دو مئی دو ہزار چوبیس
آج صبح اٹھ کر دوستوں کے ساتھ ناشتہ کیا۔ ولے کا باہر کا موسم خوشگوار تھا۔ میر حمید میر نے خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ہوئے ہم دوستوں کی تصویریں کھینچی ۔ ان کا موبائل فون اس سفر میں سب سے زیادہ استعمال ہوا۔
آج ہم نے چئیر لفٹ سے بحر کیسپین کے ساحل کے ساتھ ساتھ خوبصورت سرسبز و شاداب پہاڑ پر جانا ہے۔ ہمارے کراچی کے دوست یہاں پر بھی دیر سے اٹھے تھے جن کی وجہ سے ہم بھی اپنے دن کا آغاز لیٹ کررہے تھے۔ وین پر بیٹھ کر ہم بحر کیسپین کے ساتھ ساتھ سرسبز و شاداب علاقوں سے گزر کر اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچے۔ یہاں پر ہم بحر کیسپین کے کنارے پہنچ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف واٹر اسپورٹس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم بھی ساحل تک اترے۔ مقصود یہ تھا کہ بحر کیسپین کے پانیوں میں ہاتھ گیلے کیے جائیں۔
کسی نے بتایا تھا کہ بحر کیسپین کا پانی باقی سمندروں کے پانی سے قدرے کم نمکین ہوتا ہے۔ بحر کیسپین باقی بحر اعظموں سے جدا اور کٹا ہوا ہے۔ یہ چاروں طرف زمین کی وجہ دنیا کے سمندری نیٹ ورک سے الگ ہے۔ یہ ہر طرف سے سرسبزوشاداب بھی ہے۔ موسم ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ یہاں کچھ دیر موسم کو انجوائے کرنے کے بعد ساتھ ہی رامسر چئیرلفٹ کے ٹکٹس کی وصولی کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ویک اینڈ کی وجہ سے یہاں سیاحوں کا کافی رش تھا۔ لوگ فیمیلیز کے ساتھ آئے تھے۔ ٹکٹس لینے کی جگہ میں بھی انتظامات کافی بہتر تھے۔ منظم انداز میں بیک وقت سینکڑوں لوگوں کو ٹکٹس جاری کیے جارہے تھے۔ لوگ بھی تعاون کررہے تھے۔ ٹکٹس لیکر چار، چار کی ٹولی میں چئیر لفٹ میں سوار ہوتے گئے۔
جیسے ہی پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوئے، چاروں طرف کے مناظر دلکش ہوتے گئے۔ چئیر لفٹ صاف ستھرے اور نئے تھے۔ جب پہاڑ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ہم بہت زیادہ اونچائی پر پہنچ چکے ہیں۔ یہاں پر سب سے اہم بات یہ نوٹ کی کہ صفائی ستھرائی کا اچھا انتظام کیا گیا تھا۔ لوگ بہت ہی مہذب انداز میں انجوائے کررہے تھے۔ یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے علاقوں میں مری، ناران، کاغان اور زیارت بلوچستان میں اکثر تفریح کے نام پر ہلڑ بازی کی جاتی ہے۔
پہاڑ کی چوٹی پر ہمیں بادلوں نے چاروں جانب سے گھیر لیا۔ یہ بھی ایک زبردست تجربہ تھا۔ ہمارے گروپ میں نثار لال، سجاد، مسلم،عادل اور عقیل تھے۔ یہاں ایک جگہ بیٹھ کر موسم کو انجوائے کررہے تھے کہ کسی موضوع پر نثار لال نے بولنا شروع کیا۔ کیا اسٹائل تھا بھائی کا۔ بہت کم لوگوں کو میں نے کمیونیکیشن اسکلز کا استعمال اس انداز میں دیکھا ہے۔ جادوئی اسٹائل تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ ریکارڈ کرتے ہیں جو انہوں نے منع کیا۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اس لیے احتیاط کررہے تھے۔ مجھے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بلوچستان یونیورسیٹی انجینئیرنگ، ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ سائنس سے ایم بی اے کیا ہے۔ انھوں نے ایک کورس وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال سے بھی پڑھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:7)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:6)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:5)
کچھ دیر سمٹ پر خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ بادلوں میں گھرے نظارے روح کو تازگی بخشتے رہے۔ واپسی کا سفر شروع کیا۔ نیچے اترے تو اعلان ہوا کہ اب ہم نے رامسر کے پہاڑی علاقوں میں ایک خاتون جو خالہ مرضیہ کے نام سےمشہور ہیں ان کے ریسٹورنٹ کھانا کھانے جانا ہے۔ خالہ مرضیہ اس علاقے کی مشہور خاتون ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ سیاحوں کو ایران کی روایتی کھانے بناکر پیش کرتی ہیں۔
پچھلے سال بھی ہمارے دوست یہاں کھانا کھانے آئے تھے۔ وہ ان کی بہت زیادہ تعریف کررہے تھے۔ ہم پوچھ پوچھ کر پہاڑوں میں ان کے ریسٹورنٹ میں پہنچ گئے جو رامسر میں لیمیسر کے علاقے میں واقع ہے۔ وہاں کافی رش تھا۔ فیملیز ہی فیملیز تھیں جو خالہ مرضیہ کے پاس آئی تھیں۔ دوستوں نے کہا کہ قہوہ کو ٹرائی کریں جو وہاں فری پیش کیا جارہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے کپ بھرتے اور ساتھ شوگر کیوبز لے کر انجوائے کررہے تھے۔ مجھے دوست ان کے پاس لے کر گئے۔ وہ بہت زیادہ مصروف تھیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ہم خاص طور ان کا انٹرویو کرنا چاہ رہے ہیں تو وہ بڑی شفقت سے ملیں۔ کھانے کے لیے کافی انتظار کے بعد ہمیں ایک ہٹ ملا۔ جب کھانا پیش کیا گیا تو واقعی قابل تعریف اور خوش ذائقہ تھا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ خالہ مرضیہ ایک خاتون ہوتے ہوئے ایک ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں اور بہت خوش اخلاقی کے ساتھ رش کے باوجود ہر کسٹمر کو عزت سے پیش آرہی تھیں۔ خالہ مرضیہ جس علاقے میں یہ ریسٹورنٹ چلارہی ہیں وہ چاروں طرف سرسبزو شاداب پہاڑی علاقہ ہے۔ موسم خوشگوار ہے۔ پھلوں کے باغات میں گھرے ہوئے اس ریسٹورنٹ میں آپ بھی ضرور جائیے گا۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ ہماری وین جو ڈرائیور صاحب نے جس جگہ پارک کی تھی اب وہ چڑھائی کی وجہ سے اوپر نہیں آ رہی ہے۔ کافی جدوجہد کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ یہ کافی رسکی کام ہے۔ خدانخواستہ اگر وین سلپ کر گئی تو نیچے کھائی میں جاسکتی ہے، ہمیں ٹوچن کے لیے کسی طاقتور گاڑی کا انتظام کرنا چاہیے۔ کچھ دیر بعد مقامی لوگوں کی مدد سے ایک ٹوچن والی گاڑی جو رشین میڈ تھی لائی گئی جس نے کمال ہنر مندی سے صرف پانچ منٹ میں ہماری وین کو کھنچ کر اوپر میں روڈ تک پہنچا دیا۔
یہاں یہ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ عین جنگل کے بیچ یہ ٹوچن والے نے ہمیں جو خدمات پیش کی تھیں اس پر پندرہ ملین ریال کا خرچہ آیا تھا۔ عین جنگل میں پیمنٹ کارڈ سے کی گئی جو وہ اپنے ساتھ گاڑی میں ہر وقت رکھتے ہیں۔ ایران میں ہر جگہ پیمنٹ کارڈ سے ہی کی جاتی ہے۔ کیش لس ہیمنٹ کا بہت ہی مؤثر نظام موجود ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑی نقصان سے محفوظ رکھا۔
اس ایڈونچر کے بعد ہماری منزل شاہ ایران کا سرمائی محل تھا، ہم نے اسے دیکھنے جانا تھا۔ وہاں پہنچے تو بہت ہی خوبصورت اور طویل بلیورڑ پر چلنا شروع کیا۔ یہ بلیورڑ ایک قطار میں بنایا گیا تھا جو ڈھائی کلومیٹر طویل ہے۔ ایک کونے میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ہم محل کی بالکل مخالف سمت میں کھڑے ہیں اور ہمارے سامنے شاہ ایران کے دور کا بار اور کلب ہے۔ پھر چلنا شروع کیا۔ میں عادل، نثار لال گپ شپ میں مصروف تھے اور یہ ڈھائی کلومیٹر کی واک ہم نے کی لیکن کئی انکشافات سننے کے بعد جو نثار لال اور عادل نے کیے تھے۔ یہ ڈھائی کلو میٹر کا راستہ بہت خوبصورت درختوں کی قطار میں ایک عجب ہی منظر پیش کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:4)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:3)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:2)
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:1)
شاہ ایران کا یہ محل ان کی گرمیوں کی چھٹیوں اور مہمانوں سے ملاقات کیلیے بنایا گیا تھا۔ شاہ ایران کے بعد اسے ایک ہوٹل میں بدلا گیا۔ اب وہ سیاحوں کیلیے تفریح کے طور پر رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی مشہور رامسر کا ٖفور اسٹار ہوٹل بنایا گیا۔ کیا زبردست لوکیشن اور کیا ہی زبردست موسم۔ ہر طرف ہریالی اور سرسبز و شاداب پہاڑ۔
یہاں سے فارغ ہوئے تو واپس ولا جانا تھا۔ راستے میں ایک جگہ ایران کی مشہور سنگکی روٹی کیلیے رکے۔ میں وین میں بیٹھا تھا کہ دوستوں نے کہا آپ اس فیکٹری کی ویڈیو بنائیں۔ جب میں اندر گیا تو اس چھوٹی نان فیکٹری کے مالک کو برا لگا کہ بغیر اجازت اندر گئے۔ ان کی اور ہمارے علی رئیسی بھائی کی آپس میں تو تو میں ہوگئی۔ ہم نے علی بھائی سے کہا کہ چھوڑ دیں، معاملہ رفع دفع کریں۔ ہم بغیر سنگکی روٹی لیے روانہ ہوئے تھے جو بھٹی میں چھوٹے چھوٹے پتھروں کے اوپر بنائے جارہی تھی اس سے محروم رہ گئے۔ اگلی مرتبہ انشاءاللہ ضرور کھائیں گے۔ ولا پہنچے، نمازیں ادا کیں، چائے کو انجوائے کیا۔ رات کا کھانا نثار لال نے تیار کیا۔ آج بریانی کے ساتھ ساتھ کباب بنائے گئے تھے۔ کھانے سے پہلے سوئمنگ کی۔ یہ ہمارے لیے زبردست تجربہ تھا اس کو چھوڑ نہیں کرسکتے تھے۔ کھانے کے بعد میں نے نیچے فلور پر صوفے کو اپنے لیے منتخب کیا۔ پچھلی رات نیند پوری نہیں کی تھی۔ آج اکیلے صوفے کے اوپر لیٹ گیا۔ تھکاوٹ کہ وجہ جلد ہی نیند آگئی۔
تبصرہ کریں