حافظ نعیم الرحمن ، امیر جماعت اسلامی کراچی

کراچی میں جماعت اسلامی کی واپسی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

کراچی کے 29ویں مئیر کا عہدہ سنبھالنے کے لئے بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد دوڑ کا اگلا مرحلہ چل رہا ہے۔ پندرہ جنوری سن دو ہزار بائیس کو منعقدہ انتخابات کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 93 ، جماعت اسلامی نے 86 ، پی ٹی آئی نے 40 ، مسلم لیگ نے 7 ، جے یو آئی نے 2 ، تحریک لیبک نے 2 نشستیں حاصل کیں جبکہ تین آزاد امیدوار بھی جیتے ۔ اب تک کے سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی چند سیٹوں کے فرق سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے نمبر پر ہے , الیکشن کمیشن نے نتائج میں ردوبدل کرکے پیپلزپارٹی کو پہلی پوزیشن دی۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور مئیر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ایک سو کے قریب نشتیں جیتنے کے باقاعدہ مصدقہ نتائج موجود ہیں جو پریذائیڈنگ افسروں نے جاری کئے ۔ یوں جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج میں مبینہ ردوبدل کے خلاف احتجاج شروع کردیا ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر کے باہر دھرنا دیا ، ڈی آر او اور اس کے ماتحت عملے کو دفتر ہی میں محصور کردیا ، مطالبہ کیا کہ ان نو نشستوں کے نتائج دیے جائیں جو پریذائیڈنگ افسروں کے جاری کردہ نتائج کے مطابق جماعت اسلامی نے جیتیں لیکن ڈی آر او نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو کامیاب قرار دیدیا۔

جماعت اسلامی کے احتجاج کے نتیجے میں دو نشستوں کے نتائج اس کے امیدواروں کے حق میں جاری کردیے گئے۔ تاہم جماعت اسلامی اب بھی باقی ماندہ سات نشستوں کے لئے احتجاج کر رہی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ان سات نشستوں کے نتائج بھی حاصل کرے گی۔ گزشتہ نصف شب حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کراچی کے ہیڈکوارٹر ادارہ نور حق میں منعقدہ پریس کانفرنس کی۔ ان کا لب و لہجہ ، عزم اور یقین واضح طور پر وہ کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔ وہ اکثریت حاصل کرکے ، مئیر بن کے رہیں گے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی جماعت اسلامی سے کہہ رہی ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرلے ، جتنی نشستیں ملی ہیں ، انھیں قبول کر لے۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے بیانات دیکھے جائیں تو انھیں یقین نہیں ہے کہ ان کی مئیرشپ پکی ہے ۔ وہ جماعت اسلامی سے درمیانی راستہ نکالنے کی منت سماجت کر رہے ہیں۔جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی کی چھ یونین کونسلوں میں انتخابی بے ضابطگیوں کا نوٹس لے کر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر او) ریٹرننگ افسر اور امیدواروں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے بے ضابطگیوں پر نوٹس جماعت اسلامی کی درخواست پر لیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات بے ضابطگی کیس 23 جنوری کو مقرر کر دیا۔

اگر الیکشن کمیشن نے ان چھ یونین کونسلوں کے حوالے سے فیصلہ جماعت اسلامی کے حق میں دیا ، تو جماعت اسلامی پہلے اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر ہو جائے گی ۔ پھر پیپلزپارٹی کو جماعت اسلامی کا مئیر تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کراچی کے انتیسویں مئیر بنیں گے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی کی طرف سے عبدالستار افغانی 1979 سے 1987 تک مئیر رہ چکے ہیں ، پھر سن 2000 سے سن 2005 تک نعمت اللہ خان بھی مئیر ( ناظم ) رہ چکے ہیں۔

کراچی کے لوگ دونوں شخصیات کے ادوار میں کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ان دونوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی کراچی کے لئے خدمات کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی کی اس سابقہ کارکردگی کی وجہ سے کراچی والے جماعت اسلامی ہی کے ہاتھ میں اپنی زمام کار دیتے تھے لیکن جنرل ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ میں ، عبدالستار افغانی کراچی اور اہل کراچی کے حقوق مانگنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیے گئے ۔ اہم ترین بات ہے کہ وہ اس وقت مئیر کراچی تھے جب انھیں گرفتار کیا گیا۔ انھیں مئیر شپ سے ہٹا دیا گیا اور جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم کو قائم کیا گیا۔

آنے والے برسوں میں کراچی سے روشنیوں کا شہر ہونے کا اعزاز چھین کر اسے اندھیروں کا شہر بنا دیا گیا ، قتل و غارت گری ، لاقانونیت ، بھتہ خوری ، بوری بند لاشیں اس شہر کا کلچر بن گیا۔ یہ سب کچھ مہاجروں کے حقوق کا نعرہ لگانے والی ایم کیو ایم کے ادوار میں ہوا جسے برسوں تک کراچی کی مئیر شپ دی گئی ۔ اسے صوبے کی گورنریاں اور وزارتیں بھی دی گئیں لیکن وہ کراچی والوں کے مفادات کے لئے کام کرنےکی بجائے اپنے دھندے چلاتی رہی۔

نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم ( مئیر ) بنے تو انھوں نے اس قدر تیز رفتاری سے کراچی میں ترقیاتی کام کروائے کہ مخالفین بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ اسلام پسندوں بالخصوص جماعت اسلامی کے بدترین مخالف جنرل پرویز مشرف بھی نعمت اللہ خان کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔

نعمت اللہ خان نے محض چار برس کی قلیل مدت میں کراچی کا بجٹ چھ ارب سے بڑھا کر بیالیس ارب روپے تک پہنچا دیا۔ ” تعمیر کراچی ” کے عنوان سے کراچی کی ایسی تعمیر کی کہ نعمت اللہ خان کو سن دو ہزار پانچ میں دنیا کے بہترین مئیروں میں شامل کرلیا گیا۔ پورے جنوب ایشیائی ممالک میں سے وہ اکیلے ہی اس فہرست میں شامل کئے گئے۔

حافظ نعیم الرحمن انہی دو شخصیات کے وارث ہیں ۔ بلاشبہ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی کراچی میں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ قدرے غیر جانبدار ہوئی تو ایم کیو ایم تین میں رہی نہ تیرہ میں ، یہی حال تحریک انصاف کا ہوا۔ اپنے ، پرائے سب تسلیم کرتے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن جب سے امیر جماعت اسلامی کراچی بنے ، انھوں نے کراچی اور اہلیان کراچی کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ وہ ایک بار پھر کراچی میں پرانا سیاسی کلچر لے آئے ہیں۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی کی حالیہ زبردست کامیابی نے پورے پاکستان میں جماعت اسلامی کے مایوس کارکنان کو بھی ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔ وہ جو مایوسی سے گرے پڑے تھے ، ان میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان کےدیگر علاقوں میں موجود جماعت اسلامی کے مقامی قائدین حافظ نعیم الرحمن کی جدو جہد سے سبق سیکھ رہے ہیں ۔ خیال ہے کہ اب ہر ضلع ، شہر ، قصبے میں جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن ماڈل اختیار کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو جماعت اسلامی واقعتا اٹھ کھڑی ہوگی بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ایک طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے مایوس لوگ موجود ہیں اور دوسری طرف عمران خان کی ناکامی سےدل برداشتہ لوگ ۔

ایسے میں اگر جماعت اسلامی اپنے آپ کو ایک متبادل کے طور پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئی ، اسی اعتبار سے ماحول بنانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پاکستان میں ایک تبدیلی کی ایک نئی لہر ہوگی۔ یہ تبدیلی عمران خان والی تبدیلی نہیں ہوگی ، بلکہ حقیقی معنوں میں تبدیلی ہوگی جو پاکستانی قوم کے لئے مفید بھی ثابت ہوگی۔میں اس کے موثر ہونے کی اس لئے پیش گوئی کر رہا ہوں کہ جماعت اسلامی کے لوگ کارکردگی دکھانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور دیانت دار اور ذمہ دار بھی ہیں۔ ( بادبان ، عبید اللہ عابد )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “کراچی میں جماعت اسلامی کی واپسی”

  1. مہرباں بھائی Avatar
    مہرباں بھائی

    بہت ہی زبردست تجزیہ کیا ہے آپ نے کراچی بلدیاتی الیکشن کا۔ اصل میں لوگوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں کو اس لیے ٹف ٹائم دیا ہے کیونکہ یہ دونوں پارٹیوں نے کراچی کو مایوس کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کی مقبولیت میں جہاں نعیم الرحمن کا کردار ہے وہیں ماضی میں جماعت اسلامی کے مئیر نے بھی بہت سے ترقیاتی کام کروائے ہیں ۔ اب پی پی کا امتحان ہے و جمہوری پارٹی بنتے ہوئے شہر کے حقیقی مینڈیٹ کو تسلیم کرتا ہے یا ایک فاشسٹ گروہ بن کر جعلی طور پر کراچی ہر قبضہ کرتی ہے