خاتون آرٹسٹ پنسل سے سکیچ بناتے ہوئے

ننھی پنسل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف :

لمبے لمبے کانوں والے سرخ، سبز، زرد خرگوش اس کریم پنسل پر بنے تھے، لائبہ کا، کام اس پنسل سے خواہ مخواہ اچھا ہوتا.. اسے لگتا پنسل کا سرخ خرگوش اس کے لکھے کو دیکھ کر آنکھیں پٹپٹاتا اور زرد خرگوش خوشی میں کان کو موڑتا ہے.

مختلف بات یہ تھی کہ اس کی دوست امرت سیاہ رنگ کی کالی سخت نب والی پنسل کو اسکیچنگ کے لیےاس وقت تک استعمال کرتی جب تک وہ اس کی لانبی انگلیوں میں پھنسنے کی گنجائش رکھتی۔ لائبہ، امرت کی کسی بھی چیز کی نقل میں عار نہ سمجھتی لیکن اسکیچ پنسل وہ ایک مخصوص سائز کے بعد کوڑے دان میں اچھال دیتی. اسے ٹوٹے بہت سی چیزوں کے نا پسند تھے.

اس کا خیال تھا ٹوٹے استعمال کرنے والے تنگ جیب اور تنگ سوچ رکھتے ہیں.
سلاد میں کھیرے ٹماٹر کے بڑے ٹکڑے، پھل کی لمبی یا کھلی قاش، کانوں کے بڑے آویزے اور کندھے کے ساتھ لٹکے زنبیل نما بیگ.. یہ لائبہ فصیح کا مزاج تھا.

اس کے ساتھ وہ کمال کے اسکیچ بناتی .. پھولوں کے مالا سر کے گرد لپیٹی دوشیزہ، کانچ کا نازک سا گلاس تھامی لڑکی، انگلیوں مانند درخت کی شاخیں، سب کچھ بہت عمدہ ہوتا لیکن اسکیچ پنسل کی قضا اس کی درمیانی انگلی کی لمبائی سے گھٹتے ہی آجاتی.
امرت کے کام میں اس سے زیادہ نکھار لیکن پنسل پھینکنے میں وہ اتنی ہی کنجوس تھی.

چالیس پیس کا ڈرائنگ پنسل سیٹ دونوں نے مہینہ بھر کے جدید آرٹ کورس میں داخلہ کے بعد خریدا تھا، لائبہ اپنے سیٹ کی آخری چارکول پنسل استعمال کرتے اڑنے والے جوتوں کی تصویر مکمل کرکے لکھ رہی تھی،
” تمہاری اڑان میرا دل “

اس نے کام پورا کرکے اپنی چیزیں سمیٹیں اور برابر والی میز کی جانب بڑھ گئی جہاں امرت لمبی اڑنے والی جھاڑو پر بیٹھی چڑیل بناتی ہنس رہی تھی. چھوٹی سی گریفائٹ پنسل سےچڑیل کی مڑی ہوئی ناک اچھی بن گئی تھی . یہ سیٹ کی بارہویں پنسل تھی. ابھی ڈھیر باقی تھیں. لائبہ نے رشک سے اس کے سیٹ کو دیکھا اور ایک چارکول پنسل اٹھالی.

دونوں کی انیسویں سالگرہ اکتوبر میں آنی تھی. بین الاقوامی آرٹ مقابلے میں اپنا کام جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی اسی ماہ تھی.

دونوں کو کامیابی کی ایسی امید تھی جیسے دنیا میں ان سے بڑھ کر کوئی ماہر موجود ہی نہیں اور خطیر رقم کا انعام ان کو ضرور ہی ملنا ہے. ان کا کام اچھا ضرور تھا لیکن غیر معمولی کچھ نہ تھا.

انیسویں سالگرہ آئی تو امرت کا بیاہ بھی ساتھ لائی،ان کے آرٹ ادارے کی ساتھی کا بھائی مقامی ہوٹل میں شیف تھا، آرٹسٹ سے شادی کرکے ملک سے باہر جانا چاہتا تھا. امرت کے گھر والوں کو یہ رشتہ ہر لحاظ سے پسند آیا، بالخصوص ملک سے باہر رہائش کے ارادے بڑے ہی سنہرے تھے، سسرال کی جھنجھٹ سے آزاد ان کی بیٹی تہذیب یافتہ خوشحال ماحول میں کام کر سکے گی.

امرت کے نکاح کی تقریب میں لائبہ بے حد اہتمام سے تیار ہوئی. امرت کے ساتھ بیٹھا دولہا امرت سے کم اچھا دکھ رہا تھا. امرت کی ساتھی لڑکیاں سرگوشیوں میں انہیں بے جوڑ کہہ رہی تھیں.. لائبہ کو ان کی باتیں غلط نہ لگیں.

” کہاں امرت اور کہاں یہ عام سا کماتا شخص “
” بس باہر سٹیل ہونے کا شوق پورا ہو جائے گا “

ایک کھنکتی آواز سن کر لائبہ نے شکر کیا کہ اس کے گھر والوں نے اس رشتہ سے انکار کر دیا تھا. ورنہ یہ سب تبصرے اس کی قسمت میں آجاتے.

ماتھے کا ٹیکہ سیٹ کرتے اس نے جگہ جگہ موجود آئینوں پر اپنے چمکتے سراپے پر نگاہ ڈالی اور دوستوں کے جھرمٹ کی جانب بڑھ گئی.

” لائبہ ! سنا ہے تمہارے لیے اس لنگور کا رشتہ آیا تھا پہلے، “ ایک منہہ پھٹ دوشیزہ نے دھیمی آواز میں پوچھا؟ “
” ہاں “
وہ بات کو طول نہ دینا چاہتی تھی.

” کیوں نہ کیا پھر؟ “
کوئی اور تجسس میں بولا تو لائبہ جواب دیے بنا وہاں سے ہٹ گئی.
وہ کسی کو یہ بتا کر نہیں گئی کہ ر شتہ کے بعد ویڈیو ملاقات میں شیف صاحب نے منی سی پنسل اٹھا کر کچھ لکھا۔
اور لائبہ فصیح نے مسترد کرنے کا فیصلہ فوراً کرلیا . پنسل کا ٹکڑا اس معاملے میں بھی لائبہ پر اثر ڈال گیا.

امرت خاصی مصروف ہوگئی تھی، لائبہ سے ملاقاتیں گھٹ گئی تھیں، اس کا فن لینڈ کوچ طے پا چکا تھا. خوشی میاں بیوی کے وجود پر مجسم تھی.

لائبہ فصیح، امرت کو حیرت سے ان گھریلو حالات سے گزرتے دیکھتی جو اس کے میکہ سے قطعی مختلف تھے، وہ ڈھیر لوگوں کے درمیان، ذمہ داریاں اٹھائے رہتی مگر پھر بھی چہکتی لیکن اسکیچنگ اس کی بدستور زندہ اور عمدہ تھی. اس نے مزید جدید کورس میں لائبہ کے ساتھ داخلہ لیا لیکن اکثر وہ گھر پر کام کرنے لگی ،لائبہ ہمیشہ کی طرح مخصوص سائز ہونے پر پنسل بدل لیتی لیکن ارد گرد کوئی امرت نہ ہوتی جس کی پنسل ضرورت پڑنے پر وہ بلا جھجھک استعمال کرسکتی ، اسے ایسا کرنے کی گاہے بہ گاہے طلب ہوتی.

کیا امرت اب بھی اتنی ہی چنی منی پنسل سے کام کرتی ہوگی؟

لیکن یہ سوال اس نے کیا نہیں، بلکہ ملاقات پر اپنے پنسل ٹوٹوں سے بھرا بکس امرت کو بڑی نفاست سے پیک کر کے دیا، جس کو دیکھ کر وہ خوب ہنسی، اور جھٹ دو نئی پنسلیں لائبہ کو تھمادیں.

امرت کے جانے کا معاملہ یک دم تیزی سے مراحل طے کرتا نمٹ گیا اور وہ ملک چھوڑ گئی.

لائبہ فصیح نے اس کے جانے کو خوب محسوس کیا لیکن جلد ہی مشہور مصور عرفان مکی کی آرٹ گیلری سے جاب آفر نے اس کی توجہ اس جانب پھیر لی.

عرفان کا کام اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھا، لیکن اس نے لائبہ کو اس کے کام سے متاثر ہوکر نہیں بلکہ اس کے چہرے کے تاثرات سے مائل ہو کر رکھا تھا.. وہ اپنی آرٹ گیلری میں ایک مخصوص تھیم میں رنگی اشیاء، کام اور انسان رکھتا تھا.. لائبہ فصیح کو دیکھتے ہی اسے اپنی تھیم میں اس کی جگہ نظر آئی اور وہ حسب توقع آرٹ گیلری کا حصہ بن گئی.

لائبہ کے ہنر کو وسیع کینوس ملا اور وہ نکھرنے لگا، عرفان مکی کو لائبہ سے بس اتنی ہی غرض تھی کہ وہ اس کی گیلری میں اس کی سوچی جگہ پر اپنے مخصوص تاثرات کے ساتھ ایستادہ نظر آئے، اس کے علاوہ وہ اس کے لیے صفر کا درجہ تھی لیکن ایسا لائبہ تو نہ سوچتی تھی، اس کے لیے تو وہ ڈن ہل کے کش لگاتا ساحر بن گیا تھا جو سگرٹ آدھا ہوتے ہی پھینک دیتا، ایش ٹرے آدھے استعمال شدہ ٹکڑوں سے ہر دن بھر جاتی اور پھر گیلری کا چوکیدار سناٹے میں ان ٹکڑوں کو سلگاتا اور اپنے آپ کو عرفان مکی سمجھتا.

نسوانی پیکر عرفان مکی کے گرد جمگھٹا لگائے رکھتے، اس کی بیوی دلکش عورت تھی لیکن جب ایک سے بڑھ کر ایک روپ متی ہر روز گھیرا ڈالے ہوں تو نا ممکن تھا کہ کوئی اور دل نہ چھو جائے، وہ یہ بات واضح جانتی تھی اس لیے میاں کی حفاظت کی دن رات فکر کے بجائے اس نے ٹی وی ڈرامہ پروڈکشن کی تربیت لے کر اس میں اپنے آپ کو مشغول کر لیا.

ہاں اسے لائبہ فصیح ہمیشہ خطرے کا الارم لگی. وہ تیرہ برس سے عرفان کی بیوی تھی، میا‍ں کی رگ رگ جانتی تھی، نیلے کا کون سا شیڈ میاں کو چائے کے مگ کے لیے پسند ہے اور کون سا باتھ ٹاول کے لیے، ایسی عورت نے میاں کی نگاہ میں لائبہ کو مسکراتا دیکھ کر ایسا کوندا لپکتا دیکھا جو ایک ایسا سراہنے والے کا تھا جس میں پروانہ کی سی جھلک تھی.

لائبہ فصیح کی آنکھی‍ں اس لمحے اس نے نہ دیکھیں ورنہ وہ بھی عرفان مکی کے لیے نمایاں لو دیتی وہ دیکھ ہی لیتی..

اس لمحے دونوں وجود برابر اکائی جذبہ رکھتے تھے.. لیکن لمحہ گزر گیا اور دنیا واپس وہی ہوگئی جو تھی.
لائبہ نے پورے چار برس عرفان مکی کا آس بھرا انتظار کیا، لیکن کچھ نہ ہوا، مکی نے مجال ہے سگریٹ کا کش بھی اس کے قریب کھڑے ہوکر لگایا ہو. لائبہ فصیح نے جس دن اس کی دوسری شادی کی خبر سنی، اسی دن گیلری سے استعفیٰ دے دیا،

کچھ عرصے بعد میاں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی وہ سگنل کھلنے کے انتظار میں تھی، سگریٹ کا دھواں بند گاڑی میں پھیلنے لگا تو اسنے ناپسندیدگی سے شوہر کو دیکھا، جو آخری سرے تک چیز کا استعمال کرتا تھا،لائبہ فصیح کے بنائے تصورات سے بہت مختلف آدمی اس کا ہم سفر تھا. اور ہوسکتا ہے وہ بھی ایسا ہی سوچتا ہو لیکن مجموعی طور پر وہ اچھا انسان تھا. سمجھدار اور ذمہ دار.

ماضی اچانک دستک دینے لگا تھا لیکن اس کو کھولنے سے اس کا حال متاثر ہوجاتا، سو ایک گہری سانس لے کر اس نے یادوں کا دریچہ بند کردیا.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

8 پر “ننھی پنسل” جوابات

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    نزاکت اور حساسیت سے بھر پور افسانہ ،جوبہت دل سے لکھا گیا ھے۔

    1. خنساء مریم (گجرات) Avatar
      خنساء مریم (گجرات)

      اک منفرد انداز۔۔ جو قاری کو رستے سے مڑنے نہیں دیتا۔۔😍😍

      1. نصرت یوسف Avatar
        نصرت یوسف

        شکریہ خنساء

  2. نصرت یوسف Avatar
    نصرت یوسف

    😍شکریہ زبیدہ

    1. روبینہ شاہین Avatar
      روبینہ شاہین

      نصرت جب بھی لکھتی میں سوچتی یہ کیسے لکھ لیتی

      1. نصرت یوسف Avatar
        نصرت یوسف

        شکریہ روبینہ 😉

  3. بشری باڑی Avatar
    بشری باڑی

    حقیقی زندگی کی بھرپور عکاسی کرنے والی تحریر
    بہت شاندار!!
    ماشاءاللہ!!

    1. نصرت یوسف Avatar
      نصرت یوسف

      جی میڈم 😉