

پھر وہ آپس میں ترک زبان میں کچھ کہنے لگ گئے۔ میں تیزی سے والدہ اور اپنی بیٹی رحمہ کے ساتھ مسجد میں داخل ہوگئی ۔ یہاں کے لوگ پاکستان کا نام بہت ادب اور دل پر ہاتھ رکھ کر محبت سے لیتے ہیں اور پاکستانیوں کو خوب عزت دیتے ہیں ۔ ہمیں بھی بہت عزت اور محبت ملی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں