ڈاکٹر زواگو اور لارا

ڈاکٹر زواگو ۔۔۔۔ ناول جس نے ایک پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا (2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

پہلے یہ پڑھیے
ڈاکٹر زواگو ۔۔۔۔ ناول جس نے ایک پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا (1)

٭ نوبیل انعام ملا تو……؟

اکتوبر میں بورس پاسترناک کو اس ناول کے سبب نوبیل انعام (1958ء) ملا، اس کا قصہ بھی عجب افسوس ناک ہے۔ جب انھیں نوبیل انعام ملنے کی خبر پھیلی تو پوری دنیا ’ڈاکٹر زواگو‘ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ نوبیل انعام کا اعلان ہونے کے بعد اگلے چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں کی تعداد میں یہ ناول فروخت ہوا۔ دوسری طرف سوویت یونین میں اس ناول کے خلاف شدید غم و غصہ پھوٹ پڑا۔ بورس کو غدار کہا گیا، اسی طرح کے مزید کئی ناموں سے انھیں یاد کیا جانے لگا، ان پر مختلف الزامات عائد کئے گئے۔ بورس اس ساری صورت حال سے شدید مایوس ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے سوویت یونین کے سربراہ نیکیتا خروشیف سے اپیل کی:

”میں اپنی پیدائش، اپنی زندگی اور اپنے نام اور کام، سب کو روس کا صدقہ سمجھتا ہوں۔ میں یہ سوچ نہیں سکتا کہ روس کے باہر، روس سے الگ رہ کر میری کوئی حیثیت ہو سکتی ہے۔ مجھ سے چاہے جو غلطی سرزد ہوئی ہو لیکن مجھے یہ گمان بھی نہ تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک سیاسی مہم کا مرکز بنتے دیکھوں گا۔ مادر وطن سے باہر رہنا، اس کی سرحدوں سے دور ہو جانا، میرے لئے موت سے کم نہیں ہے۔ میری التجا ہے کہ مجھے ملک سے باہر چلے جانے پر مجبور نہ کیا جائے اور یہ سخت کارروائی، یہ سزا، مجھ پر نہ آزمائی جائے۔ میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سوویت ادب کی تھوڑی بہت خدمت ضرور کی ہے اور آئندہ بھی میں اس کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہوں۔“

اس کے باوجود ملک میں مصنف کے خلاف فضا شدید رہی، نتیجتاً بورس نے یہ انعام قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ انھوں نے انعام دینے والی کمیٹی کو لکھا:

”میں جس سوسائٹی کا فرد ہوں، اس میں اس اعزاز کو جو معنی دیے گئے ہیں، ان کی بنا پر میں یہ انعام قبول کرنے سے معذور ہوں۔“
اس کے باوجود سوویت میڈیا (جو صرف سرکاری ہی تھا) نے بورس پاسترناک کو مسلسل استہزا کا نشانہ بنایا۔ حتیٰ کہ بورس پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوکر 30 مئی 1960ء کی شام انتقال کر گئے۔ ان کے آخری الفاظ تھے:

”میں اچھی طرح سن نہیں پا رہا، میری آنکھوں کے سامنے دھند سی ہے، لیکن یہ ختم ہو جائے گی، ہے نا؟ کل صبح کھڑکی کھولنا مت بھولنا۔“ اس کے بعد بورس ایک حرف بھی نہیں بول سکے اور چل بسے۔ تمام تر خوف اور پابندیوں کے باوجود ہزاروں شہریوں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

1964ء میں جب خروشیف کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو اس نے”ڈاکٹر زواگو“ کا مطالعہ کیا، تب وہ خوب پچھتایا کہ کاش! اس نے ناول کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے ہوتے۔ 1965ء میں ناول پر ایک فلم بھی بنی، جسے آسکر ایوارڈ ملا۔ 1988ء میں ناول سوویت یونین میں شائع ہوا، یہ وہ وقت تھا کہ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہونے والا تھا، جبر کا نظام چلانے والوں میں کوئی دم خم باقی نہ رہا، ان کی عائد کردہ پابندیاں خود بخود ٹوٹ گئیں۔

٭ ناول روس میں کیسے پہنچا؟

یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ڈچ خفیہ ایجنسی کے ایک ایجنٹ ’جوپ وان ڈر ولڈن‘ سے کہا گیا کہ اس نے ایک خاکی لفافے میں پیک چیز کو اپنے ساتھ لے کر سوویت یونین جانا ہے۔ اس اہم ترین چیز کا تعلق فوجی ٹیکنالوجی سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک کتاب تھی، ایک ناول! روسی زبان میں ڈاکٹر زواگو کے پہلے روسی ایڈیشن کی کاپی۔ ایجنٹ کی بیوی ’ریچل‘، جو برطانوی خفیہ ایجنسی’ایم آئی سکس‘ میں کام کر چکی تھی، بھی اس منصوبے میں پوری طرح ملوث تھی۔ منصوبہ تیار ہوا۔ اس منصوبے میں شامل سب لوگ نہایت پرجوش تھے، اور متجسس بھی کہ آیا یہ ناول سوویت یونین کی حدود کے اندر جا سکے گا یا نہیں۔ اور پھر’جوپ وان ڈر ولڈن‘ اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا۔

٭ناول کی کہانی

یہ ناول ڈاکٹر یوری زواگو کے دکھوں کی کہانی ہے جو دو عورتوں کی محبت میں بٹ کر رہ گیاہے۔ روس کی برف پوش دھرتی سے جنم لینے والی جنون اور پیار کی کہانی۔ ایسی کہانیاں بہت کم لکھی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر زواگو شاعر بھی ہے۔ وہ ایسے حالات میں جی رہا ہے جب غریبوں نے امیروں کے خلاف بغاوت کر دی تھی، بادشاہ کو خاندان سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر اپنے بیوی بچوں کو مشکل ترین حالات سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

یوری زواگو کی ماں ’ماریہ زواگو‘ اس وقت مر جاتی ہے جب وہ ابھی کم سن لڑکا ہوتا ہے۔ اسے ابھی تک یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا باپ بہت عرصہ پہلے اس کی ماں کو چھوڑ چکا ہے۔ ماں نے ہمیشہ یہی بتایا کہ تمھارے ابا کاروبار کے سلسلے میں بہت دور گئے ہوئے ہیں۔ کوئی وقت تھا کہ لڑکے کا ابا ماسکو کے دولت مند تاجروں میں شامل تھا لیکن پھر اس نے سائبیریا میں جا کر شراب و شباب کے چکر میں ساری دولت ضائع اور اپنا کاروبار تباہ کردیا اور خاندان کی جمع پونجی بھی اڑا دی۔ اب وہ سب غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔

’ماریہ زواگو‘کے مرنے کے بعد لڑکے کی پرورش اس کا ماموں نکولائی نکولا ئیوچ کرتا ہے۔ وہ ایک فلسفی اور سابق پادری ہوتا ہے۔ اب وہ ایک پبلشر کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ناول کے پہلے باب میں عمومی طور پر اس کے کرداروں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ یوری زواگو ماسکو کی یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لیتا ہے۔ وہ فارغ وقت میں شاعری بھی کرتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس کی شادی ماموں لکولائی نکولائیوچ کی بیٹی سے کردی جاتی ہے، ان کا ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے: ’ساشا‘۔ بعدازاں زواگو فوج میں میڈیکل افسر بنتا ہے اور ایک قصبے میں تعینات ہوتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات ’لارا‘ سے ہوتی ہے۔ وہ اسے پہلے بھی دو بار دیکھ چکا ہے۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں