ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

اسلام ، مسلمانوں کے ہاتھوں اجنبیت کا شکار کیسے ہوگیا ؟

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیازعبدالقادر/ بارہمولہ کشمیر :

دین وہ نہیں ہے جو آج اکثر واعظین منبر ومحراب پر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں بلکہ اصل دین وہ ہے جو محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں. جس میں اخلاقیات کا درس ہے، برداشت ہے، عجز و انکساری ہے، اللہ اور انسانوں سے محبت ہے، حفظِ مراتب کے اصول ہیں، ترجیحات کی تلقین ہے، فروع سے اجتناب ہے اصول کی تلقین ہے، ابوطالب اور ابن اُبی کے لئے بھی وسعت قلبی ہے…

وہاں ضال و مضل کے فتوے نہیں لگتے، فکر و مسلک کی بنیاد پر جنت و جہنم کی تقسیم نہیں ہوتی، سب کو ساتھ چلنے کی ترغیب ہے. وہاں اختلاف ہے لیکن انتشار نہیں، اتفاق نہ صحیح لیکن اتحاد ہے. وہ دین ہمیں آپس میں شفیق و مہربان بناتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کے لئے آسان چارہ بننے سے روکتا ہے.

وہاں منبر نفرتیں اور عداوتیں پھیلانے کے لئے استعمال نہیں ہوتے. ’ بزرگی ‘ اور بے بنیاد تقدس کے بھیس میں ’ پاپائیت ‘ کا احیاء نہیں کراتا. وہاں گدی ہے نہ گدی نشینی البتہ خاک ہے اور اسی خاک پر جلوہ گر اس امت کے افضل ترین شخصیات بوبکر و عمر، عثمان و علی اور ان سب کے گلِ سرسبد میرا حبیب صلعم ہے….

وہاں ’ ٹھیکیداری ‘ ہے نہ ’ کوتوالی ‘ بلکہ ہمدردی ہے اور احساسِ ذمہ داری… تعویز کے لئے زن و مرد کی لائن ہے نہ پانی کو ’ دم ‘ کرنے کا کوئی ادارہ.. اللہ سے تعلق قائم کرنے کے فرضی ’ واسطے‘ نہیں ہیں بلکہ پیغمبر اعظم بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرکے معبود کے راستے پر لگادیتے ہیں.

ایسی ’ درویشی ‘ ہے نہ ایسی عیاری… وہاں ادب ، تہذیب، شائستگی، پاکیزگی، نفاست، گمنامی، زہد کے چلتے پھرتے نمونے ہیں. نخوت، کبر، گھمنڈ، ضد، ہٹ دھرمی، حقارت جیسی خباثت سے پاک معاشرہ ہے….

اب تو دن رات جو دین ہم سنتے ہیں وہاں تو ان اصولوں کا فقدان ہے، جو دین بڑی شان سے حجاز کی گلیوں سے نکلا تھا، پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے! چند ’ مزاحیہ ‘ کردار ہیں جو منبر و محراب کا تقدس پامال کررہے ہیں. ’ مقلد ‘ و ’ غیر مقلد ‘ آپس میں دست و گریباں ہیں.

کوئی امام ابوحنیفہ کو اپنا امام سمجھ کر ان کی مساعیِ جمیلہ کو سرِبازار مزاق بنا رہا تو کوئی محمد بن عبدالوہاب کی تقلید کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کی فکر کو جگ ہنسائی کا موقع دے رہا. البتہ ایک چیز ان میں مشترک ہیں کہ وہ کلمہ وہی پڑھتے ہیں جو محمد صلعم نے سکھایا لیکن اس کے تقاضے کیا ہیں، اس سے ‘بے نیاز’ بنے پھرتے ہیں…

یہاں تو مسلک پر ’ ایمان ‘ ہے، فکر کی ’ پوجا ‘ ہے، تنظیم کی ’ پرستش ‘ ہے، شخصیت کا بُت تراشنے والے ’ آزر‘ ہیں…. ’ اسلام ‘ کہاں ہے؟ وہ تو بس کتابوں میں لکھا ہے، قرآن کے اوراق پر ثبت ہے، ماضی کے صفحوں کی زینت بنا ہوا ہے….

وہ صحابہ کا سماج کہاں سے لاؤں جو رشکِ دہر تھے..! جنہوں نے دلوں کو جوڑا، بے کسوں کو سہارا دیا، اخوت و محبت کی مثال قائم کی، کسی کو جھٹکا نہیں، کسی کے سروپا کو نفرت اور طوز نگاہوں سے تکا نہیں… ماتھے پر شکن نہ تھی، دلوں میں حسد نہ تھا. جو عمل بھی کرتے تو قبولیت کے لئے رب کے سامنے گڑگڑاتے تھے. لوگوں کو دھوکہ نہ دیا، معاملات میں کھوٹے نہ تھے، جن کی خلوت وجلوت میں امتیاز نہ تھا، کمالِ بندگی کے ساتھ ساتھ جمالِ انسانیت میں بھی لامثال تھے، جو بزم میں ابریشم کی طرح نرم تھے تو رزم میں کوہِ گراں…!
وہ لوگ اب مفقود ہیں ،
وہ ’ اسلام ‘ اب اجنبیت کا شکار…!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اسلام ، مسلمانوں کے ہاتھوں اجنبیت کا شکار کیسے ہوگیا ؟”

  1. توصیف احمد ڈار Avatar
    توصیف احمد ڈار

    قلم کار نے واقعی مسلمانوں کی پستی کے بنیادی اسباب و وجوہات پر سے پردہ اٹھایا ہے. وہ دین جو ہمدردی، اتحاد و اتفاق اور ہر ایک فرد بشر کے حق میں سلامتی کا پیغام ہے، آج کے مذہبی سرپرستوں کے ہاتھوں اجنبیت کا شکار ہوگیا ہے. غور و فکر کی دعوت دیتا ہوا ایک عمدہ نسخہ. شکریہ