ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، سکالر ، ریاست جموں و کشمیر

ہند میں اجنبی ( چھٹی اور آخری قسط )

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
ریسرچ اسکالر کشمیریونیورسٹی ، سرینگر

پہلے یہ پڑھیے :
ہند میں اجنبی ( قسط اول )
ہند میں اجنبی ( قسط دوم )
ہند میں اجنبی ( قسط سوم )
ہند میں اجنبی ( قسط چہارم )
ہند میں اجنبی ( قسط پنجم )

راقم بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر دلی پہنچا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کشمیر کے کسی پُرانے شہر میں گھوم رہا ہوں۔ گلیاں اسی طرح گندی ، سڑکوں پر اسی طرح تجاوزات ، ہر طرف تعفن اور گندگی کے ڈھیر ۔ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں گلی کوچوں ، سڑکوں ، شاہراہوں اور محلوں کی حالت زیادہ ہی گِیر ہے۔ بستیاں انتظامیہ کی لا پرواہی اورعدم توجہی کے عین گواہ ہیں۔

26 جنوری کے موقع پر کشمیر کی طرح دہلی بھی ایک محاصرہ زدہ شہر کی مانند دکھائی دیتا ہے ۔ پاکستانیوں اور کبھی کبھی کشمیریوں سے بھی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس خالی کرا لیے جاتے ہیں ۔ بڑا ہی نرالا انداز ہے ہندوستانی حکمرانوں کا اپنے’ اٹوٹ انگ ‘ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا اور ’ عزت ‘ بخشنے کا۔

علی گڑھ اور دہلی میں اکثر رکشا کی سواری کا لطف اُٹھایا ۔ وہاں ہزاروں رکشا والے دوسرے انسان کا بوجھ کھینچتے ہوئے ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پکارتے رہتے ہیں لیکن سب صدا بصحرا ۔۔۔!

شاہدلون صاحب کی معیت میں مرکز جماعت اسلامی ہند کا چکر بھی کاٹا ، مولانا رضی الاسلام ندوی اور مولانا فاروق خان صاحب سے مستفید ہونے کے لئے ۔ ندوی صاحب تو علی گڑھ گئے ہوئے تھے البتہ صوفی منش بزرگ فاروق خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ موصوف بہت ہی پرسکون ، مطمئن اور شوخ طبیعت شخصیت ہیں ۔ عالمِ پیری میں ہیں لیکن اپنی پوری زندگی جماعت کو وقف کی ہے ۔

اس عمر کے بزرگ گھروں میں چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ سہارا لے کر اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔ مگرموصوف کا اوڑھنا بچھونا جماعت اسلامی ، تحقیق وتصنیف اور قرآن و احادیث کے بحر بیکراں خزینے کی غوطہ زنی ہے ۔ انہوں نے ہندوستان کی اکثریت تک قرآن کا پیغام ہندی زبان میں ترجمہ کرکے پہنچایا ۔ احادیث پر بھی ان کا غیر معمولی کام ہے ۔

ان کی تشریح متنوع خوبیوں کی حامل ہے ۔ داعیانہ ، ادیبانہ و فلسفیانہ مزاج ان کے قلم سے بھی مترشح ہیں ۔ شعر و شاعری کے میدان کے بھی شہسوار ہیں اور جو کوئی ان سے ملنے جاتا ہے ، اپنا کلام مترنم آواز میں سناتے ہیں ۔ ہماری خاطر تواضع رس گلوں سے کی بعدازاں اپناکلام بھی سنایا۔ رخصت ہوئے تو اپنی تازہ کتاب تحفہ میں دے دیں۔

دہلی میں چند روز آبلہ پائی کے بعد واپسی کا ِ رخت ِسفر باندھا۔ وادی کی ٹھنڈی ہوائیں ، برف آشنا پہاڑ ، نسیم جاں کو معطر کرنے والی فضا پکار رہے تھے ۔ شاہد لون صاحب سے بادل ناخواستہ رخصتی چاہی ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ تک وہ رکشا میں ساتھ تھے اور وہاں سے میں یادوں کے ہمراہ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی طرف چل پڑا۔ 2 بجے کی فلائٹ تھی۔ ضروری لوازمات پُر کرکے مطلوبہ جہاز Go Air کے انتظار میں تھا۔ کچھ ساعتوں کے بعد بادلوں کو چیرتا ہوا وہ آہستہ خرامی سے ہمارے استقبال کے لیے فرش پر چشم براہ تھا۔

جہاز میں اپنی جگہ لے کر بیتے دنوں کو یاد کرنے لگا۔ وسیم مکائی صاحب ، عبد الحسیب صاحب ، شفاعت مقبول صاحب ، مزمل احمد صاحب ، شیخ منصور صاحب ، محمد شاہد لون صاحب ، ڈاکٹرعبد الرؤف صاحب اور سمیع اللہ بٹ کے چہرے ذہن پر نقش تھے۔ اُن کی معیت و رفاقت اس سفر کے دوران واقعی نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔

خیالات کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں جب لوٹ آیا تو جہاز بادلوں پر تیر رہا تھا۔ وطنِ عزیز سے آسمان اب بھی روٹھا ہوا ہی تھا۔ برف اور بارش کے لیے یہاں کی مخلوق ابھی تک ترس رہے تھے۔ جہاز کے اُوپر سے سورج اپنے آب و تاب سے منور تھا۔ اُس کی شعاعیں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ موقع ِغنیمت جان کر بادلوں سے دوبارہ ’مکالمہ‘کی اجازت چاہی جو انھوں نے ’بطیبِ خاطر‘ قبول کی۔

میں نے شکوہ کیا کہ جیسا چھوڑ کے گیا تھا، لوٹ کے ویسا ہی پایا؟ وطنِ عزیز میں دھوپ کی تپش میں جھلستے بشر اور شجر، سور ج کی حدت میں تپتی پیاسی زمین ، تیری کھڑکیوں کے وَا ہونے کے لیے بے تابی سے منتظر ہیں ……کیا تجھے معلوم نہیں کہ مینہ برستے ہی وہاں کی فضا پپیہے کی پیہُو، راگ ملہار کی الاپ اور ساون کے گیتوں سے گونج اُٹھتی ہے۔ وادیئ پُرخار میں برسات کی آمد کے منتظر دہقان آسمان پر چھائے بادلوں سے منت کرتے ہیں کہ ’برسو اور کھیتوں کو سیراب کر دو‘۔ بارش کی پھوہار ہزاروں سوختہ دلوں کی دلبستگی کا سامان ہے……پردہئ سحاب سے جوابِ شکوہ کچھ یوں آیا،’متحرک ہوں تو باد، ساکن رہوں تو ’ہوا‘ بن جاتاہوں ……

پانی رحمت کی علامت ہے اور تم بے نصیبے ابھی اس سے کوسوں دور ……ابھی اَبر کی کھڑکیوں کو کھلنے کا امر نہیں ملا…… مشامِ جاں کو تو وہاں قانون کے ’محافظ‘ آئے دن’معطر‘ کر ہی رہے ہیں۔ گُل و بلبل بھی اب لال رنگ کے قطروں سے ہی مانوس ہیں۔ دہقاں ، کشت و خیابیاں میں بھی اب ’ لال ‘ رنگ کے قطروں کے جوئے رواں ہیں ……زبان سِل، دل کو سمجھا اور غور سے سُن ؎

کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں

تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں