ماسک اور سکارف پہنے مسلمان خاتون دعا مانگ رہی ہے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (7)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :

پہلے یہ پڑھیے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 1 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 2 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 3 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 4 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 5 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 6 )

شکر گزاری وہ عظیم الشان سر چشمہ صفت ہے جس سے باقی اوصاف حمیدہ کی شاخیں پھوٹتی ہیں. اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس ، شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے. اپنے عبد ہونے کی پہچان سے اطاعت کے لیے روح بے تاب ہونے لگتی ہے. اللہ تعالیٰ سے انابت فزوں تر ہونے لگتی ہے، اپنی کم مائیگی کا احساس مغفرت کی طرف راغب کرتا ہے . اور مالک کائنات کے سامنے اپنا دامن پھیلائے رکھنے میں عافیت نظر آتی ہے.

اللہ رب العالمین کی شکر گزاری سے انسان کی روح خوش اور زندہ رہتی ہے. جب روح پژمردہ ہوتی ہے تو انسان بے چین و بے کل رہتا ہے اور جب روح کی بےکلی حد سے گزر جاتی ہے توانسان ذہنی ، نفسیاتی اور روحانی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے. اور جب ذہنی پراگندگی، روحانی و نفسیاتی پیچیدگی مایوسی میں بدل جاتی ہے تو انسان خودکشی جیسی قبیح حرکت پہ آمادہ ہوجاتا ہے.

دنیا میں خود کشی کرنے والے لوگوں کی زیادہ تعداد اللہ پہ ایمان نہ لانے والوں کی ہوتی ہے. مسلم معاشرے میں اس کا رجحان کم ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کو اللہ رب العالمین نے اپنے قریب کرنے اپنا شکر گزار بندہ بنانے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کر دیا ہے. کلمہ گو انسان کی زبان سےاکثر ” الحمدللہ “ ادا ہوتا ہے. وہ شعوری ہو یا لاشعوری ، عادتاً ہو یا فہم کے ساتھ ،اللہ کی تعریف اور اس کی شکر گزاری کے کلمات کے اثرات ضرور ہوتے ہیں.

مسنون دعائیں اور کلمات جو ہم صبح سے رات تک مختلف مواقع پہ اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں ان میں الحمد للہ کا کلمہ ذکر موجود ہے. نیند سے بیدار ہوکر الحمد للہ ، سے زبان تر اور روح شاد ہوتی ہے تو سارا دن اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ آپ رفع حاجت کے بعد جو آسودگی محسوس کرتے ہیں اس پہ بھی ” الحمدللہ الذی عافانی “ کہہ کر اپنے رب کی شکر گزاری کرتے ہیں.

اگر حالات اچھے نہیں ہیں تو بھی ” الحمدللہ علی کل حال و أعوذ باللہ من حال اهل النار “ کہہ کر اپنے رب سے خوش اور راضی رہتے ہیں. یہی الحمدللہ کہنا زندگی کے ہر موڑ پہ مؤمن کی روح کی آبیاری کرتا ہے. اور موت ، قبر ، برزخ حساب کی مشکل گھاٹیوں سے گزر جب اپنی منزل ابدی گھر جنت میں پہنچتا ہے تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو ترانہ گاتا ہے وہ بھی الحمدللہ سے ہی شروع ہوتا ہے.

( وقالوا الحمدللہ الذی صدقنا وعدہ و اورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشا فنعم اجرالعالمین)
[Surat Az-Zumar 74]
اور جنتی لوگوں کی زبان پر اللہ کی حمد وثنا وہاں بھی جاری رہے گی اور ان کی ہر بات کے آخر میں نعرہ تحمید الحمد للہ رب العالمین ہوگا
(دعواھم فیھا سبحانک اللھم و تحیتھم فیھا سلام و آخر دعواھم ان الحمدللہ رب العالمین)
[Surat Yunus 10]

گویا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف دنیا سے آخرت تک کے سفر میں ہماری ساتھی ہے. صبح و شام کے ازکار سے لے کر ساری فرض عبادتیں اللہ کے حضور شکرگزاری کے لیے ہیں۔ نماز دن میں پانچ بار رب کے حضور حاضر ہوکر دن بهر کے ہر پہر کی نعمتوں پہ شکرگزاری کا اظہار ہے ۔ روزہ قرآن پاک جیسی عظیم نعمت کا شکرانہ ہے . زکوة مال کا شکرانہ ہے تو حج امت مسلمہ کے فرد ہونے پہ اظہار تشکر ہے.
شکر گزاری قول و عمل دونوں سے ہوتی ہے. اور حضوری قلب اس کی جان ہے.

مسنون اذکار میں اللہ رب العزت کی بہترین الفاظ میں ثنا کی گئی ہے. بہترین سے بہترین الفاظ کا انتخاب کرنا ذکر اللہ میں حسن پیدا کرتا ہے. آخر میں مومن اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کی تعریف اور شکرگزاری کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے تو اظہار کرتا ہے
اللهم لا احصی ثناء علیک أنت کما اثنیت علی نفسک
” اے اللہ ہم تیری حمد وثنا کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں ، آپ ویسے ہی ہیں جیسے کہ آپ اپنے لیے خود حمد وثنا پسند فرمائیں اور جو آپ کے شایان شان ہو۔

اللہ رب العزت کی محبت، توجہ، مہربانی، رحمت قرب ، فضل وکرم، مغفرت اسی نسبت سے حاصل ہوگی جتنی بندے کے اندر شکر گزاری کا جذبہ خالص ہوگا. جب اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے تو ان عنایات پہ شکرگزاری کے احساسات ہر احساس پہ غالب رکھنے کی کوشش کی جانی لازمی ہے۔ ہمارے پیارے رب نے فرمایا کہ نعمتوں کو شمار کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے مگر شکر گزاری کا امتحان لینے کے لئے چند، صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر مشکلات ضرور لائی جائیں گی.غور کا مقام ہے نعمتوں کا شمار ناممکن ہے اور امتحان صرف چند چیزوں سے.

( ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات وبشرالصابرین)
[Surat Al-Baqarah 155]

شکر گزاری پہ نفس کو قائم رکھنے کا ایک ہی کار گر نسخہ ہے کہ دنیا کے معاملے میں اپنے سے کمتر کو نگاہ میں رکھو اور دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر کو اپنا ٹارگٹ بناؤ.

أبو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی صفت الله تعالیٰ نے فرمائی کہ وہ ہر حال میں” شاکر لانعمہ “ ( اپنے رب کی نعمتوں پہ شکر گزار ) تھا تو ” اجتبہ “ ( منتخب کر لیا ) کا مرتبہ ملا.
اور اسے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی دی گئی

( ان ابراھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا و الم یک من المشرکین 0 شاکرا لانھمہ اجتباہ و ھداہ الیٰ صراط مستقیم )
( واتیناہ فی الدنیا حسنۃ وانہ فی الاخرۃ لمن الصالحین)
[Surat An-Nahl (120-122.).

الحمد للہ علیٰ کل شئی أعطانا
اے اللہ جو بھی نعمت ہمیں دی ہے یا دنیا میں کسی کو بھی دی ہے وہ سب تیری طرف سے سب کا تو مالک ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات و کمالات میں تو وحده لا شریک ہے..لک الحمد کلہ ولک الشکر کلہ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں