دلہن کے مہندی سے سجے ہوئے ہاتھوں ، روایتی جیولری پہنے شادی کے دن سٹیج پر بیٹھے ہوئے

کچھ تو خدا کا خوف کریں !

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :
[email protected]

فضہ نے میڈیسن کے شعبے میں گریجویشن کیا ہے اور آج کل اسی شعبے میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے. وہ اپنے ادارے کی ذہین، لائق اور پر اعتماد طالبہ رہی ہے. اپنے ہسپتال کے ساتھیوں، دوستوں اور مریضوں میں حسن اخلاق اور ہمدرد طبیعت کی وجہ سے مقبول ہے. ذہانت، اعتماد اور احساس جیسی صفات نے اس کی شخصیت کو نکھار اور وقار عطا کیا ہے اور وہ بہت مطمئن اور بھرپور زندگی گزار رہی ہے.

لیکن یہ کہانی اس دن سے پہلے کی ہے جب ایک جاننے والے خاندان کی وساطت سے فضہ کے رشتے کے لیے ایک خاندان ان کے گھر آیا. جملہ اہل خانہ اپنی بچی کی قابلیت اور پر اعتماد شخصیت کی وجہ سے پر یقین تھے کہ یہ محض رسمی کارروائی ہو گی اور رشتہ طے ہو جائے گا لیکن اس وقت ان کی حیرت اور صدمے کی انتہا نہ رہی جب انہیں یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ بچی فربہی مائل ہے اور انہیں سمارٹ لڑکی چاہیے، بلکہ ان کے الفاظ تھے کہ انہیں نازک اندام گڑیا جیسی لڑکی درکار ہے.

انکار کے اس انداز نے فضہ کو بری طرح متاثر کیا اور وہ ہر طرح سے اپنا وزن کم کرنے کی کوشش میں خود کو ہلکان کرنے لگی، حالانکہ اس کا وزن کچھ زیادہ نہیں تھا لیکن توقعات بھرا دل معاشرے کی بے رحمی سے اس بری طرح ٹوٹا کہ وہ بچی جو اپنے پیشے کو عبادت سمجھ کر بہترین صلاحیتوں کا استعمال کر رہی تھی، اس کی ساری توجہ اپنی ظاہری شکل کو معاشرے کے مروجہ معیار کے مطابق ڈھالنے میں صرف ہونے لگی کہ کوئی محض اس بنیاد پر پھر سے نہ ٹھکرا جائے.

یہ محض ایک کہانی نہیں ہے، ہمارا معاشرہ بہو کے انتخاب میں اتنا ظاہری پرست ہو چکا ہے کہ قربانی کے جانور کی مانند لڑکی کے ایک ایک عضو کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے اور ظاہر کو ہی بنیاد بنا کر رشتے طے بھی کیے جا رہے ہیں اور رد بھی کیے جا رہے ہیں.

ہر ایک کو ماڈل گرل دکھائی دیتی بہو اور بھابھی چاہیے جسے اپنے گھر میں سجا کر وہ رشتہ داروں اور جاننے والوں کے سامنے گردن اونچی کر سکیں جیسے بھابھی کا حسن عطائے خداوندی ہونے کی بجائے ان کی محنت کا نتیجہ ہو.

اس سارے سلسلے میں دلچسپ اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لڑکے کی شکل و صورت آج بھی اتنی ہی نظرانداز کی جاتی ہے جیسے پہلے زمانوں میں کی جاتی تھی. ساری کانٹ چھانٹ اور جانچ پڑتال کے پیمانے لڑکیوں کے ہی وضع کیے گئے ہیں جو کہ ظاہری حسن سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتے ہیں.

لڑکے کی جیسی مرضی شکل ہو، بڑے دھڑلے سے اللہ کی بنائی ہوئی قرار دی جاتی ہے، جیسے لڑکیوں نے تو خود اپنے آپ کو تراشا ہے. نتیجتاً معاشرے کی تمام تر توجہ ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے تک مرکوز ہو رہی ہے.

جنت مکانی نانی اماں بتایا کرتی تھیں کہ ان کے زمانے میں بہو پسند کرنے کا معیار یہ ہوتا تھا کہ پیڑھی ( دیہات میں بیٹھنے کے لئے استعمال ہونے والی چوڑی چوکی نما چیز) پر بیٹھے تو پیڑھی بھر جائے، یعنی مضبوط جسامت کی فربہی مائل لڑکی پسند کی جاتی تھی کہ اگر وہ مضبوط کاٹھی کی ہو گی تو ہی ایک نئے خاندان کی جذباتی و جسمانی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہو گی.

شکل و صورت یا خوبصورتی کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا. والدہ کے مطابق ان کے دور میں بہو پسند کرتے یہ دیکھا جاتا کہ لڑکی کس قدر سلیقہ مند ہے، سلائی کڑھائی، بنائی جانتی ہے، کیونکہ وہ جس قدر ہنر مند ہو گی، گھر کو اتنے ہی عمدہ طریق پر سنبھالنے کے قابل ہو گی. شکل و صورت اور ظاہری حسن اس دور کا بھی پیمانہ انتخاب نہیں تھا.

یہ اس ترقی یافتہ دور کی فیوض و برکات ہیں جب سکرین کی چکا چوند نے لوگوں کی نگاہیں خیرہ کر دی ہیں اور ہر ایک کو محض چمکتی چیز ہی سونا دکھائی دے رہی ہے. ہر گھرانے کو ایسی بہو چاہیے جو دیکھنے میں خوبصورت ہو، روح اور نفس کی خوبصورتی اور نکھار نہ کسی کو نظر آتا ہے اور نہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.

لڑکی کم عمر ہو، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، گڑیا سی دکھائی دیتی ہو اور جنوں کی مانند کام بھی کرتی ہو، ہر وقت بنی سنوری بھی رہے اور گھر بھی چمچماتا رکھے، روٹی بھی گول بناتی ہو اور بریانی بھی ایک گھنٹے میں دم دے دیتی ہو، پوری دنیا میں بیوی کے انتخاب میں ایسے بھونڈے اور سطحی معیار کوئی نہیں رکھتا ہوگا جیسے ہماری قوم فخریہ اور پوری ڈھٹائی سے اپنا رہی ہے۔

قربان جائیے آپ کی سوچ اور طرزِ فکر کے …….. اسکرین پر جن خواتین کو دیکھ دیکھ کر آپ ویسی خاتون گھر میں لانے کے خواب سجا رہے ہیں کبھی ان کا طرزِ زندگی بھی معلوم کرنے کی زحمت اُٹھا لیجیے. ورزش، آرام کا خیال، ہر معاملے میں ماہرین کی خدمات کے ذریعے وہ کس جاں توڑ مشقت سے اپنے ظاہر کو بہتر بنانے میں جان مارتی ہیں کہ ان کا رزق اسی ظاہری جسم کی خوبصورتی سے وابستہ ہے. صفائیاں، دھلائیاں، کھانے، رشتہ داریاں ان سب امور کا ان کے مصنوعی طرزِ زندگی میں گزر تو ہے لیکن اس طرح فرض نہیں ہے جیسے آپ کی بیوی کا فرض عین قرار پاتا ہے.

اللہ رب العزت نے آپ کو نگران بنایا ہے. عقل و شعور میں برتر بنایا ہے تو اس کا حق بھی ادا کریں. بہو یا بیوی گھر میں آپ خاندان کی بڑھوتری اور بہتری کے لئے لائے ہیں یا لوگوں کو دکھانے کے لیے گھر کی خوبصورتی بڑھانے کو مجسمہ حسن لائے ہیں. خوبصورتی کو پسند کرنے سے انکار نہیں، ہر ایک کو خوبصورت چہرے اچھے لگتے ہیں، لیکن ظاہری خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہے.

اصل خوبصورتی تو دل اور روح کی پاکیزگی ہے، جس کا عکس چہروں کو اصل خوبصورتی عطا کرتا ہے. آپ کے پاس وہ نگاہ کیوں نہیں ہے جو اس پاکیزگی کا عکس ڈھونڈے اور اسے گھر لا کر اپنی نسلیں سنوارے. دینی احکام صرف چار شادیوں کے حوالے سے ہی آپ کو کیوں ازبر رہتے ہیں. بہو کے انتخاب میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کیوں آپ کو یاد نہیں آتا؟ :

” عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے. مال، حسب و نسب، خوبصورتی اور دین داری. اور پھر فرمایا کہ تم دین داری کو ترجیح دو.“ (صحیح بخاری)

ظاہری خوبصورتی کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے اور وجہ ترجیح دین داری کو بنانے کی تاکید کی گئی ہے. آج کتنے لوگ ہیں جو دین داری کو مقدم رکھ کر بہو منتخب کر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ بیٹیوں کے والدین اس مروجہ معیار کے مطابق بیٹیوں کو تراشنے میں ہلکان ہو رہے ہیں. بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں سے خود کفالت پروگراموں کے تحت بچیوں کے لیے ڈگریاں خریدنے سے لے کر، ان کی ظاہری شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے ماہرین حسن و آرائش کی خدمات مستعار لی جا رہی ہیں.

کہنے کی حد تک تو یقین ہے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن زمین پر ان جوڑوں کے ملاپ کے لیے ہر طرح سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے احکام کی صریح نافرمانی سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا. عورت جسے اللہ تعالیٰ نے چھپانے کی چیز قرار دیا ہے، اسے دکھانے کی چیز بنا دیا گیا ہے اور معاشرتی مجبوریوں کا نام لے کر خود کو دھوکا دیا جا رہا ہے.

حالانکہ یہ بھی اسی زمانے کا قصہ ہے کہ ایک دوست کے ڈاکٹر بھائی کے لیے ڈاکٹر لڑکی جو کہ پردہ کی پابند ہو، کو تلاش کیا جا رہا تھا. یہ شرط سن کر ایک کلاس فیلو نے اسے کہا کہ لگتا ہے تمہارے بھائی کا شادی کا ارادہ نہیں ہے، لیکن بھائی اپنی شرط پر ڈٹے رہے، وقت تو لگا لیکن انہیں ملک کی بہترین یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ، پابند پردہ لڑکی کا رشتہ مل گیا.

بات صرف اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی نیت کی ہے. وہ راستے بھی بناتا ہے اور منزلوں تک بھی پہنچاتا ہے. معاشرے کے نام نہاد اصولوں کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ کے بتائے ہوئے حقیقی منفعت رکھنے والے احکام پر عمل کرنے کا ارادہ تو کریں، نہ صرف آپ کی زندگی اور گھر بلکہ پورا معاشرہ خصوصاً بیٹیاں سکھ کا سانس لیں گی. اللہ رب العزت نے روح اور جسم پر مشتمل ایک مکمل انسان بنایا ہے، خدارا انہیں محض جسم سمجھ کر منتخب کرنا بند کر دیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “کچھ تو خدا کا خوف کریں !” جوابات

  1. Kalsoom razzaq Avatar
    Kalsoom razzaq

    Brillient…MashAllah

  2. Ramsha Raza Avatar
    Ramsha Raza

    Hmari society ki sb sy bari buraaee jic ky bary me ap ny bary achy sy likhha.. Allah hr ek ko hidayat dy ic bat ko smjhhny ki ..Ameen.. Jazakallah

  3. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    Bhtt bhttt acha topic hai ye.. Or ye cheez hmari society ka nasoor bn chuki hai..

    1. Neelam Sial Avatar
      Neelam Sial

      Ma’sha’Allah buhhttt buhhhtttt achaa likha ap ny. .ap ny Jo bayan kia ye sb burayan hmari
      societyy myn mojood hainn..Allah Pak hmarii society ko ye bat samjhny ki toufeeq attaa kry…ameenn

  4. عظمیٰ ساجد Avatar
    عظمیٰ ساجد

    ماشاء الله🌸
    استاذة اس نقطے کی بہت اچھے انداز میں وضاحت کی آپ نے ۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے ایسی برائی کو ختم کرے ، لوگوں کو عورت کی عزت کرنے والا بنائےاور مسلمان بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔آمین