بزرگ قرآن مجید پڑھتے ہوئے

کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ( پہلی قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرحافظہ خولہ علوی:

مولانا محمد یوسف رشتے میں میرے سسر محترم تھے اور مجھے ان کی سب سے چھوٹی بہو ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات میری منگنی کے موقع پر ہوئی جب وہ منگنی کے بعد، سفید کرتا اور تہہ بند میں ملبوس، خواتین کے پاس اندر کمرے میں تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں پیرانہ سالی کے باعث عصا تھا جو وہ مستقل استعمال کرتے تھے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے مجھے دعائوں سے نوازا۔

انہیں میرے حافظہ ہونے کی بے حد خوشی تھی اور اس وجہ سے وہ مجھے خوب دعائیں دیتے تھے۔ میرے حفظ کے استادِ محترم جناب قاری عبدالخالق صاحب کو بھی دعائیں دیتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان کو مستقلاً سفید کرتا پہنے اور تہہ بند باندھے ہی دیکھا ہے۔ وہ سادہ طبیعت و مزاج کے عالم باعمل اور درویش منش انسان تھے۔

میرے رفیقِ حیات محترم پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن صاحب ان کے سب سے چھوٹے فرزندِ ارجمند تھے۔ وہ ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ اور اسی مناسبت سے انہیں مجھ سے بھی خصوصی لگاؤ تھا۔

میری شادی کے بعد وہ مجھ سے روزانہ قرآن کریم پارہ یا نصف پارہ سنا کرتے تھے۔ میری پختہ منزل سے الحمد للّٰہ ان کا یہ روایتی نقطہ نظر بدل گیا تھا کہ بچیوں کو قرآن مجید حفظ نہیں کروانا چاہیے کیونکہ بچیوں قرآن کریم یاد نہیں رکھ سکتیں۔ خصوصاً شادی کے بعد گھر بار اور پھر اولاد کی مصروفیات میں وہ قرآن مجید بھلا دیتی ہیں۔

ویسے تو ان سے تعلق رکھنے اور ملنے والا ہر فرد یہ محسوس کرتا تھا کہ مجھ پر اُن کی نظرِ شفقت خصوصی طور پر ہے۔ ماشاء اللہ آج اباجی مرحوم کی اولاد کے علاوہ ان کے شاگرد اور احباب دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھانے والے ہیں۔ اور ان کی بلندی درجات کے لیے دعا گو ہیں۔

کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ جو انسان اس دنیا میں آیا، اس نے جانا بھی ہے اور اللہ کی مشیت ورضا یہی ہے کہ
” کل من علیہا فان “
یعنی ” اس دھرتی پر آباد ہر ذی روح کو فنا ہونا ہے۔“

اس سیرابِ زندگانی میں ۔۔۔ اے خَالِقِ کُنْ فَیَکُوْنَ
میری حقیقت ہے یہی ۔۔۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ

اباجی نے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے کے بعد، 1949ء میں راجووال کے علاقے میں جھونپڑیوں میں اور درختوں کے سایوں تلے علمِ دین کا کام شروع کیا تھا۔ کچی پکی چھوٹی سی مسجد سے انہوں نے ابتداء کی تھی۔ شروع میں انہیں لامحدود مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سارا علاقہ شرک و بدعت سے بھرا پڑا تھا لیکن اباجی کے اخلاص اور طویل اَن تھک محنت سے بالآخر راجووال کا سارا علاقہ قرآن و سنت کے نور سے منور ہوتا چلا گیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ اردگرد کے سارے علاقے شرک و بدعت کے گڑھ ہیں اور ان کے درمیان ” راجووال “ کا علاقہ قرآن و سنت کی تعلیم کا مرکز اور رشد و ہدایت کا منبع ہے۔ آج ان کا قائم کردہ طلباء کا مدرسہ ” دار الحدیث“ (جو ” جامعہ کمالیہ“ کے سابقہ نام سے بھی معروف ہے) ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عبیدالرحمٰن محسن صاحب کی سرپرستی میں بہترین اساتذہ کے ساتھ احسن طریقے سے دین و دنیا کی تعلیم و تبلیغ کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

وہ خود بھی بہترین استاد تھے اور عالِم باعمل، بقیۃ السلف، کردار کے غازی اور حق وصداقت کی علامت تھے۔ طلباء میں وہ ہردل عزیز تھے۔ حق بات پر وہ ڈٹ جاتے تھے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے مؤقف سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔ 1977ء میں ختم نبوت تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے انہوں نے جیل خانے کے زنداں میں اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی شب و روز بسر کیے تھے۔ وہ نبی رہبر و معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب اور جاں نثار امتی تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ سے وہ کئی دفعہ اپنی وفات کے متعلق بات کرتے رہتے تھے۔
” بیٹا! میری وفات کے بعد دو رکعت نفل پڑھ کر تم میرے لیے دعائے مغفرت کیا کرنا۔“ وہ مجھ سے یہ وعدہ لیتے تھے۔

” یہ وعدہ انہوں نے اپنی اولاد کے علاوہ اپنے بے شمار دوست احباب، عزیز و اقارب اور شاگردوں سے لے رکھا تھا۔“ امی جی بتاتی تھیں۔ پھر حالات ہمارے سامنے بھی تو پیش آتے تھے۔

چنانچہ آج ان کے لیے بہت سے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں، قبرستان جاکر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان کے درجات کی بلندی اور جنت الفردوس میں ان کے اعلیٰ مقام کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں کی گئی تمام دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ آمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی دفعہ وہ مجھے بلاتے اور پاس بٹھا کر میرا حال احوال اور پھر گھریلو حالات دریافت کرتے۔
” بیٹا! تمہیں محسن سے کوئی شکایت یا مسئلہ تو نہیں ہے؟
اگر ہے تو مجھے بتاؤ۔ میں صرف اس کا نہیں بلکہ تمہارا بھی باپ ہوں۔“ وہ مجھ سے رازداری سے پوچھتے تھے۔

” نہیں۔ بالکل نہیں۔“ میرا جواب ہمیشہ نفی میں ہوتا تھا۔
” بیٹا! اگر کوئی بات ہو تو مجھے بتادیا کرو۔ میں محسن سے اچھی طرح پوچھ لوں گا۔“ وہ پھر اصرار سے کہتے تھے۔
” نہیں، مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔“ میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا۔

” اچھا! اگر تمہیں اپنی ماں (یعنی ساس) سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتانا۔“ وہ مجھ سے مزید کہتے ۔
” نہیں، بالکل نہیں۔ مجھے امی جی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ وہ میرا خیال رکھتی ہیں۔“ میں ہمیشہ یہی جواب دیتی تھی۔

” بیٹا! پریشان نہ ہو اور نہ فکر کرو۔ تمہیں یہاں گھر میں یا راجووال میں کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتا دو۔ لاہور اور اس چھوٹے شہر میں کافی فرق ہے۔“ وہ کہتے تھے۔
” نہیں اباجان! کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس آپ ہمارے لیے اور بچوں کے لیے بہت زیادہ دعائیں کیا کریں۔“ میں ان کی تسلی کرکے انہیں دعاؤں کے لیے کہتی۔

میں سوچتی ہوں کہ ایسے سسر کتنے ہوں گے
جو اس طرح بہو کی دل جوئی کرنے والے ہوں!!!
جو بہو کی اتنی قدر کرنے والے ہوں کہ اس کے ہاتھوں پر اس لیے شفقت سے بوسہ دیتے ہوں کہ اس کے سینے میں حفظ قرآن کی عظیم سعادت موجود ہے!!!
جنہوں نے کبھی اپنی بہو کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کی ہو بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہو!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی وفات سے تقریباً پونے دو سال پہلے یعنی 2012ء میں گرمیوں میں انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ وہ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
” السلام علیکم ! کیا حال ہے اباجی؟“ میں نے سلام کیا۔
” وعلیکم السلام ! بیٹھو بیٹا ! ادھر میرے پاس بیٹھو۔“ انہوں نے جواب دے کر میرا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسہ دیا اور پھر مجھے اپنے پاس بٹھالیا۔

” آج طبیعت کیسی ہے اباجی؟“ میں نے حال احوال پوچھا۔
” بیٹا! آج میری طبیعت زیادہ خراب ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آج فوت ہو جاؤں گا۔ بیٹا! میرے مرنے کے بعد تم نے میرے لیے بہت زیادہ مغفرت کی دعائیں کرنی ہیں۔“ وہ جواب میں کہنے لگے۔

یہ بات سن کر میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ اگرچہ موت برحق ہے اور ہر کسی نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لیکن مجھے اباجی کی زبان سے یہ بات سن کربہت زیادہ پریشانی محسوس ہوئی۔ میں اپنی اس وقت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پھر میں اباجی کے پاس سے اٹھ کر کمرے میں آکر رونے لگی۔

اللہ تعالیٰ نے جس ذی روح کی جتنی زندگی لکھی ہو، اس نے اتنی سانسیں پوری کرنی ہوتی ہیں۔ اباجی کا آج سے دو سال پہلے جانے کا وقت مقرر نہیں ہوا تھا، لہٰذا انہوں نے دو سال مزید زندگی کے لیل و نہار بسر کیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے اور وہ بالآخر 14 جنوری 2014ء کو رات ایک بجے اپنے خالِق حقیقی سے جاملے۔ یہ بارہ ربیع الاول 1436ھ کی تاریخ اور منگل کا دن تھا جب علم و عمل کا یہ ماہِ کامل ڈوب گیا تھا۔

بارہ ربیع الاوّل کی عام تعطیل کے باوجود انسانوں کا گویا ایک سمندر تھا جو جنازے میں شامل ہونے کیلئے ہر جگہ اور ہر علاقے سے امڈا چلا آرہا تھا۔

جب ابا جی کو غسل دیا جا رہا تھا تو گھر کے اندر تعزیت کے لیے آنے والی کئی خواتین کہہ رہی تھیں۔
” باہر سے اندر گھر آتے ہوئے نامعلوم سی خوشبو آرہی ہے۔“

ڈاکٹر محسن صاحب غسل دینے والوں میں شامل تھے۔ وہ بھی بہت اچھی علامات بتارہے تھے۔
” اباجی کو نہلاتے وقت ان کا جسم نرم اور گرم تھا اور انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ان کو عام دنوں کی طرح غسل دے رہے ہیں۔ ان کا جسم اکڑا ہوا نہیں تھا، لہٰذا نہایت آرام سے ان کو غسل دیا گیا اور سفرِ آخرت کے لیے بڑی محبت اور دعاؤں کے ساتھ انہیں تیار کر دیا گیا۔“ بعد میں ڈاکٹر محسن صاحب نے بتایا ۔

’’اللھم اغفرلہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ ۔۔۔۔۔“

ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔ میت کی چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے تھے کیونکہ بہت زیادہ لوگ چارپائی کو کندھا دینے کے لیے خواہش مند تھے لیکن جمِّ غفیر کے باعث بانس ٹوٹ گئے۔ کسی بھی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمبولینس اور متعلقہ عملہ جنازہ کے ساتھ موجود تھا۔

جنازہ دو دفعہ پڑھایا گیا۔ پہلی دفعہ اباجی کی وصیّت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف صاحب نے رقت انگیز انداز میں نمازِ جنازہ پڑھائی۔ دوسری دفعہ ایک گھنٹے کے بعد، پروفیسر ثناءاللہ صاحب نے نمازِ جنازہ کی امامت کرائی۔

’’پیغام‘‘ ٹی وی چینل والوں نے ان کے جنازے اور تدفین کے مراحل کا ویڈیوکلپ اگلے روز رات کے آٹھ بجے ٹی وی پر دکھایا۔ ان کا چہرہ وفات کے بعد انتہائی نورانی لگ رہا تھا اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ سورہے ہیں۔

جاتے جاتے پوری اِک سنت وہ کر گئے
بارہ ربیع الاول کو وہ رحلت کر گئے

الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم الشان جنازہ نصیب کیا جو بڑے خوش قسمت اور متقی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آگے کے تمام مراحل بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مہربانی سے آسان فرمائے اور اباجی کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

اباجی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کے انتقال کی خبر جلد ہی ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی تھی اور قافلوں کے قافلے جوق درجوق جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچنے لگے تھے۔ جنازہ ہو چکا تھا لیکن جنازہ میں شرکت کے تمنائی دیر تلک پہنچتے رہے اور جنازہ میں شرکت نہ کرسکنے کا افسوس کرتے رہے۔

مختلف علمائے کرام نے متفرق شہروں اور مساجد میں اباجی کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کروایا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے خانہ کعبہ میں بھی اباجی کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھایا گیا۔الحمد للہ۔ آج اباجی کی وفات کے بعد مجھے جب ان کی یاد آتی ہے تو ساتھ ان سے کیا گیا وعدہ بھی یاد آجاتا ہے کہ ” میں نے دو رکعت نفل پڑھ کر ان کیلئے دعائے مغفرت کرنی ہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی وفات کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرچکا ہے لیکن تعزیت کیلئے ابھی تک قرب و جوار سے لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ (یہ مضمون فروری 2014ء میں لکھا گیا تھا)

جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے بے شمار لوگوں کو اداس کردیتے ہیں!!!

ہم رضائے حق پر راضی برَضا ہیں جو اپنے احکامات کی مصلحتوں کو خود سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے!!!

ہم نے مشتاق یونہی کھولا تھا یادوں کی کتابِ مقدس کو
کچھ کاغذ نکلے خستہ سے، کچھ پھول ملے مرجھائے ہوئے

بڑھاپے میں وہ گھر میں خواتین کی بکثرت آمد و رفت کی وجہ سے گھبراجاتے تھے۔ مرد مہمان بھی ان سے ملاقات اور دعائیں لینے کے خواہش مند رہتے تھے۔ صبح کے اوقات میں جب ان کی طبیعت بحال ہوتی تو وہ مہمانوں سے ملاقات کرلیتے لیکن عصر کے بعد ان کی طبیعت نڈھال ہوجاتی اور وہ مہمانوں سے ملنے کو ناپسند کرتے تھے اور کبھی کبھی ناراض بھی ہو جاتے تھے۔ اور اس مہمان کو ڈانٹ دیتے تھے۔

” میں نے فلاں شخص کو یہ بات کیوں کہہ دی تھی۔“ وہ طبیعت ٹھیک ہوتے ہی وہ پریشان ہو جاتے تھے۔

ندامت کی تیز چھریاں گویا ان کے کلیجے پر چلنے لگتی تھیں۔ پھر وہ اس سے معذرت کرتے حتی کہ بعض اوقات کسی کے گھر جانا پڑتا تو وہ بڑھاپے میں سفر کی ساری مشکلات کے باوجود وہ اس کے گھر جاتے۔
’’ بیٹا میری طبیعت خراب تھی اور مجھے پتہ نہیں چلا تھا۔ مجھے معاف کردو۔‘‘ وہ اس سے کہتے تھے۔

جب تک وہ معذرت نہ کر لیتے، بے چین سے رہتے اور متعلقہ افراد کی معذرت قبول کر لینے کے بعد ہی ان کو قرار آتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی ماشاءاللہ کثیر العیال تھے۔ ان کے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں جن میں سے اب تین بیٹے اور چار بیٹیاں حیات ہیں۔ ماشاء اللہ ساری اولاد نیک اور صالح ہے۔ دوبیٹے ڈاکٹر عبدالرحمٰن یوسف اور حافظ عبیداللہ احسن اور دو بیٹیاں (باجی عابدہ مرحومہ اور باجی امۃ اللہ مرحومہ) حافظِ قرآن ہیں۔ دو بیٹے Ph.D ڈاکٹر ہیں، ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف اور ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن۔ ان کی اولاد میں سے تین بچے، سب سے بڑے بیٹے عبداللہ سلیم اور دو بیٹیاں باجی عابدہ (غیر شادی شدہ) اور باجی امۃ اللہ ان کی زندگی میں ہی وفات پا چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے جوان اولاد کی وفات کے کڑے صدمے تیشہ دل پر سہے تھے۔
بھائی عبداللہ سلیم بالکل صحت مند اور توانا کڑیل جوان تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول راجووال میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے اور مدرسہ میں اباجی کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول تھے اور منتظم کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی بخوبی سرانجام دے رہے تھے۔ 1993ء میں کھڑے کھڑے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو کر منٹوں میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔

لیکن باجی عابدہ نے بڑی طویل بیماری کاٹی تھی۔ وہ گنٹھیا کی مریضہ تھیں اور تقریباً نو سال تک صاحبِ فراش رہی تھیں۔ حافظہ قرآن تھیں اور شدید بیماری کے ایام میں بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ عالمِ نزع میں وہ سورۃ یاسین کی تلاوت کر رہی تھیں اور تلاوت کرتے کرتے ہی ربِ کائنات کے حضور حاضر ہو گئی تھیں۔

پیاری مرحومہ باجی امۃ اللہ محترم مولانا عبدالستار حماد صاحب (آف میاں چنوں) کی اہلیہ محترمہ اور دس بچوں کی والدہ تھیں۔ کچھ عرصے سے بیمار تھیں اور اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے 2010ء میں انتقال کر گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

اباجی نے یہ سب صدمے انتہائی صبر و حوصلے سے برداشت کیے تھے۔ بھائی جان عبداللہ سلیم اور باجی عابدہ کا تو میں نے صرف نام اور تذکرہ سن رکھا ہے ( کیونکہ وہ میری شادی سے طویل عرصہ قبل وفات پا چکے تھے) البتہ باجی امۃ اللہ کی وفات میری شادی کے چند برس بعد ہوئی تھی۔ اس موقع پر میں نے اباجی اور امی جی دونوں کو ’’صبرِ جمیل‘‘ کی عملی تفسیر بنے دیکھا تھا۔ کیونکہ اصل صبر تو پہلی چوٹ اور تکلیف پر ہوتا ہے۔

اباجی محترم بڑھاپے کی وجہ سے کسی دوسری جگہ زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تھے۔ باجی کی وفات کے موقع پر نمازِ جنازہ اور تدفین سے فارغ ہو کر وہ رات کو گھر راجووال واپس پہنچے۔ پھر ہم نے اباجی کو اپنے کمرے میں بلند آواز میں دعائیں کرتے سنا (بڑھاپے میں اباجی عموماً اونچی آواز میں دعائیں مانگتے تھے)

” یا اللہ! میری بیٹی نیک تھی۔ آج میری بیٹی کی قبر میں پہلی رات ہے۔ یا اللہ! تو اس کو معاف کر دے، اس کی سب خطاؤں سے درگزر کر دے، اس کی قبر کی پہلی رات اپنی مہربانی سے آسان کر دے۔“ وہ اللہ تعالیٰ سے رو رو کر مناجات کر رہے تھے۔

اباجی دیر تک باجی کیلئے دعائیں کرتے رہے، خود بھی روتے کرلاتے رہے اور سننے والوں کو بھی رلاتے رہے۔

عبداللہ سلیم بھائی کی بیوہ، باجی صفیہ کی وفات بھی اباجی کی زندگی میں ہوئی تھی۔ باجی صفیہ بھی کافی عرصہ بیمار رہی تھیں۔ بھائی جان کی وفات کے بعد انہیں مختلف بیماریاں لاحق ہو گئی تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ماشاءاللہ وہ سب کی شادیوں کے فرائض سے فارغ ہو چکی تھیں۔ اباجی باجی صفیہ کو بھی بیٹی کی طرح ہی سمجھتے تھے۔ ان کی وفات کا صدمہ بھی انہوں نے نہایت حوصلے اور صبر سے برداشت کیا تھا۔ اور وہ باجی کے لیے بھی مغفرت کی بہت زیادہ دعائیں کرتے رہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے بچوں کے نام بھی اباجی نے اپنی پسند کے رکھے تھے۔ میری پہلوٹھی کی بیٹی عائشہ کی پیدائش پر وہ بہت خوش تھے۔ اس کا نام انہوں نے عائشہ تجویز کیا تھا
’’ میری عائشہ بیٹی بڑی ہو کر ان شاء اللہ محدثہ بنے گی۔‘‘ وہ کہتے تھے۔
سعد اور عفراء کی پیدائش پر بھی وہ بہت مسرور تھے۔
چھوٹے بیٹے عبداللہ سعدان کا نام بھی اباجی نے فائنل کیا تھا۔ اباجی سعدان کی پیدائش پر بہت خوش تھے۔ اور اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔
” سعد کو اللہ تعالیٰ نے ایک بھائی سعدان دے دیا ہے اور دونوں کی جوڑی ملا دی ہے۔“ وہ سب کو خوشی سے بتاتے تھے۔

اباجی خوشی و غمی کے مواقع پر دین کے احکام و فرائض اور معاشرتی رسوم و رواج کا بڑا واضح فرق رکھتے تھے۔
ہم نے اپنے سارے بچوں کا سنت کے مطابق ساتویں دن عقیقہ کیا ہے۔ ساتویں دن بیٹوں کے ختنے بھی کروائے ہیں اور دیگر تمام مسنون امور بھی سر انجام دیے ہیں۔ الحمد للہ۔اس کے علاوہ ہم نے اپنے سارے بچوں کی پیدائش پر (بیٹیوں سمیت) خوشی سے مٹھائیاں بھی بانٹی ہیں۔ اور اس میں بھی ہم نے بیٹے اور بیٹیوں کافرق روا نہیں رکھا۔

ہمارے بڑے بیٹے سعد کو وہ ” ولی اللہ“ کہتے تھے۔ آخری دنوں میں وہ بچوں کو اپنے پاس بلواتے تھے اور ان سے پیار بھری چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے تھے۔ بچوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے اور خوش ہوتے تھے۔ پھر بچوں کو پیسے دیتے تھے۔ بچے اباجی کے بلاوے پر بھاگم بھاگ ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتے تھے۔

ایک دفعہ ایک بچی اباجی کے پاس سے آئی۔ ’’ باجی! اباجی کو عبداللہ سعدان کا پورا نام آتا ہے۔‘‘ اس نے مجھے بڑی تعجب سے بتایا تھا تو میں یہ سن کر ہنس پڑی۔

’’اباجی نے ہی تو اس کا نام عبداللہ سعدان رکھا ہے۔‘‘ میرے بتانے پر وہ بڑی حیران ہوئی اور مجھے اس کی حیرانی پر ہنسی آتی رہی۔

اپنی چھوٹی سی پوتی عائشہ کو وہ گود میں اٹھا لیتے تھے اور اسے اپنے ساتھ کبھی کبھی مدرسے میں لے جاتے تھے۔ یہ ایسی غیر معمولی بات تھی جس کو سبھی نے نوٹ کیا۔

” اس سے پہلے آپ کے اباجان نے اپنے کسی بچے کو، نہ کسی پوتے پوتی کو اور نہ ہی نواسے نواسی کو گود میں اٹھایا تھا۔ یہ ’’اعزاز‘‘ پہلی دفعہ عائشہ بیٹی کو حاصل ہوا تھا۔“ امی جی محترمہ بتاتی تھیں۔

” میرے دادا جی مجھ سے اتنی محبت کرتے تھے۔“ آج عائشہ بڑی ہو کر اس بات پر بہت خوش ہوتی ہے۔ وہ ان کے لیے دعائیں بھی کرتی ہے۔

ایک دفعہ اباجی نے مجھے تین پاکٹ سائز قرآن مجید دیتے ہوئے کہا۔
’’ یہ عائشہ! سعد اور عفرآء کے لیے تحفہ ہیں۔ (یہ سعدان کی پدائش سے پہلے کی بات ہے) جب بچے بڑے ہو جائیں اور قرآن مجید پڑھ لیں، تب ان کو میری طرف سے یہ تحفہ دے دینا ‘‘۔ انہوں نے مجھے تاکید کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی کا حافظہ آخر تک بالکل صحیح سلامت تھا اور انہیں برسوں پرانی باتیں یاد تھیں۔ اباجی ” دارالحدیث “ کے قرب و جوار کے مستقل معاونین کا نہ صرف نام پتہ بتاتے اور لکھواتے تھے بلکہ ان کے باپ دادا کے نام بھی بتادیتے تھے۔اپنے بچوں، ان کے بچوں وغیرہ کے نام بھی یاد تھے اور سب کے نام لے لے کر دعائیں کرتے تھے۔

اباجی کی حیاتِ مستعار کے بے شمار پہلو ہیں اور ہر ایک میں وہ پورا اترتے دکھائی دیتے ہیں۔ صدقۂ جاریہ کی مندرجہ ذیل مختلف صورتیں ان کے نامۂ اعمال میں ریکارڈ ہو کر ان شاء اللہ ان کے لیے اجرو ثواب کا باعث رہیں گی۔
اول۔ نیک اور صالح کثیر اولاد
دوم۔ مدرسہ دارالحدیث، راجووال جس کی ذیلی کئی شاخیں ریاض الحدیث للطالبات، دار القرآن اور الفیصل اسلامک سنٹر کی صورت میں ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

مزید برآں، ان کی کوششوں سے قرب و جوار کے علاقوں میں کئی مساجد قائم ہوئیں جن میں ترغیب وترہیب سے لے کر عملی طور پر مالی تعاون کا سلسلہ جاری رہا۔ درس و تدریس، خطبات اور دروس کا ایک لمباسلسلہ ہے جو ان کے لیے نیکیوں کا باعث ہے۔

سوم۔ متفرق کتب کی تصنیف

اباجان نے کئی چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ بڑھاپے میں ’’ تحفۃ الجمعہ ‘‘ جامعہ کے دیرینہ مدرس مولانا رفیق زاہد کو املاء کروائی، اور اس کے بعد ڈاکٹر محسن صاحب نے ترتیب دے کر سارا کام کروایا۔
نیز ان کتب کو چھپواکر ان کی مفت تقسیم کار کے سلسلےبھی اباجی کے اعمالِ صالحہ میں شامل ہیں۔
” ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشا “

اباجان کی ساری اولاد اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دین کی خدمت سرانجام دے رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب جوانی میں اباجی کی شادی ہوئی تھی، تو اس وقت انہوں نے کوئی رسم و رواج منعقد نہ ہونے دیا تھا۔ سادگی سے ان کا نکاح ہوا اور حق مہر طے ہوا تھا۔

” وہ مجھے سورۃ نور کا ترجمہ اور تفسیر القرآن پڑھائیں گے۔ یہ میرا حق مہر طے ہوا تھا۔ سبحان اللہ۔“ امی جی بتاتی تھیں۔

” انہوں نے بعد میں مجھے سورۃ نور کا ترجمہ پڑھایا، تفسیر پڑھائی اور متعلقہ سارے احکام و مسائل سمجھائے۔ وہ نہ صرف پڑھاتے تھے بلکہ روز پچھلا سبق سنتے بھی تھے۔ میں خود بھی ان سے سوالات پوچھتی رہتی تھیں۔“ امی جی نے عملی صورت حال بیان کی۔

خیر یہ تو جوانی کی بات تھی جب ہمتیں اور حوصلے قائم و دائم تھے اور جوش و جذبات اپنے عروج پر تھے۔ وہ تو بڑھاپے میں بھی امی جی سے اصرار کرتے تھے۔
” مجھ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا کرو۔“ اباجی امی جی سے کہتے تھے۔

امی جی نے ان سے ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو طے شدہ وقت پر وہ خود امی جی کے پاس آجاتے اور امی جی کو اصرار سے وقت پر سبق پڑھنے کا کہتے۔ کچھ عرصہ تو امی جی ان سے ترجمہ کا سبق پڑھتی رہیں لیکن پھر تعلیم کا یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا کیونکہ کبھی امی جی کسی کام میں مصروف ہوتی تھیں، کبھی اباجی کے مہمان آجاتے تھے۔ تو کبھی امی جی کے پاس خواتین مہمان موجود ہوتی تھیں۔

” یہ ان کی دین دوستی اور علم سے محبت تھی کہ وہ مجھ سے آخری عمر میں بھی ترجمہ پڑھنے کیلئے اصرار کرتے تھے۔“ امی جی کہتی تھیں۔

اور امی جی کا بھی شوق ہے کہ اباجی کی وفات کے بعد بھی ترجمہ پڑھ رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب ’’ استاد ‘‘ اباجی کی بجائے کوئی اور ہے (اور وہ بھی بدلتی رہتی ہیں) الھم زد فزد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی مرحوم بالکل سادہ مزاج تھے لیکن شرعی احکامات پر عمل کے سختی سے پابند تھے۔ اپنی اولاد کی تربیت میں انہوں نے دینی احکامات پر عمل درآمد کا خصوصی خیال رکھا تھا۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے رشتے طے کرنے میں انہوں نے یہی باتیں مدّنظر رکھی تھیں۔

وہ سادگی پسند لیکن مہمان نواز تھے اور ان کی مہمان نوازی مسلمہ اور معروف تھی۔ اور گھر میں مہمانوں کی آمد ورفت بِلا حساب کتاب تھی۔ دن رات میں کسی بھی وقت مہمان آجاتے تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ (امی جان) نے اس معاملے میں ہمیشہ ان کا ساتھ دیا تھا۔ اور وہ ساری زندگی وقت بے وقت کے مہمانوں کی بے انتہا خدمت گزاری کرتی رہیں۔ پہلے بیٹیاں اور پھر بہوئیں ان کی معاون رہیں۔ اب وہ بھی دل کی مریضہ ہیں اور بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود بڑی باہمت خاتون ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کو صحت و تندرستی اور ایمان والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ اباجی نے مجھے اپنے پاس بلایا ’’بیٹا! تم نے دنیا سے کیا سبق سیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔

’’ دنیا کا بندہ نہ بنو اور اللہ کا بندہ بنو۔ دنیا والوں سے توقعات نہ رکھو اور صرف اللہ سے توقعات رکھو۔ یہی دین و دنیا کا سنہری سبق ہے۔‘‘ انہوں نے خود ہی کہا۔
میں نے اباجی کو خود اس قولِ زریں پر عمل کی پابندی کرتے ہوئے پایا ہے۔

میری شادی کے بعد شروع میں کئی دفعہ مجھے اپنے پاس بلا لیتے، حال احوال پوچھتے۔ پھر کبھی مجھ سے کوئی فون کرواتے، کبھی کوئی نمبر ملوا کر خود بات کرتے۔
” فلاں نمبر فون والی ڈائری میں نوٹ کر دو۔“ کبھی کبھی مجھے وہ یہ کہتے تھے۔
” فلاں کتاب لائبریری میں سے ڈھونڈ دو۔“ کبھی یہ کہتے تھے۔
” مجھے اس اخبار یا جماعتی رسالے میں سے یہ مضمون پڑھ کر سنادو۔“ وہ کبھی یہ فرمائش کرتے تھے۔

” بیٹا ! مجھے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مختصر حالاتِ زندگی کسی کتاب سے ڈھونڈ کر تحریر کر کے دینا۔“ ایک دفعہ انہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی تھی۔
وہ اس طرح کے کئی چھوٹے موٹے علمی کام مجھ سے کرواتے تھے اور میں خوشی سے یہ کام سر انجام دیتی تھی۔

اباجی انتہائی صاحبِ بصیرت تھے، ایک دفعہ کی ملاقات میں ہی پہچان لیتے تھے کہ یہ انسان کس طبیعت اور مزاج کا مالک ہے؟ ان کی کہی گئی کوئی بات، حکم یا فیصلے کی حکمت بسا اوقات بعد میں واضح ہوتی تھی۔

میں جب بھی لاہور اپنے والدین کے گھر جاتی تو جانے سے پہلے تاکید سے مجھے کہتے تھے کہ
” اپنے والد صاحب کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے ان کا حال پوچھنا۔ میں ان کے لیے ہمیشہ بہت زیادہ دعائیں کرتا ہوں۔ ان کو یہ باتیں ضرور بتانی ہیں۔“

میرے والد محترم مولانا عبدالوکیل علوی صاحب بھی ان سے بہت زیادہ قلبی لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ بھی ضرور ان کا تفصیلی حال احوال دریافت کرتے تھے۔
” انہیں میراسلام کہنا اور دعاؤں کے لیے بھی ضرور درخواست کرنا۔“ میرے والد صاحب بھی کہتے تھے۔

ابا جی میری والدہ محترمہ کے بھی قدر دان تھے۔ وہ کہتے تھے کہ
” معاشرے میں آپ کی والدہ (پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ) جیسی صاحب ایمان اور قابل خواتین بہت کم ہوتی ہیں جو مختلف پلیٹ فارم پر اپنی ذمہ داریاں اتنے احسن طریقے سے ادا کررہی ہوں۔ میری بہن کو بھی میرا سلام کہنا۔“

میکہ سے واپسی پر اباجی بطورِ خاص مجھ سے میرے والدین کریمین کا حال احوال تفصیلاً دریافت کرتے اور ان کے متعلق گفتگو کرکے خوش ہوتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی نے اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے رشتے خالصتاً دین کی بنیاد پر کیے۔ انہوں نے رشتوں کے لیے سنت نبوی کے مطابق صرف اور صرف دینداری کو ترجیح دی۔ اور دولت، حسب و نسب یا حسن و جمال کو کبھی رشتہ داری کی بنیاد نہ بنایا۔ ہمیشہ صلہ رحمی کی اور آخر دم تک اپنی اولاد کو بھی صلہ رحمی کی تاکید کرتے رہے۔

اباجی کا عقیدہ و منہج مکمل طور پر قرآن و سنت پر مبنی تھا اور اس معاملے میں انہوں نے کبھی کسی بات پر کمپرومائز (Compromise) نہیں کیا تھا۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی تعلیمات، خطبوں اور درس سے ایمان اور عقیدہ کی اصلاح کی نعمت حاصل ہوتی تھی۔

یہ بات مجھے خود اباجی نے بتائی تھی کہ ” ہمارے علاقے میں کئی ایسے قدر کرنے والے لوگ موجود ہیں جو میری مخلصانہ خدمات کے بے حد قدردان ہیں اور زبان سے کہتے اور عمل سے سمجھاتے ہیں کہ ’’ باباجی یوسف کا پسینہ ہمارے خون سے بڑھ کر قیمتی ہے۔“

حالات و واقعات کے لحاظ سے وہ درس و تدریس، جمعہ اور انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں میں حاضر شرکاء سے ہم کلام ہوتے تھے اور ان کی طبیعت و مزاج کے لحاظ سے ان سے گفتگو کرتے تھے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ ہر بندے کو کوئی نہ کوئی نصیحت ضرور کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر ان کے جنازے میں شمولیت کے لیے لوگوں کی حاضری بے حساب تھی۔ ہو کوئی ان کے جنازے کو کندھا دینے کیلئے بے چین و بے قرار تھا۔

ہر لفظ میں محبت، ہر لفظ میں دعا
مقروض کر دیا ہمیں تیرے خلوص نے

اباجی سفرو حضر میں اذکارِ مسنونہ اور دعائوں میں مصروف رہتے تھے۔ قرآن مجید کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے تھے۔ ان کا تعلق باللہ بہت مضبوط تھا۔ ماشاءاللہ مستجاب الدعوات تھے۔ جب تک ان کی ہوش سلامت تھی، وقتاً فوقتاً مجھے بلا کر مجھ سے کوئی مضمون یا واقعہ وغیرہ سنتے تھے۔ کبھی اپنے بیٹوں اور کبھی کسی طالب علم سے اخبار بھی سنتے تھے۔ آخری عمر میں کثرت سے دعائیں کرتے اور اذکار کرتے رہتے تھے۔ قرآنِ مجید سے لگاؤ مزید بڑھ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ احادیث شریف اور سنت نبوی سے گہرا قلبی لگاؤ رکھتے تھے۔
اپنی وفات سے تقریباً دو سال پہلے انہوں نے اپنے بزرگ دوست اور شاگرد حاجی محمد علی جوہر صاحب کو بلایا۔
’’میں صحیح بخاری کی مولانا داؤد راز والی شرح مکمل اور لفظ بہ لفظ سننا چاہتا ہوں۔ وہ تم مجھے سنایا کرو۔‘‘ اباجی نے ان سے کہا۔
” جی ضرور۔ یہ تو بڑا نیکی کا کام ہے۔“ حاجی صاحب بخوشی راضی ہو گئے۔

انہوں نے اباجی سے وقت مقرر کر لیا اور پھر اس نیک کام کا آغاز ہو گیا۔ حاجی صاحب روز مقررہ وقت پر تشریف لاتے اور اباجی کو شرح صحیح بخاری سناتے۔ اس طرح اباجی نے کافی طویل عرصہ ان سے دائود راز والی مکمل شرح، لفظ بہ لفظ، آخری عمر میں سماعت فرمائی تھی۔ ماشااللہ لاقوۃ الا باللہ۔

حاجی صاحب اباجی کو جب شرح بخاری سنا رہے ہوتے تو ان کی آواز کمرے سے باہر تک آرہی ہوتی۔ تمام اہل خانہ بشمول خواتین اور بچے، خوب اچھی طرح کلاس کے متعلق جانتے تھے۔

” آپ کے اباجی اور حاجی جوہر صاحب کی بخاری شریف کی کلاس جاری ہے۔ اس لیے کسی قسم کا شور شرابہ یا کسی اور طرح کی ڈسٹربنس والا کام نہیں ہونا چاہیے۔“ امی جی بڑے دھیان گیان سے تب گھر میں شور شرابہ نہیں ہونے دیتی تھیں۔

کلاس کے بعد اباجی ان کی مہمان نوازی بھی باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔ کبھی دودھ، کبھی چائے، کبھی فروٹ تو کبھی کھانا وغیرہ۔ جیسے ساری زندگی ان کی روٹین رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی بڑے عاجزی پسند واقع ہوئے تھے۔ علم و عمل میں کامل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ القابات پسند کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے رعب اور دبدبہ رکھا تھا۔

میرے والد محترم اپنے زمانۂ طالب علمی کے ایام کو یاد کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ ” جب میں (غالباً جامعہ قدس، لاہور میں) زیرِ تعلیم تھا تو باباجی محمد یوسف طلبہ کا امتحان لینے کے لیے ہمارے ادارے میں وقتاً فوقتاً آیا کرتے تھے۔ اس وقت ادارے میں دھوم مچی ہوتی تھی کہ باباجی محمد یوسف راجووال والے امتحان لینے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ اور پھر باباجی تشریف لاتے تھے اور طلباء کا امتحان لیتے تھے۔‘‘

ان کی شخصیت بے انتہا رعب و دبدبے والی تھی، لہٰذا طلباء فطری طور پر ان سے ڈرتے تھے لیکن وہ بڑی شفقت سے امتحان لیتے تھے اور اچھا امتحان دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ اپنی باتوں سے قابل طلباء میں آگے بڑھنے کا ہمت و حوصلہ خصوصی طور پر پیدا کر دیتے تھے۔

اباجی آخری عمر میں بھی طلباء، اساتذہ اور ملاقات کے لیے آنے والے علماء وغیرہ سے کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا علمی سوال کرتے رہتے تھے۔ درست جواب پر خوش ہو کر حسب توفیق انعام ضرور دیا کرتے تھے اور اس کے لیے دعائیں بھی کرتے رہتے تھے۔

” ابتدا میں جب طلباء کی تعداد ساٹھ ستر کے لگ بھگ تھی تو ان کے لیے کھانا گھر میں پکتا تھا۔ بعد میں جب تعداد مزید بڑھ گئی تو پھر مدرسہ کے لیے باورچی کا بندوبست کیا گیا۔ جو طالب علموں کے لیے کھانا پکاتا تھا۔“ امی جی بتاتی ہیں۔
” لیکن مہمان داری کا سلسلہ ہمیشہ گھر میں ہی چلتا رہا ہے۔“ یہ ہمارے سامنے معاملہ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ادارے کے طلباء اور اساتذہ سے محبت کرتے تھے اور ان کے فلاح و بہبود کے ” حریص“ رہتے تھے۔ لہٰذا ان سے ہر طرح کا تعاون کرتے تھے۔

” وہ سردیوں میں اپنے گھر سے دیسی گھی میں سوجی سے بنی ہوئی پنّیاں بنوایا کرتے تھے اور صبح سویرے طلباء کے اٹھنے سے پہلے ان کے سرہانے دودوپنیاں رکھ دیا کرتے تھے۔ جب طلباء سو کر اٹھتے تھے تو پنیاں دیکھ کر بے حد خوش ہوتے تھے اور بڑے شوق سے کھاتے تھے۔“ امی جی نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا۔

” آپ کے اباجی طالب علموں کا ایک باپ کی طرح خیال رکھتے تھے۔“ امی جی کہتی تھیں۔

ان کی علم دوستی آخر دم تک قائم و دائم رہی۔ آخری عمر میں ” کتاب الجمعہ “ خود املاء کروا کر لکھوائی اور پھر اس کو ڈاکٹر محسن صاحب سے بہت اچھے طریقے سے شائع کروایا۔

عبدالقادر حصاری کے فتاویٰ ’’ فتاویٰ حصاریہ، مقالات علمیہ ‘‘ کے نام سے سات ضخیم جلدوں میں شائع کروائے جو ان کیلئے صدقہ جاریہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر محسن صاحب اباجی اور امی جی دونوں کے بے انتہا پیارے بلکہ راج دُلارے بیٹے ہیں۔ وہ بھی لازماً وقت نکال کر اباجی اور امی جی کے پاس بیٹھتے، ان کی مالش کرتے، ان کو کھانا کھلاتے، ان کی خدمت کرتے۔ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے اور ان کو وقتاً فوقتاً ڈاکٹرز کو حسبِ ضرورت چیک کرواتے رہتے ہیں تاکہ اباجی کو صحت مند ہونے کی تسلی رہے۔
” اباجی! آپ کو کوئی سیریس بیماری نہیں ہے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب انہیں تسلی دیتے تھے

” ماشاءاللہ اس عمر میں بھی ان کو کوئی بیماری یا سیریس مسئلہ نہیں ہے مثلاً شوگر، بلڈ پریشر، دل کا مسئلہ یا کوئی اور تکلیف لاحق نہیں ہے۔ اب اس بڑھاپے میں اتنی کمزوری تو ہونی ہی ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔“ ڈاکٹرز بھی چیک اپ کے بعد یہی کہتے تھے۔

اباجی نے عبید صاحب کی تربیت پر بڑی توجہ دی تھی، تعلیم کے علاوہ تزکیۂ نفس پر بھی ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔ مدرسہ میں درس و تدریس اور پھر انتظامی ذمہ داریوں کے سارے معاملات اباجی نے انہیں بتدریج اور بڑی توجہ و محنت سے سکھائے تھے۔ انہیں پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہی جمعہ پڑھانے، درس اور خطبہ دینے اور دیگر کاموں پر حسبِ توفیق لگا دیا تھا۔

بعد میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اباجی کی راہنمائی میں ” دار الحدیث “ کا مکمل انتظام و انصرام اور دیگر معاملات احسن طریقے سے سیکھ گئے تھے۔

ڈاکٹر محسن صاحب اباجی سے اجازت لے کر ہر کام کرتے تھے۔ ان کے پیر و مرشد، استاد و راہنما سب کچھ ان کے والدین تھے۔
” میں نے اپنے اوپر فرض کر رکھا ہے کہ وہ جس کام کی اجازت یا حکم دیں، میں نے وہ لازمی کرنا ہے اور جس سے روک دیں، میں نے اس سے لازماً رک جانا ہے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب کہتے تھے۔
اور اللہ جل و جلالہ کا حکم بھی تو یہی ہے!!!

آخری سالوں میں اباجی ڈاکٹر صاحب کو تبلیغی پروگراموں اور درس وغیرہ کیلئے سفر پر زیادہ جانے سے منع کردیتے تھے۔
” محسن بیٹا! تم بس میرے پاس رہا کرو۔ مجھے تمہاری موجودگی سے خوشی ہوتی ہے۔‘‘ ابا جی ان سے کہتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب سفر پر روانہ ہونے سے پہلے، حتی کہ روزانہ کالج ڈیوٹی پر جانے سے بھی پہلے اباجی سے ضرور ملاقات کرتے اور واپسی پر ان سے ملاقات کر کے انہیں سفر کی تمام روداد سناتے۔ اور اباجی کیلئے لائی ہوئی ان کی ضرورت یا پسند کی کوئی چیز مثلاً فروٹ، دوائی شہد وغیرہ ضرور پیش کرتے جس سے وہ خوش ہوتے تھے۔ وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی چیز ان کی خدمت میں لے کر ہی حاضر ہوتے تھے۔ اگر باہر سے نہ لاسکتے تو گھر میں مجھ سے کہہ کر کوئی چیز اباجی یا امی جی کی خدمت میں پیش کرتے۔

” محسن بیٹا! جب کبھی تم سفر سے واپس آئو تو میرے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آیا کرو۔ جس طرح تم اپنے بچوں کے لیے لے کر آتے ہو۔‘‘ اباجی خود بھی کہتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حقیقت یہی ہے کہ بڑھاپے میں بزرگ بچوں کی طرح ہو جاتے ہیں اور بچوں کی طرح ہی اپنے اولاد سے اپنے لیے وقت اور محبت کے طالب ہوتے ہیں۔ الحمدللہ ڈاکٹر صاحب نے اباجی کی مالی و جسمانی ہر لحاظ سے خدمت کی۔ اباجی بھی انہیں دعائیں دیتے تھکتے نہیں تھے۔ ان کا اباجی کی دعاؤں پر اندھا یقین تھا اور ہے۔

’’جس جس بات کی اباجی نے مجھے دعائیں دی ہیں، مجھے یقینِ کامل ہے کہ وہ ضرور پوری ہوتی ہیں اور ان شاء اللہ پوری ہوتی رہیں گی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب پورے یقین سے کہتے ہیں ۔

’’محسن بیٹا! جب تم میرے پاس بیٹھتے ہو تو میری آدھی بیماری ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ اباجی ان سے کہتے تھے۔

بڑھاپے میں اباجی ہر چھوٹی بڑی بات ان کو بتاتے تھے جیسے چھوٹے بچے اپنے باپوں کو بتاتے ہیں۔

میرے ذہن میں اباجی کی یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، کبھی ایک تو کبھی دوسری بات ذہن کے جھروکوں سے گاہے بہ گاہے جھانک رہی ہے مگر تنگی داماں (بلکہ تنگی صفحات) کا معاملہ بھی پیش نظر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب اباجی کی وفات کے بعد امی جی کی بھی اسی طرح خدمت کرتے ہیں۔ روزانہ مغرب کے بعد ان کے پاس بیٹھتے ہیں، ان کی ٹانگوں، بازو وغیرہ کی حسبِ ضرورت مالش کرتے ییں۔ کھانے اور دوائی وغیرہ کا پوچھتے ہیں اور بوقت ضرورت کھلاتے بھی ہیں۔ علاج معالجہ، غذا اور دیگر ضروریات کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔ روپے پیسے کی امی جی کو کمی نہیں ہونے دیتے، خواہ وہ مہمانوں کے اخراجات کیلئے ہوں یا تحفے تحائف دینے کے لیے۔

امی جی عرصۂ دراز سے دل کی مریضہ ہیں۔ ڈاکٹر محسن صاحب ہر مہینے ان کو چیک اَپ کیلئے اوکاڑہ ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی صاحب یا ڈاکٹر علیم الدین کے پاس خود لیکر جاتے ہیں۔
” اباجی کی دعائوں کی طرح امی جی کی دعائوں کی قبولیت کا بھی مجھے مکمل یقین ہے۔“ وہ کہتے ہیں۔

2014ء میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر محسن صاحب کو اور مجھے حج کرنے کی توفیق نصیب فرمائی تو پیچھے امی جی ہماری عدم موجودگی میں بچوں کی طرح پریشان رہیں۔

’’میں محسن کے بغیر اتنے دن کیسے گزاروں گی؟‘‘ وہ حج کیلئے ہماری روانگی سے پہلے بھی کہتی تھیں۔
ہماری واپسی پر امی جی کِھل اٹھیں۔

” میں نے حج کے دن ’ گنتی ‘ کرکے پورے کیے ہیں۔“ امی جی نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا۔
اللہ تعالیٰ امی جی کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے، ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین
’’رب ارحمہما کما ربینیٰ صغیراً‘‘

اب امی جی بھی 19 جنوری 2019ء کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب، رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ طویل بیماری کے باوجود وہ باہمت اور باحوصلہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہی تھیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اباجی اور امی جی کی مغفرت فرمائے، ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کے اعمالِ صالحہ کو، ان کی اولاد اور شاگردوں کو ان کیلئے صدقہ جاریہ بنائے اور اگلے سارے مرحلے ان کیلئے آسان تر کرکے انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ( پہلی قسط )” جوابات

  1. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ بہت خوب تحریر ہے. ایسے بزرگوں کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثالیں ہیں.
    اللہ تعالیٰ مولانا یوسف مرحوم کی مغفرت فرمائے. آمین ثم آمین یا رب العالمین

    1. Ilyas Avatar
      Ilyas

      ماشاءاللہ!
      بہت اعلیٰ!
      پڑھ کر بہت اچھا لگا. ایسے نیک بزرگوں کے حالات سے واقفیت ضرور ہونی چاہیئے.
      اللہ تعالیٰ مولانا یوسف کی مغفرت فرمائے. آمین ثم آمین یا رب العالمین

  2. Tahir Avatar
    Tahir

    ماشاء اللہ. بہت اعلیٰ!
    پڑھ کر بہت اچھا لگا.
    اپنے بزرگوں کی یاد آتی رہی.

  3. تعظیمہ امجد Avatar
    تعظیمہ امجد

    ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے بابا جی یوسف بہت اچھے انسان تھے جب انکی وفات ہوی تو عجیب کہرام برپا تھا گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم دہکھنے کے قابل تھا جنازے میں بزرگ لوگ بھی موجود تھے جو خود کو بابا جی کا شاگرد بتا رہے تھے
    وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
    اک شحص سارے زمانے کو ویران کر گیا
    اللہ بابا جی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ آمین ثم آمین

    1. اسعد Avatar
      اسعد

      ماشاء اللہ بہت اعلیٰ!
      اچھی کاوش ہے. ایسے نیک بزرگوں کے حالات اور ان کی کاوشیں ضرور منطر عام پر آنی چاہیے.
      اللھم اغفر له و ارحمه.