فاطمہ سہیل، محسن عباس حیدر

فاطمہ سہیل،محسن عباس حیدر اورکولگیٹ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افشاں نوید۔۔۔۔۔
ایک طرف ملکی تاریخ کا اہم ترین دورہ امریکا۔ دوسری طرف ہر چینل پر محسن عباس اور فاطمہ ہماری معاشرت کا چہرہ بےنقاب کرتے ہوئے۔

ٹی وی چینلز ہوں یا سوشل میڈیا پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں فاطمہ کی۔ ہرچینل سبقت لے جانا چاہ رہا ہے فاطمہ کو قوم کی ہیرو بنانے کے لئے۔ ایک دوسرے،تیسرے درجہ کا اداکار اتنا اہم کیسے ہوگیا کہ راتوں رات چینلز میں دوڑ لگ گئی فاطمہ کے ساتھ ہمدردی جتانے کے لئے۔

فاطمہ کے ساتھ زیادتی ہوئی، نہیں ہونا چاہیے تھاایسا۔ کسی مرد وعورت کے ساتھ تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ معاملات سنگین ہیں، دونوں اطراف کے خاندان اگر ناکام ہیں معاملات کو سںبھالنے میں تو پھر معاملات کو عدالت میں جانا چاہیے۔ قرآن نے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ رہنمائی کی ہے کہ ایک حکم ہو۔ دونوں فریقین کی بات سنی جائے کوئی مصالحت کی صورت ہوتو ٹھیک ورنہ طلاق اور خلع دونوں اطراف کے دروازے کھلے ہیں۔

ہمارے سماج کی اپنی اقدار تھیں۔ اگر شادی کے بعد اختلافات ہوتے تھے تو خاندانوں میں انھیں دبایا جاتا تھا، مصالحت کی حتی الامکان آخری حد تک کوشش کی جاتی کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے، والدین پڑوسیوں تک کو علم نہ ہونے دیتے کہ ہماری جگ ہنسائی ہوگی۔ لڑکی کے گھر والے زیادہ حساس ہوتے ہیں کہ بیٹی کی عزت کا معاملہ ہے، اچھلنا نہیں چاہیے۔

کسی شوہر نے بیوی پر ہاتھ اٹھایا یا زدوکوب کیا تو کیا یہ میڈیا کی خبریں ہیں؟؟

اگر نہیں بن پارہی تو راستے الگ کرلیں۔اس وقت پورے معاشرے کو اس کیس کو اچھال کر جس طرح پراگندہ کیا جارہا ہے یہ "نیو ورلڈ آرڈر” کے ایجنڈے ہیں معمولی بات نہیں۔

اگر نوجوان تشدد کررہا تھا تو قابل رحم تو وہ بھی ہے۔اسے نفسیاتی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔اگر ہمارا بھائی یا بیٹا ایسا کرے تو کیا ہم اسے یوں سماجی طور پر تنہا چھوڑ دیں گے؟ وہ بھی ہمدردی کا مستحق ہے۔ ذہنی بیماروں کو بھی دوا اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ہم انھیں اس طرح رسوا کریں کہ خودکشی کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے مرد بے چارے کے پاس ان فیمینسٹ معاشروں میں۔

جس طرح فاطمہ ہر چینل پر اپنے حمل کا بتارہی ہیں، اپنی چاردیواری کی باتیں سرعام بیان کررہی ہیں،الزامات لگا رہی ہیں،باتوں کو بار بار دہرا رہی ہیں۔ اگر یہ الزامات درست بھی ہیں تب بھی عدالت کی حد تک ہی یہ بیانات ہونا چاہئے تھے۔

معاشرے کی نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا کہ عورت بہت توانا ہے،مرد کے زیردست نہیں۔ اگر مرد ظلم کرے تو اس طرح تشہیر کرو، چلا چلا کر سماج کو سر پر اٹھا لو۔ ان این جی اوز کو بیرون ملک سے فنڈنگ انہی ایجنڈوں کی ملتی ہے۔

فاطمہ کے گھر والوں کو کتنی قیمت دی گئی۔ کوئی باحیا لڑکی جو ماں بھی ہو اس شخص کے بچوں کی، کوئی نہ کوئی دروازہ ضرور کھلارکھتی ہے کہ لاکھ اختلاف سہی مگر وہ اس کے بچوں کی ماں ہے۔

میڈیا جس طرح پروموٹ کررہا ہے وہ میشا جیسے تیسرے درجہ کی اداکارہ ہو یا محسن جیسے معمولی درجے کےاداکار کی بیوی۔ مختاراں مائی ہو یا ملالہ اب معاشرے کی ہیرو ہر وہ عورت ہوگی جس پر مرد نے تشدد کیا ہے۔

ہمارے معاشرے کے مردوں پر کہاں کہاں تشدد ہوتا ہے؟ کہاں کس درجہ میں انھیں ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے ؟ان کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ وہ مرد جو ہمارا مان، ہمارا شیلٹر ہیں۔ہماری کوئ ہمدردی ان کے ساتھ نہیں۔

بالفرض عورت پر تشدد کے واقعات پے درپے ہو رہے ہیں تو اس صورت میں ساری توجہ مردوں پر ہونا چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست ہو، ان کے نفسیاتی و سماجی مسائل کو حل کیا جائے۔

ہم زنانہ معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں، ہمیں عورت کو سڑک پر لانا ہے۔اسے بولڈ اور مرد کی حریف بنانا ہے۔

ابھی ٹی وی کے ایک چینل پر فاطمہ کا بیان ختم ہی ہوا تھا کہ کولگیٹ ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار شروع ہوگیا۔ اسکول کے لڑکے ہاکی یا کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ایک بچی آکر کہتی ہے مجھے بھی کھیلنا ہے ۔لڑکے کہتے ہیں تم گرجاؤگی، چوٹ لگ جائے گی۔ وہ کہتی ہے: تمہیں میری چوٹ کا ڈر ہے یا اپنی شکست کا۔

پس منظر میں بچی کی ماں کو مسکراتا ہوا دکھایا جاتا ہے ان کو شاباش دی جاتی ہےکہ بیٹی کو یہ اعتماد آپ نے دیا ہے۔

سماج کی کیسی تشکیل مطلوب ہے۔ فاطمہ کولگیٹ کے دئے ہوئے اعتماد پر پورا اتری ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “فاطمہ سہیل،محسن عباس حیدر اورکولگیٹ”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    زبردست ۔ دس میں سے دس نمبر کی تحریر 👍